Tafseer-e-Madani - An-Naml : 80
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
آپ نہ تو مردوں کو کسی قیمت پر سنا سکتے ہیں اور نہ ہی ان بہروں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو پھرجائیں حق سے پیٹھ دے کر
87 مردوں کو سنانا کسی کے بس میں نہیں : سو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ " آپ ﷺ ۔ اے پیغمبر !۔ مردوں کو نہیں سنا سکتے "۔ یہاں پر کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح آپ ﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے اسی طرح ان کفار کو بھی سنانا اور حق قبول کرا دینا آپ کے بس میں نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تشبیہ اسی صورت میں صحیح ہوسکتی ہے جبکہ مردے نہ سنتے ہوں۔ ورنہ اس تشبیہ کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا۔ لہذا اہل بدعت کی یہ خوشی فہمی یا مغالطہ آفرینی پا در ہوا ہوجاتی ہے کہ اس سے سماع موتیٰ کی نفی نہیں ہوتی۔ مگر واضح رہے کہ یہاں پر { تسمع } فرمایا گیا ہے۔ یعنی " آپ نہیں سنا سکتے "۔ تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ اگر سنانا چاہے تو سنا سکتا ہے کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جیسا کہ قلیب بدر میں حضور کا مردوں سے خطاب فرمانا یا قرع نعال والی حدیث وغیرہ سے ثابت ہے کہ یہ سب خرق عادت اور معجزے کے قبیل میں سے ہے ۔ فلا یَقَاس علیہ و ظاہر نفی سماع الموتی العموم فلا یخصّ منہ اِلَّا ما ورد بدلیل ۔ (المراغی : ج 20 ص 19) ۔ مسئلہ بہرحال اختلافی ہے۔ سلف میں بھی اور خلف میں بھی۔ کسی نے ایک رائے کو ترجیح دی اور کسی نے دوسری کو ۔ والتفصیل فی المطولات ۔ ہمارے نزدیک راحج قول یہ ہے کہ جہاں پر روایات میں ثابت ہے وہ ثابت ہے۔ اور اس کے علاوہ محض قیاس و رائے سے ثابت کرنا درست نہیں ۔ وَالْعِلمَ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہ وَتَعالٰی وھو اعلْمُ بالصّواب وَعِلْمَہ اَتَمُّ واَحْکَمُ فِیْ کُلِّ بابٍ ۔ سو اس آیت کریمہ میں پیغمبر کیلئے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے کہ اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور دعوت حق کو قبول نہیں کرتے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ بلکہ قصور سب کا سب انہی لوگوں کا ہے کہ انہوں نے حق کو ماننے اور قبول کرنے کے سب راستے اپنے لیے بند کردیئے۔ اور یہ اندھے اور بہرے بن کر رہ گئے۔ اور اندھوں بہروں کو سنانا اور ان کو کفر و باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر حق و ہدایت کی شاہراہ پر لے آنا اور نور حق و ہدایت سے منور و سرشار کرنا آپ ﷺ کے بس میں نہیں۔ آپ ﷺ تو انہیں کو سنا سکتے ہیں اور راہ حق پر لاسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لانے کیلئے تیار ہوں اور وہ بات ماننے والے ہوں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وعلی سبیل الدوام والتابید ۔ وہو فعال لما یرید -
Top