Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 2
وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِۙۛ
وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ : قسم ہے واضح کتاب کی
قسم ہے واضح کتاب کی
قرآن کتاب مبین ہے، عربی میں ہے، نصیحت ہے، انبیائے سابقین ( علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو ہلاک کردیا اولاً قرآن ہی کی قسم کھا کر قرآن کی تعریف فرمائی کہ کتاب مبین کی قسم ہے ہم نے اپنی اسی کتاب کو عربی زبان کا قرآن بنایا یعنی یہ قرآن عربی زبان میں ہے اس کے اولین مخاطبین عرب ہیں یہ لوگ قرآن کو پڑھیں اور سمجھیں، سمجھنا چاہیں گے تو سمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے۔ اس کے بعد قرآن کی برتری بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ وہ ہمارے پاس ام الکتاب یعنی لوح محفوظ میں محفوظ ہے وہ بلند بھی ہے اور حکمتوں سے پر ہے اور بعض حضرات نے حکیم کا ترجمہ ” محکم “ کیا ہے مطلب یہ ہے کہ لفظی اور معنوی اعتبار سے استحکام ہے یعنی اس میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے۔ سورة الواقعہ میں فرمایا ﴿اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌۙ0077 فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ0078﴾ اور سورة البروج میں فرمایا ﴿بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌۙ0021 فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (رح) 0022﴾ اس کے بعد فرمایا کہ ہم جو قرآن نازل کر رہے ہیں جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے، یہ قرآن نازل ہوتا رہے گا تم یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ ہم قرآن کو نہیں مانتے اس لیے قرآن کا نازل ہونا بند ہوجائے گا تمہارا یہ خیال غلط ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت بھی ہے اور اس کے نازل ہونے میں تم پر حجت بھی قائم ہوتی ہے اور اہل ایمان کے لیے نافع اور مفید ہے۔ قال القرطبی وانتصب ” صفحًا “ علی المصدر لان معنی افنضرب افنصفح وقیل التقدیر افنضرب عنکم الذکر صافحین (علامہ قرطبی ؓ نے فرمایا ” صفحًا “ مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے کیونکہ اَفَنَضْرِبُ معنی ہے افَنَصْفَحُ بعض نے کہا اصل عبارت یوں ہے : اَفَنَضْرِبُ عَنْكمُ الذّكر صافحین۔ اس کے بعد فرمایا ہم نے تم سے پہلے لوگوں میں کتنے ہی نبی بھیجے ہیں (لفظ ” كم “ تکثیر کے لیے ہے) مطلب یہ ہے کہ ہم نے کثیر تعداد میں نبی بھیجے لیکن امتوں کا طریقہ یہ رہا کہ جو بھی نبی بھیجا جاتا اس کا مذاق بناتے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں جو لوگ بہت زیادہ زور آور تھے، موجودہ مخاطبین سے قوت میں بڑھ کر تھے ہم نے ان کو ہلاک کردیا، ان مخاطبین کی ان لوگوں کے سامنے کچھ حیثیت نہیں ﴿ وَّ مَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ 008﴾ اور پہلے لوگوں کی حالت گزر چکی ہے ان میں سے بعض کا انہیں علم بھی ہے پھر بھی قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں اپنے انجام کی طرف نظر نہیں کرتے۔ وھذا مثل قولہ تعالیٰ ﴿وَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 1ۙ وَ مَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَاۤ اٰتَيْنٰهُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ 1۫ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ (رح) 0045﴾ (اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے جھٹلایا اور انہیں ہم نے جو کچھ دیا تھا یہ لوگ اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے سو انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا سو کیسا عذاب ہوا میرا۔ )
Top