Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 134
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے ثَوَابَ الدُّنْيَا : دنیا کا ثواب فَعِنْدَ اللّٰهِ : تو اللہ کے پاس ثَوَابُ : ثواب الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
جو شخص ارادہ کرے دنیا کے ثواب کا تو اللہ کے پاس دنیا و آخرت کا ثواب ہے اور اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
آخر میں فرمایا (مَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَاب الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَاب الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ ) اللہ سے آخرت کا ثواب مانگے اور اس کی آرزو بھی رکھے جو شخص دنیا کا طالب ہے اسے بتادو کہ اللہ کے پاس دونوں جہاں کا ثواب ہے۔ اشرف ترین چیز یعنی ثواب آخرت کا طالب ہونا چاہیے۔ (روح المعانی صفحہ 166: ج 5) حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کا مقصد آخرت ہی بن جائے اللہ تعالیٰ اس کے منتشر امور کو جمع فرما دے گا اور اس کے دل کو غنی کر دے گا اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی اور جس کی نیت حصول دنیا ہو اس کے کاموں کو منتشر فرما دے گا اور اس کی آنکھوں کے سامنے تنگی کر دے گا۔ اور دنیا اسے اتنی ہی ملے گی جتنی اس کے لیے لکھ دی گئی۔ (الترغیب و الترہیب صفحہ 121: ج 4) آخر میں فرمایا (وَ کَان اللّٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا) یعنی اللہ تعالیٰ تمام اقوال کو سنتا ہے اور تمام احوال کو دیکھتا ہے۔ جو لوگ طالب دنیا ہیں صرف دنیا کے لیے عمل کرتے ہیں آخرت کی طرف نہیں بڑھتے اللہ تعالیٰ کو ان سب کا علم ہے جو لوگ ریا کاری کے طور پر عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ان کا حال پوشیدہ نہیں ہے وہ اپنے علم کے مطابق بدلہ دے گا۔ قال صاحب الروح صفحہ 167: ج 5 ای کیف یرائی المرائی وان اللّٰہ سمیع بما یھجس فی خاطرہ و ما تامرہ بہ دواعیہ بصیر باحوالہ کلھا ظاھرھا و باطنھا و یجازیہ علیٰ ذلک۔
Top