Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور اگر تم کو ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو، تین تین، چار چار سو اگر تم کو ڈر ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرلو، یا ان لونڈیوں پر بس کرو جو تمہاری ملکیت ہوں۔ یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو
یتیم بچیوں کے نکاح کرنے کے بارے میں ہدایت آیت کا مضمون سمجھنے سے پہلے سبب نزول ذہن نشین کرلینا چاہیے تفسیر درمنثور صفحہ 118: ج 2 میں بخاری وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اے میری بہن کے بیٹے اس آیت میں ایسی یتیم بچیوں کا ذکر ہے جن کا باپ فوت ہوجاتا تھا اور جو مال میراث میں ملتا وہ اس بچی اور اس کے ولی کا مال مشترک ہوتا تھا جسے تقسیم کرنا لازم تھا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جو شخص اس یتیم بچی کا ولی (سر پرست) ہوتا تھا وہ اس کے مال میں یا جمال میں رغبت رکھنے کی وجہ سے اس سے نکاح کرلیتا تھا لیکن بچی چونکہ اپنے ہی گھر میں اپنی ہی پرورش میں ہے اس لیے اس کا مہر جس قدر ہونا چاہیے اتنا مقرر نہیں کرتے تھے۔ دوسری جگہ سے جو مہر ملتا اس سے کم مقرر کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اس بات سے منع فرما دیا گیا کہ ان لڑکیوں سے نکاح کریں اور پورا مہر نہ دیں، بلکہ حکم یہ فرمایا کہ ان لڑکیوں کو پورا حق مہر دو جتنا زیادہ سے زیادہ ان کو دوسری جگہ سے مل سکتا تھا۔ (راجع صحیح البخاری صفحہ 772: ج 2) اور یہ بھی حکم فرمایا کہ اگر ان یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان کے علاوہ اپنی پسند کی دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ دوسری عورتوں سے نکاح کریں گے تو چونکہ وہ خود سوچ سمجھ والی ہوں گی اور پہلے سے ان پر قابو نہ ہوگا تو حسب منشا جتنا مہر چاہیں گی مقرر کرا لیں گی کیونکہ ان پر کوئی دباؤ نہ ہوگا، اگر کوئی شخص یتیم لڑکی ہی سے نکاح کرنا چاہے اور مہر اس کو پورا پورا دے تو یہ بھی درست ہے اسی لیے (وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا) فرمایا، نیز تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن جریر وغیرہ حضرت عائشہ ؓ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بعض مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص کی سرپرستی میں کوئی یتیم لڑکی ہے اور وہ مالدار بھی ہے تو جس کی سر پرستی میں ہے وہ اس سے مال کی وجہ سے نکاح کرلیتا تھا لیکن چونکہ طبعی طور پر اسے پسند نہ تھی اس لیے اس کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا لہٰذا اس بارے میں نصیحت فرمائی۔ سبب نزول کے جاننے سے معلوم ہوا کہ یتیم لڑکیاں جو صاحب مال ہوتی تھیں ان سے نکاح تو کرلیتے تھے لیکن ان سے سلوک اچھا نہ رکھتے تھے اور ان کو مہر بھی اتنا نہ دیتے تھے۔ جتنا ان کو اور جگہ سے مل سکتا تھا۔ لہٰذا ان کو حکم دیا کہ اگر تمہیں یہ ڈرہو کہ یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔ چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت اور عدل کرنے کا حکم : اور ساتھ ہی ساتھ عورتوں کی تعداد کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ جو عورتیں پسند ہوں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرسکتے ہو اور اگر یہ ڈر ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اول تو ہر شخص کو بیک وقت دو یا تین یا چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ جو تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز ہے۔ فرض اور واجب نہیں ہے اور جائز بھی اس شرط پر ہے کہ جتنی بیویاں ہوں ان سب کے درمیان عدل و انصاف رکھے۔ قلبی تعلق پر تو مواخذہ (گرفت) نہیں ہے کہ یہ اختیاری چیز نہیں۔ البتہ اختیاری چیز میں عدل نہ کیا تو گرفت ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس دو عورتیں ہوں اور وہ ان دونوں عورتوں کے درمیان عدل یعنی برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا، جتنی راتیں ایک کے پاس رہے اتنی ہی راتیں دوسری کے پاس رہے تقسیم جس طرح چاہے کرے اس کے اختیار میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : صفحہ 279: از ترمذی وغیرہ) بہت سے لوگ پیسہ زیادہ ہونے کی وجہ سے یا خواہ مخواہ شوق میں آکر پہلی بیوی پرانی ہوجانے کی وجہ سے یا نئی بیوی کے مالدار ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ لیکن پھر برابری نہیں کرتے اور کسی ایک کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی کرتے رہتے ہیں یہ شرعاً حرام ہے۔ اگر کسی کو برابری پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھے تاکہ ظلم و زیادتی سے محفوظ رہے۔ فائدہ : شریعت اسلامیہ میں بیک وقت صرف چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے مگر مذکورہ بالا شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ دوسری قوموں میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں ان کے یہاں یہ جائز ہے کہ بہت سی دوستانیاں (گرل فرینڈز) رکھ لے۔ زنا کاری کرنا ان کے نزدیک کچھ عیب کی بات نہیں ہے البتہ نکاح کر کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا اور حلال طریقہ سے زندگی گزارنا ان کے نزدیک عیب ہے۔ اسلام پر جو بعض جاہلوں کے اعتراضات ہیں ان میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اول تو چار تک کی اجازت ہے واجب نہیں۔ دوسرے دنیاوی احوال کے اعتبار سے اس اجازت کی ضرورت ہے اول تو اس میں نسل بڑھانے کا فائدہ ہے اور دوسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ جب کسی وجہ سے مردوں کی قلت ہوجائے (جیسا کہ جہاد کے مواقع میں مرد شہید ہوجاتے ہیں) تو عورتیں بیوہ ہوجائیں۔ تحفظ آبرو کے ساتھ ان کے اخراجات کا انتظام ہوجائے۔ پھر جب عورتوں کی کثرت ہو اور مردوں کی کمی ہو (جیسا کہ اس کا دور شروع ہوچکا ہے) تو عورتوں کی عفت و عصمت اور شریفانہ معیشت کا انتظام اسی میں ہے کہ مرد ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ جو لوگ گہرائیوں میں نہیں جاتے۔ حکمتوں کو نہیں سمجھتے انہوں نے اپنے ذمہ صرف اعتراض کرنا ہی لے رکھا ہے جب اجازت اور اباحت کو عدل و انصاف کے ساتھ مشروط و مقید کردیا گیا تو پھر کسی عقلمند کے لیے کسی طرح بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔ پھر آیت کے خاتمے پر فرمایا : (ذٰلِکَ اَدْنآی اَلَّا تَعُوْلُوْا) (یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو) یعنی نکاح کے بارے میں جو تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے اس کے مطابق عمل کرو گے تو ظلم و زیادتی سے محفوظ رہ سکتے ہو مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا ظلم سے بچانے کے لیے بہت زیادہ قریب تر ہے۔ فائدہ : بیک وقت چار عورتوں تک سے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن اس میں شرطیں ہیں ہر عورت سے نکاح نہیں ہوسکتا، مثلاً جو عورت کسی مرد کی عدت میں ہو اس سے نکاح نہیں ہوسکتا، دو بہنیں ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں اور جن عورتوں سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے ان سے کبھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ جس کی تفصیل اس سورت کے چوتھے رکوع میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اگر کوئی شخص بیک وقت چار عورتیں نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے نکاح کرے گا تو یہ نکاح شرعی نہ ہوگا اور یہ عورت اس کی شرعی بیوی نہ بن سکے گی زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ بغیر کسی قانون کے بہت سی عورتوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے۔ اسلام میں صرف چار تک کی اجازت دی گئی اور عدل و انصاف کی قید لگا دی گئی۔ غیلان بن سلمہ ثقفی ؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس عورتیں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو ۔ (رواہ ابن ماجہ فی کتاب الطلاق) باندیوں سے جماع کرنے کی اجازت : پھر فرمایا (اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) یعنی انصاف پر قائم نہ رہ سکنے کی صورت میں ایک بیوی پر اکتفا کرو۔ یا پھر ان باندیوں سے گزارہ کرو جو تمہاری ملکیت میں ہیں جو باندی ہو اس سے بھی بحق ملکیت جماع کرنا جائز ہے لیکن ان کے حقوق بیوی والے حقوق نہیں ہیں اگر کئی باندیاں ہوں تو ان سے جماع کرنا تو جائز ہے لیکن چونکہ جماع کا حق نہیں اس لیے ان کے درمیان راتیں تقسیم کرنا بھی لازم نہیں ہے۔ البتہ بسبب ملکیت ان کے کھلانے پلانے اور پہنانے کے جو حقوق ہیں وہ اپنی جگہ پر واجب ہیں۔ جو کافر عورتیں قید میں آجاتی تھیں ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جاتا تھا لہٰذا وہ ان کی ملکیت ہوجاتی تھیں اور ان سے گھر بار کی خدمت لینے کے علاوہ جماع کرنا بھی جائز تھا۔ اس کے جائز ہونے کی بھی کچھ شرطیں ہیں۔ جو کتب فقہ میں لکھی گئی ہیں۔ باندی سے جو اولاد ہوجاتی تھی وہ ثابت النسب ہوتی تھی اور وہ اولاد آزاد ہوتی تھی اور جس باندی سے اولاد پیدا ہوتی وہ باندی آقا کی موت کے بعد آزاد ہوجاتی تھی۔ تفصیلی احکام کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت : جب مسلمان جہاد کرتے تھے تو جن کافروں کو قید کرلیا جاتا تھا ان میں مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی۔ امیر المؤمنین کو اختیار تھا کہ ان کو جہاد کرنے والوں میں تقسیم کردے جب ان مجاہدین میں قیدی تقسیم ہوجاتے تھے تو ان کی ملکیت میں آجاتے تھے اس لیے ان کا بیچنا، فروخت کرنا جائز تھا اور یہ غلامی کفر کی سزا ہے اور اس میں ان غلاموں کا یہ نفع ہے کہ دار الاسلام میں رہیں گے تو مسلمانوں کے اسلامی معاشرہ سے مانوس ہوں گے اذانیں سنیں گے، نمازیں دیکھیں گے، اور اسلام قبول کریں گے، اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جائیں گے اور حکومت اسلامیہ کا یہ نفع ہے کہ جب ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا تو ان کی قوت بھی ٹوٹ گئی جس سے بغاوت کا اندیشہ تھا اور بیت المال پر ان قیدیوں کو کھلانے پلانے کا بار بھی نہ پڑا، اگر ان کو جیل میں رکھتے تو بغاوت کا بھی خطرہ تھا۔ آپس میں مشورہ کرتے رہتے اور دار الحرب سے تعلقات پید کرکے دار الاسلام میں فساد کا باعث بن جاتے اور بیت المال کو روزانہ ان لوگوں پر بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی۔ دوسری طرف مجاہدین کو نفع ہوا ان کو کام کاج کرنے والے افراد مل گئے اور چونکہ یہ لوگ اپنے مالکوں کا کام کریں گے اس لیے ان کو کھلانا پلانا بھی ناگوار نہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ جو غلام تمہارے احوال کے مناسب اور موافق ہو اسے اسی میں سے کھلاؤ جس میں سے تم کھاتے ہو اور اسی میں سے پہناؤ جس میں سے تم پہنتے ہو اور جو تمہارے احوال کے مناسب نہ ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو ، (رواہ احمد و ابوداؤد کمافی المشکوٰۃ صفحہ 292) مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے احوال کے موافق اور مناسب نہ ہوگا تو خواہ مخواہ اس کی مار پیٹ کی طرف بھی طبیعت چلے گی اور کھلانے پلانے میں بھی کوتاہی ہوگی اسے بیچ دو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ دوسری جگہ اس کے حال کے مناسب مل جائے گی جب غلام اسی کھانے میں سے کھائے گا جو گھر والوں کے لیے پکایا گیا اور اسی کپڑے میں سے پہنے گا جو دوسرے گھر والے پہنتے ہیں اور اس کے علاوہ روا داری، دلداری اور حسن معاشرت کے مظاہرے اس کے سامنے آئیں گے تو حسن و خوبی کے برتاؤ کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کرے گا اور رفتہ رفتہ اسلام قبول کرنے کے قریب تر آجائے گا۔ اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے محدثین ایسے حضرات گزرے ہیں جو غلام تھے۔ یا باندیوں کی اولاد تھے۔ حدیث کی کتابوں میں غلاموں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ گزارہ کرنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے کے بارے میں مفصل ہدایات موجود ہیں۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اپنے مرض الوفات میں بار بار یہ فرمایا الصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (کہ تم نماز کا دھیان رکھنا اور جو تمہارے غلام اور باندیاں ہو ان کے حقوق کی نگہداشت کرنا) (رواہ احمد صفحہ 817: ج 3) یہ ہے وہ غلامی جسے یورپ کے متعصب جاہلوں نے اعتراضات کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ فائدہ : غلام اور باندیوں کے جو احکام بیان ہوئے یہ سب اب بھی مشروع ہیں، کوئی بھی حکم منسوخ نہیں ہے لیکن اس دور میں مسلمان غلام اور باندیوں سے اس لیے محروم ہیں کہ اول تو اللہ کے لیے جہاد نہیں کرتے اور جو کوئی جنگ ہوتی ہے وہ دشمن کے اشارہ سے ہوتی ہے اور دشمن ہی کے اشارہ سے بند کردی جاتی ہے۔ پھر دشمنوں نے مسلم حکومتوں کو ایسے معاہدوں میں جکڑ رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ قیدیوں کو غلام اور باندیاں نہیں بنا سکتے، غلام اور باندیاں جو بہت بڑی نعمت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی تھی کہ گھر گھر ان کے باندیاں اور غلام ہوں ان سب سے یکسر محروم ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دشمنوں کے پنجے سے چھڑائے اپنے دین پر چلائے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور اصول شریعت کے مطابق جہاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ نوکرانیاں باندیاں نہیں ہیں ان سے جماع کرنا حرام ہے اور آزاد لڑکے اور لڑکی کو فروخت کرنا بھی حرام ہے وہ باندیاں جن سے جماع کرنا جائز ہے وہ یہ قیدی ہیں جو جہاد کے موقع پر لائے گئے ہوں اور جنہیں امیر المؤمنین نے مجاہدین میں تقسیم کردیا ہو۔ اس کے سوا ابتداءً کسی مرد یا عورت کو غلام باندی بنانے کا کوئی راستہ نہیں۔ گھروں میں جو نوکرانیاں رکھ لیتے ہیں، یہ باندیاں نہیں ہیں ان سے پردہ بھی واجب ہے اور ان سے جماع کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح دوسری عورتوں سے حرام ہے۔ ان عورتوں سے جماع کرنا سراپا زنا کاری ہے اس کو خوب سمجھ لیاجائے، اگر کسی لڑکی کے ماں باپ لڑکی فروخت کردیں یا کہیں سے اغوا کر کے کوئی لا کر بیچ دے یا کوئی عورت خود سے کہہ دے کہ میں باندی بن کر رہوں گی اس طرح سے وہ شرعی باندی نہ بنے گی اور اس سے جو جماع کیا جائے گا وہ زنا ہوگا۔ کیسی عورتوں سے نکاح کیا جائے : (فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ) میں لفظ طاب فرمایا ہے یہ خوبی بہتری اور عمدگی کے معنی میں آتا ہے اس کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ جو عورتیں تمہیں پسند ہوں اس سے نکاح کرلو۔ پسند آنے کے اسباب میں حسن و جمال بھی ہے۔ مال بھی ہے اور دین داری بھی ہے۔ خوش خلقی بھی ہے اور بہت سے اوصاف ہیں جو عورتوں میں ہوتے ہیں۔ آیت کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ خوبی والی عورتیں تلاش کرنا غلط کام نہیں ہے بلکہ اس کی اجازت ہے اگر حسن و جمال کو دیکھا جائے تو یہ بھی جائز ہے البتہ دیندار کو ترجیح دینی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار چیزوں کی وجہ سے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اس کے صاحب مرتبہ ہونے کی وجہ سے (شخصی حیثیت کی وجہ سے) اس کے جمال کی وجہ سے، اس کے دین کی وجہ سے، پس اے مخاطب تو دین والی کو حاصل کر کے کامیاب ہوجا، اللہ تیرا بھلا کرے۔ (رواہ مسلم صفحہ 473: ج 1) اچھی بیوی کی صفات : ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا ساری کی ساری نفع کی چیز ہے اور دنیا کے منافع میں سب سے بہتر چیز نیک عورت ہے (رواہ مسلم صفحہ 475: ج 1) حضرت ابو ہریرۃ ؓ آنحضرت سرور عالم ﷺ کا یہ ارشاد بھی نقل فرماتے ہیں کہ بہتر عورتیں جو اونٹوں پر سوار ہیں (عرب عورتیں) قریش کی وہ عورتیں ہیں جو بچوں پر بہت زیادہ شفیق ہوتی ہیں اور شوہر کے مال کی بہت زیادہ حفاظت کرتی ہیں (رواہ البخاری صفحہ 760: ج 2) حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ کے بعد جو چیزیں بندہ کو حاصل ہوں ان میں نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی بہترین نعمت نہیں۔ پھر نیک بیوی کے اوصاف بیان فرمائے۔ (1) اگر اسے حکم دے تو فرمانبر داری کرے۔ (2) اور اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کرے۔ (3) اور شوہر کوئی قسم کھائے (جو عورت کے عمل کرنے سے متعلق ہو مثلاً یوں کہے کہ تم فلاں کام ضرور ضرور کرو گی) تو اس کی قسم پوری کرے۔ (4) اور اگر شوہر کہیں چلا جائے تو اپنی جان اور شوہر کے مال میں خیر خواہی کرے۔ (رواہ ابن ماجہ صفحہ 132) جس طرح عورتوں میں دینداری کو دیکھ کر نکاح کرنے کو ترجیح دینی چاہیے اسی طرح لڑکیوں کے لیے مرد بھی نیک دیکھنے چاہیں۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغام بھیجے جس کی دینی اور اخلاقی حالت تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو ۔ اگر ایسا نہ کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ ہوگا اور (لمبا) چھوڑا فساد ہوگا۔ (رواہ الترمذی صفحہ 207: فی ابواب النکاح) نکاح کرنا شرعی ضرورت ہے : نکاح انسان کی ضروریات میں سے ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی خواہش رکھی ہے۔ یہ خواہش فطری اور طبعی ہے نفس اور نظر کو پاک رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ سنن ترمذی (اول کتاب النکاح) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں پیغمبروں کے طریقے میں سے ہیں۔ (1) حیاء (2) خوشبولگانا (3) مسواک کرنا (4) نکاح کرنا۔ نکاح کے بغیر رہنا کوئی کمال اور دینداری کی بات نہیں ہے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اے جوانو ! تم میں سے جسے نکاح کرنے پر قدرت ہو نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو پست رکھنے والا ہے اور شرم کی جگہ کو پاک رکھنے والا ہے، اور جسے نکاح کی قدرت نہ ہو وہ روزے رکھے کیونکہ اس سے شہوت دب جائے گی۔ (رواہ البخاری صفحہ 758: ج 2) قوت مردانہ زائل کرنے کی ممانعت : اگر نکاح کرنے کا موقع نہ لگے تو قوت مردانہ ختم کرنے کی اجازت نہیں البتہ عارضی طور پر اور بقدر ضرورت روزے رکھ کر شہوت کو دبا لے بعض صحابہ ؓ نے خصی ہونے اور قوت مردانہ زائل کرنے کی اجازت مانگی تو آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَصٰی وَلاَ اخْتَصٰی اِنَّ خَصَاءَ اُمَّتِیْ الصِّیَام یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہو بلاشبہ میری امت کا خصی ہونا یہ ہے کہ روزے رکھا کریں۔ (رواہ فی شرح السنہ کمافی مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 69) نکاح کرنے میں دینی، دنیاوی بہت سے منافع ہیں مرد کو سکون کی جگہ مل جاتی ہے، کام کاج کر کے تھکا ماندہ آکر آرام کا ٹھکانہ پکڑ لیتا ہے جسے سورت اعراف میں (لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا) سے تعبیر فرمایا اور عورت کو بھی اخراجات کی طرف سے اطمینان ہوجاتا ہے اسے کمانا نہیں پڑتا پردہ میں محفوظ رہتی ہے مرد و عورت دونوں کی حیثیت اور شخصیت بن جاتی ہے گھر بار والے آل اولاد والے کہلاتے ہیں پھر جو اولاد ہوتی ہے اس سے دل خوش ہوتا ہے بچوں کو کھلانے پلانے پہنانے سے مسرت کی لہریں دوڑ جاتی ہیں اور اس اولاد کو جب دین اور علم دین پر ڈالا جائے تو آخرت میں بھی رفع درجات کا ذریعہ بن جاتی ہے، اسلام کے احکام فطرت انسانیہ کے موافق ہیں۔ انسانی خواہشوں کو اسلام نے ختم نہیں فرمایا بلکہ ان کی حدود مقرر فرما دی ہیں اور متعلقہ احکام کی تعلیم دے کر ان کا پابند بنا دیا ہے۔
Top