Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا : کہ نہ تُقْسِطُوْا : انصاف کرسکوگے فِي : میں الْيَتٰمٰى : یتیموں فَانْكِحُوْا : تو نکاح کرلو مَا : جو طَابَ : پسند ہو لَكُمْ : تمہیں مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں مَثْنٰى : دو ، دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ : اور چار، چار فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں اندیشہ ہو اَلَّا : کہ نہ تَعْدِلُوْا : انصاف کرسکو گے فَوَاحِدَةً : تو ایک ہی اَوْ مَا : یا جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : لونڈی جس کے تم مالک ہو ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَلَّا : کہ نہ تَعُوْلُوْا : جھک پڑو
اور اگر تم کو ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو، تین تین، چار چار سو اگر تم کو ڈر ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرلو، یا ان لونڈیوں پر بس کرو جو تمہاری ملکیت ہوں۔ یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو
یتیم بچیوں کے نکاح کرنے کے بارے میں ہدایت آیت کا مضمون سمجھنے سے پہلے سبب نزول ذہن نشین کرلینا چاہیے تفسیر درمنثور صفحہ 118: ج 2 میں بخاری وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اے میری بہن کے بیٹے اس آیت میں ایسی یتیم بچیوں کا ذکر ہے جن کا باپ فوت ہوجاتا تھا اور جو مال میراث میں ملتا وہ اس بچی اور اس کے ولی کا مال مشترک ہوتا تھا جسے تقسیم کرنا لازم تھا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جو شخص اس یتیم بچی کا ولی (سر پرست) ہوتا تھا وہ اس کے مال میں یا جمال میں رغبت رکھنے کی وجہ سے اس سے نکاح کرلیتا تھا لیکن بچی چونکہ اپنے ہی گھر میں اپنی ہی پرورش میں ہے اس لیے اس کا مہر جس قدر ہونا چاہیے اتنا مقرر نہیں کرتے تھے۔ دوسری جگہ سے جو مہر ملتا اس سے کم مقرر کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اس بات سے منع فرما دیا گیا کہ ان لڑکیوں سے نکاح کریں اور پورا مہر نہ دیں، بلکہ حکم یہ فرمایا کہ ان لڑکیوں کو پورا حق مہر دو جتنا زیادہ سے زیادہ ان کو دوسری جگہ سے مل سکتا تھا۔ (راجع صحیح البخاری صفحہ 772: ج 2) اور یہ بھی حکم فرمایا کہ اگر ان یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان کے علاوہ اپنی پسند کی دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ دوسری عورتوں سے نکاح کریں گے تو چونکہ وہ خود سوچ سمجھ والی ہوں گی اور پہلے سے ان پر قابو نہ ہوگا تو حسب منشا جتنا مہر چاہیں گی مقرر کرا لیں گی کیونکہ ان پر کوئی دباؤ نہ ہوگا، اگر کوئی شخص یتیم لڑکی ہی سے نکاح کرنا چاہے اور مہر اس کو پورا پورا دے تو یہ بھی درست ہے اسی لیے (وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا) فرمایا، نیز تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن جریر وغیرہ حضرت عائشہ ؓ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بعض مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص کی سرپرستی میں کوئی یتیم لڑکی ہے اور وہ مالدار بھی ہے تو جس کی سر پرستی میں ہے وہ اس سے مال کی وجہ سے نکاح کرلیتا تھا لیکن چونکہ طبعی طور پر اسے پسند نہ تھی اس لیے اس کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا لہٰذا اس بارے میں نصیحت فرمائی۔ سبب نزول کے جاننے سے معلوم ہوا کہ یتیم لڑکیاں جو صاحب مال ہوتی تھیں ان سے نکاح تو کرلیتے تھے لیکن ان سے سلوک اچھا نہ رکھتے تھے اور ان کو مہر بھی اتنا نہ دیتے تھے۔ جتنا ان کو اور جگہ سے مل سکتا تھا۔ لہٰذا ان کو حکم دیا کہ اگر تمہیں یہ ڈرہو کہ یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔ چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت اور عدل کرنے کا حکم : اور ساتھ ہی ساتھ عورتوں کی تعداد کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ جو عورتیں پسند ہوں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرسکتے ہو اور اگر یہ ڈر ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اول تو ہر شخص کو بیک وقت دو یا تین یا چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ جو تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز ہے۔ فرض اور واجب نہیں ہے اور جائز بھی اس شرط پر ہے کہ جتنی بیویاں ہوں ان سب کے درمیان عدل و انصاف رکھے۔ قلبی تعلق پر تو مواخذہ (گرفت) نہیں ہے کہ یہ اختیاری چیز نہیں۔ البتہ اختیاری چیز میں عدل نہ کیا تو گرفت ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس دو عورتیں ہوں اور وہ ان دونوں عورتوں کے درمیان عدل یعنی برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا، جتنی راتیں ایک کے پاس رہے اتنی ہی راتیں دوسری کے پاس رہے تقسیم جس طرح چاہے کرے اس کے اختیار میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : صفحہ 279: از ترمذی وغیرہ) بہت سے لوگ پیسہ زیادہ ہونے کی وجہ سے یا خواہ مخواہ شوق میں آکر پہلی بیوی پرانی ہوجانے کی وجہ سے یا نئی بیوی کے مالدار ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ لیکن پھر برابری نہیں کرتے اور کسی ایک کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی کرتے رہتے ہیں یہ شرعاً حرام ہے۔ اگر کسی کو برابری پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھے تاکہ ظلم و زیادتی سے محفوظ رہے۔ فائدہ : شریعت اسلامیہ میں بیک وقت صرف چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے مگر مذکورہ بالا شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ دوسری قوموں میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں ان کے یہاں یہ جائز ہے کہ بہت سی دوستانیاں (گرل فرینڈز) رکھ لے۔ زنا کاری کرنا ان کے نزدیک کچھ عیب کی بات نہیں ہے البتہ نکاح کر کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا اور حلال طریقہ سے زندگی گزارنا ان کے نزدیک عیب ہے۔ اسلام پر جو بعض جاہلوں کے اعتراضات ہیں ان میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اول تو چار تک کی اجازت ہے واجب نہیں۔ دوسرے دنیاوی احوال کے اعتبار سے اس اجازت کی ضرورت ہے اول تو اس میں نسل بڑھانے کا فائدہ ہے اور دوسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ جب کسی وجہ سے مردوں کی قلت ہوجائے (جیسا کہ جہاد کے مواقع میں مرد شہید ہوجاتے ہیں) تو عورتیں بیوہ ہوجائیں۔ تحفظ آبرو کے ساتھ ان کے اخراجات کا انتظام ہوجائے۔ پھر جب عورتوں کی کثرت ہو اور مردوں کی کمی ہو (جیسا کہ اس کا دور شروع ہوچکا ہے) تو عورتوں کی عفت و عصمت اور شریفانہ معیشت کا انتظام اسی میں ہے کہ مرد ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ جو لوگ گہرائیوں میں نہیں جاتے۔ حکمتوں کو نہیں سمجھتے انہوں نے اپنے ذمہ صرف اعتراض کرنا ہی لے رکھا ہے جب اجازت اور اباحت کو عدل و انصاف کے ساتھ مشروط و مقید کردیا گیا تو پھر کسی عقلمند کے لیے کسی طرح بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔ پھر آیت کے خاتمے پر فرمایا : (ذٰلِکَ اَدْنآی اَلَّا تَعُوْلُوْا) (یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو) یعنی نکاح کے بارے میں جو تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے اس کے مطابق عمل کرو گے تو ظلم و زیادتی سے محفوظ رہ سکتے ہو مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا ظلم سے بچانے کے لیے بہت زیادہ قریب تر ہے۔ فائدہ : بیک وقت چار عورتوں تک سے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن اس میں شرطیں ہیں ہر عورت سے نکاح نہیں ہوسکتا، مثلاً جو عورت کسی مرد کی عدت میں ہو اس سے نکاح نہیں ہوسکتا، دو بہنیں ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں اور جن عورتوں سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے ان سے کبھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ جس کی تفصیل اس سورت کے چوتھے رکوع میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اگر کوئی شخص بیک وقت چار عورتیں نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے نکاح کرے گا تو یہ نکاح شرعی نہ ہوگا اور یہ عورت اس کی شرعی بیوی نہ بن سکے گی زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ بغیر کسی قانون کے بہت سی عورتوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے۔ اسلام میں صرف چار تک کی اجازت دی گئی اور عدل و انصاف کی قید لگا دی گئی۔ غیلان بن سلمہ ثقفی ؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس عورتیں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو ۔ (رواہ ابن ماجہ فی کتاب الطلاق) باندیوں سے جماع کرنے کی اجازت : پھر فرمایا (اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) یعنی انصاف پر قائم نہ رہ سکنے کی صورت میں ایک بیوی پر اکتفا کرو۔ یا پھر ان باندیوں سے گزارہ کرو جو تمہاری ملکیت میں ہیں جو باندی ہو اس سے بھی بحق ملکیت جماع کرنا جائز ہے لیکن ان کے حقوق بیوی والے حقوق نہیں ہیں اگر کئی باندیاں ہوں تو ان سے جماع کرنا تو جائز ہے لیکن چونکہ جماع کا حق نہیں اس لیے ان کے درمیان راتیں تقسیم کرنا بھی لازم نہیں ہے۔ البتہ بسبب ملکیت ان کے کھلانے پلانے اور پہنانے کے جو حقوق ہیں وہ اپنی جگہ پر واجب ہیں۔ جو کافر عورتیں قید میں آجاتی تھیں ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جاتا تھا لہٰذا وہ ان کی ملکیت ہوجاتی تھیں اور ان سے گھر بار کی خدمت لینے کے علاوہ جماع کرنا بھی جائز تھا۔ اس کے جائز ہونے کی بھی کچھ شرطیں ہیں۔ جو کتب فقہ میں لکھی گئی ہیں۔ باندی سے جو اولاد ہوجاتی تھی وہ ثابت النسب ہوتی تھی اور وہ اولاد آزاد ہوتی تھی اور جس باندی سے اولاد پیدا ہوتی وہ باندی آقا کی موت کے بعد آزاد ہوجاتی تھی۔ تفصیلی احکام کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت : جب مسلمان جہاد کرتے تھے تو جن کافروں کو قید کرلیا جاتا تھا ان میں مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی۔ امیر المؤمنین کو اختیار تھا کہ ان کو جہاد کرنے والوں میں تقسیم کردے جب ان مجاہدین میں قیدی تقسیم ہوجاتے تھے تو ان کی ملکیت میں آجاتے تھے اس لیے ان کا بیچنا، فروخت کرنا جائز تھا اور یہ غلامی کفر کی سزا ہے اور اس میں ان غلاموں کا یہ نفع ہے کہ دار الاسلام میں رہیں گے تو مسلمانوں کے اسلامی معاشرہ سے مانوس ہوں گے اذانیں سنیں گے، نمازیں دیکھیں گے، اور اسلام قبول کریں گے، اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جائیں گے اور حکومت اسلامیہ کا یہ نفع ہے کہ جب ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا تو ان کی قوت بھی ٹوٹ گئی جس سے بغاوت کا اندیشہ تھا اور بیت المال پر ان قیدیوں کو کھلانے پلانے کا بار بھی نہ پڑا، اگر ان کو جیل میں رکھتے تو بغاوت کا بھی خطرہ تھا۔ آپس میں مشورہ کرتے رہتے اور دار الحرب سے تعلقات پید کرکے دار الاسلام میں فساد کا باعث بن جاتے اور بیت المال کو روزانہ ان لوگوں پر بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی۔ دوسری طرف مجاہدین کو نفع ہوا ان کو کام کاج کرنے والے افراد مل گئے اور چونکہ یہ لوگ اپنے مالکوں کا کام کریں گے اس لیے ان کو کھلانا پلانا بھی ناگوار نہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ جو غلام تمہارے احوال کے مناسب اور موافق ہو اسے اسی میں سے کھلاؤ جس میں سے تم کھاتے ہو اور اسی میں سے پہناؤ جس میں سے تم پہنتے ہو اور جو تمہارے احوال کے مناسب نہ ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو ، (رواہ احمد و ابوداؤد کمافی المشکوٰۃ صفحہ 292) مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے احوال کے موافق اور مناسب نہ ہوگا تو خواہ مخواہ اس کی مار پیٹ کی طرف بھی طبیعت چلے گی اور کھلانے پلانے میں بھی کوتاہی ہوگی اسے بیچ دو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ دوسری جگہ اس کے حال کے مناسب مل جائے گی جب غلام اسی کھانے میں سے کھائے گا جو گھر والوں کے لیے پکایا گیا اور اسی کپڑے میں سے پہنے گا جو دوسرے گھر والے پہنتے ہیں اور اس کے علاوہ روا داری، دلداری اور حسن معاشرت کے مظاہرے اس کے سامنے آئیں گے تو حسن و خوبی کے برتاؤ کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کرے گا اور رفتہ رفتہ اسلام قبول کرنے کے قریب تر آجائے گا۔ اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے محدثین ایسے حضرات گزرے ہیں جو غلام تھے۔ یا باندیوں کی اولاد تھے۔ حدیث کی کتابوں میں غلاموں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ گزارہ کرنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے کے بارے میں مفصل ہدایات موجود ہیں۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اپنے مرض الوفات میں بار بار یہ فرمایا الصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (کہ تم نماز کا دھیان رکھنا اور جو تمہارے غلام اور باندیاں ہو ان کے حقوق کی نگہداشت کرنا) (رواہ احمد صفحہ 817: ج 3) یہ ہے وہ غلامی جسے یورپ کے متعصب جاہلوں نے اعتراضات کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ فائدہ : غلام اور باندیوں کے جو احکام بیان ہوئے یہ سب اب بھی مشروع ہیں، کوئی بھی حکم منسوخ نہیں ہے لیکن اس دور میں مسلمان غلام اور باندیوں سے اس لیے محروم ہیں کہ اول تو اللہ کے لیے جہاد نہیں کرتے اور جو کوئی جنگ ہوتی ہے وہ دشمن کے اشارہ سے ہوتی ہے اور دشمن ہی کے اشارہ سے بند کردی جاتی ہے۔ پھر دشمنوں نے مسلم حکومتوں کو ایسے معاہدوں میں جکڑ رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ قیدیوں کو غلام اور باندیاں نہیں بنا سکتے، غلام اور باندیاں جو بہت بڑی نعمت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی تھی کہ گھر گھر ان کے باندیاں اور غلام ہوں ان سب سے یکسر محروم ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دشمنوں کے پنجے سے چھڑائے اپنے دین پر چلائے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور اصول شریعت کے مطابق جہاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ نوکرانیاں باندیاں نہیں ہیں ان سے جماع کرنا حرام ہے اور آزاد لڑکے اور لڑکی کو فروخت کرنا بھی حرام ہے وہ باندیاں جن سے جماع کرنا جائز ہے وہ یہ قیدی ہیں جو جہاد کے موقع پر لائے گئے ہوں اور جنہیں امیر المؤمنین نے مجاہدین میں تقسیم کردیا ہو۔ اس کے سوا ابتداءً کسی مرد یا عورت کو غلام باندی بنانے کا کوئی راستہ نہیں۔ گھروں میں جو نوکرانیاں رکھ لیتے ہیں، یہ باندیاں نہیں ہیں ان سے پردہ بھی واجب ہے اور ان سے جماع کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح دوسری عورتوں سے حرام ہے۔ ان عورتوں سے جماع کرنا سراپا زنا کاری ہے اس کو خوب سمجھ لیاجائے، اگر کسی لڑکی کے ماں باپ لڑکی فروخت کردیں یا کہیں سے اغوا کر کے کوئی لا کر بیچ دے یا کوئی عورت خود سے کہہ دے کہ میں باندی بن کر رہوں گی اس طرح سے وہ شرعی باندی نہ بنے گی اور اس سے جو جماع کیا جائے گا وہ زنا ہوگا۔ کیسی عورتوں سے نکاح کیا جائے : (فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ) میں لفظ طاب فرمایا ہے یہ خوبی بہتری اور عمدگی کے معنی میں آتا ہے اس کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ جو عورتیں تمہیں پسند ہوں اس سے نکاح کرلو۔ پسند آنے کے اسباب میں حسن و جمال بھی ہے۔ مال بھی ہے اور دین داری بھی ہے۔ خوش خلقی بھی ہے اور بہت سے اوصاف ہیں جو عورتوں میں ہوتے ہیں۔ آیت کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ خوبی والی عورتیں تلاش کرنا غلط کام نہیں ہے بلکہ اس کی اجازت ہے اگر حسن و جمال کو دیکھا جائے تو یہ بھی جائز ہے البتہ دیندار کو ترجیح دینی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار چیزوں کی وجہ سے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اس کے صاحب مرتبہ ہونے کی وجہ سے (شخصی حیثیت کی وجہ سے) اس کے جمال کی وجہ سے، اس کے دین کی وجہ سے، پس اے مخاطب تو دین والی کو حاصل کر کے کامیاب ہوجا، اللہ تیرا بھلا کرے۔ (رواہ مسلم صفحہ 473: ج 1) اچھی بیوی کی صفات : ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا ساری کی ساری نفع کی چیز ہے اور دنیا کے منافع میں سب سے بہتر چیز نیک عورت ہے (رواہ مسلم صفحہ 475: ج 1) حضرت ابو ہریرۃ ؓ آنحضرت سرور عالم ﷺ کا یہ ارشاد بھی نقل فرماتے ہیں کہ بہتر عورتیں جو اونٹوں پر سوار ہیں (عرب عورتیں) قریش کی وہ عورتیں ہیں جو بچوں پر بہت زیادہ شفیق ہوتی ہیں اور شوہر کے مال کی بہت زیادہ حفاظت کرتی ہیں (رواہ البخاری صفحہ 760: ج 2) حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ کے بعد جو چیزیں بندہ کو حاصل ہوں ان میں نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی بہترین نعمت نہیں۔ پھر نیک بیوی کے اوصاف بیان فرمائے۔ (1) اگر اسے حکم دے تو فرمانبر داری کرے۔ (2) اور اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کرے۔ (3) اور شوہر کوئی قسم کھائے (جو عورت کے عمل کرنے سے متعلق ہو مثلاً یوں کہے کہ تم فلاں کام ضرور ضرور کرو گی) تو اس کی قسم پوری کرے۔ (4) اور اگر شوہر کہیں چلا جائے تو اپنی جان اور شوہر کے مال میں خیر خواہی کرے۔ (رواہ ابن ماجہ صفحہ 132) جس طرح عورتوں میں دینداری کو دیکھ کر نکاح کرنے کو ترجیح دینی چاہیے اسی طرح لڑکیوں کے لیے مرد بھی نیک دیکھنے چاہیں۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغام بھیجے جس کی دینی اور اخلاقی حالت تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو ۔ اگر ایسا نہ کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ ہوگا اور (لمبا) چھوڑا فساد ہوگا۔ (رواہ الترمذی صفحہ 207: فی ابواب النکاح) نکاح کرنا شرعی ضرورت ہے : نکاح انسان کی ضروریات میں سے ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی خواہش رکھی ہے۔ یہ خواہش فطری اور طبعی ہے نفس اور نظر کو پاک رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ سنن ترمذی (اول کتاب النکاح) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں پیغمبروں کے طریقے میں سے ہیں۔ (1) حیاء (2) خوشبولگانا (3) مسواک کرنا (4) نکاح کرنا۔ نکاح کے بغیر رہنا کوئی کمال اور دینداری کی بات نہیں ہے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اے جوانو ! تم میں سے جسے نکاح کرنے پر قدرت ہو نکاح کرلے، کیونکہ وہ نظر کو پست رکھنے والا ہے اور شرم کی جگہ کو پاک رکھنے والا ہے، اور جسے نکاح کی قدرت نہ ہو وہ روزے رکھے کیونکہ اس سے شہوت دب جائے گی۔ (رواہ البخاری صفحہ 758: ج 2) قوت مردانہ زائل کرنے کی ممانعت : اگر نکاح کرنے کا موقع نہ لگے تو قوت مردانہ ختم کرنے کی اجازت نہیں البتہ عارضی طور پر اور بقدر ضرورت روزے رکھ کر شہوت کو دبا لے بعض صحابہ ؓ نے خصی ہونے اور قوت مردانہ زائل کرنے کی اجازت مانگی تو آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَصٰی وَلاَ اخْتَصٰی اِنَّ خَصَاءَ اُمَّتِیْ الصِّیَام یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہو بلاشبہ میری امت کا خصی ہونا یہ ہے کہ روزے رکھا کریں۔ (رواہ فی شرح السنہ کمافی مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 69) نکاح کرنے میں دینی، دنیاوی بہت سے منافع ہیں مرد کو سکون کی جگہ مل جاتی ہے، کام کاج کر کے تھکا ماندہ آکر آرام کا ٹھکانہ پکڑ لیتا ہے جسے سورت اعراف میں (لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا) سے تعبیر فرمایا اور عورت کو بھی اخراجات کی طرف سے اطمینان ہوجاتا ہے اسے کمانا نہیں پڑتا پردہ میں محفوظ رہتی ہے مرد و عورت دونوں کی حیثیت اور شخصیت بن جاتی ہے گھر بار والے آل اولاد والے کہلاتے ہیں پھر جو اولاد ہوتی ہے اس سے دل خوش ہوتا ہے بچوں کو کھلانے پلانے پہنانے سے مسرت کی لہریں دوڑ جاتی ہیں اور اس اولاد کو جب دین اور علم دین پر ڈالا جائے تو آخرت میں بھی رفع درجات کا ذریعہ بن جاتی ہے، اسلام کے احکام فطرت انسانیہ کے موافق ہیں۔ انسانی خواہشوں کو اسلام نے ختم نہیں فرمایا بلکہ ان کی حدود مقرر فرما دی ہیں اور متعلقہ احکام کی تعلیم دے کر ان کا پابند بنا دیا ہے۔
Top