Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 15
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىؕ
عِنْدَهَا : اس کے پاس جَنَّةُ الْمَاْوٰى : جنت الماویٰ ہے
اس کے قریب جنۃ الماویٰ ہے،
جنۃ الماویٰ کیا ہے ؟ آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب جنتہ الماویٰ ہے، ماوی لغتہ ٹھکانہ پکڑنے کی جگہ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں جَنَّةُ الْمَاْوٰى سے کیا مراد ہے ؟ علامہ قرطبی ؓ نے اس کے بارے میں متعدد اقوال لکھے ہیں۔ حضرت حسن (رح) سے نقل کیا ہے کہ اس سے وہ جنت مراد ہے جس میں متقی حضرات داخل ہوں گے ایک قول یہ ہے کہ اس جنت میں شہداء کی ارواح پہنچتی ہیں یہ حضرت بن عباس ؓ کا ارشاد ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ وہ جنت ہے جس میں حضرت آدم (علیہ السلام) قیام پذیر تھے، اور ایک قول یہ ہے کہ تمام مومنین کی روحیں جَنَّةُ الْمَاْوٰى میں ٹھہرتی ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبرائیل و میکائیل ( علیہ السلام) ان کی طرف ٹھکانہ پکڑتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ فائدہ : اس میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ ﷺ شب معراج میں دیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں اور اگر رویت ہوئی تو وہ رویت بصری تھی یا رویت قلبی تھی، یعنی سر کی آنکھوں سے دیکھا یا دل کی آنکھوں سے دیدار کیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ رویت کا انکار کرتی تھیں اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ المعراج میں باری تعالیٰ شانہٗ کا دیدار کیا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس بارے میں توقف کیا جائے نفی یا اثبات کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے سامنے ان کے شاگرد حضرت مسروق (رح) نے آیت کریمہ ﴿ وَ لَقَدْ رَاٰهُ بالْاُفُقِ الْمُبِيْنِۚ0023﴾ اور ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ0013 ﴾ تلاوت کی اور اس سے رویت باری تعالیٰ پر استدلال کیا۔ یعنی یہ ثابت کیا کہ شب معراج میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کا دیدار کیا۔ سیّدہ عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس امت میں میری سب سے پہلی شخصیت ہے جس نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تھا، آپ نے فرمایا کہ میں نے جبرائیل کو ان کی اصلی صورت پر صرف دو مرتبہ دیکھا (صحیح مسلم صفحہ 98: ج 1) نیز حضرت مسروق (رح) نے سیّدہ عائشہ ؓ کے سامنے آیت کریمہ ﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى ۙ008 فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ009﴾ بھی پیش کی، انہوں نے اس کے بارے میں بھی یہی فرمایا کہ اس سے جبرائیل (علیہ السلام) کی رویت مراد ہے وہ آپ کے پاس انسانی صورت میں آیا کرتے تھے۔ اس مرتبہ اصلی صورت میں آئے اور اس وقت انہوں نے آسمان کے افق کو گھیر رکھا تھا۔ (صحیح مسلم صفحہ 98: ج 1) امام نووی (رح) نے شرح مسلم میں کلام طویل کے بعد لکھا ہے : فالحاصل ان الراجح عند اکثر العلما ان رسول اللہ ﷺ رای ربہ بعینی راٰسہ لیلة الاسراء لحدیث ابن عباس وغیرہ مما تقدم و اثبات ھذا لایاخذونہ الابالسماع من رسول اللہ ﷺ ھذا ممالا ینبغی ان یتشکک فیہ (شرح مسلم صفحہ 97: ج 1) اس سے معلوم ہوا کہ اکثر علماء نے حضرت ابن عباس ؓ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ روایات میں غور کرنے سے اور سورة النجم کی آیات کے سیاق وضمائر کے مراجع پر نظر کرنے سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی رویت مراد ہے، رویت اولیٰ جس کا ذکر ﴿ ذُوْ مِرَّةٍ 1ؕ فَاسْتَوٰى ۙ006 وَ هُوَ بالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ؕ007 ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى ۙ008 فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ009﴾ میں ہے اس سے بلا تاویل یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس سے رویت جبرائیل مراد ہیں۔ اور ماکذب الفواد مارای کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : رای جبرئیل لہ ستمائة جناح (صحیح مسلم صفحہ 97: ج 1) ۔ اس کے بعد جو فرمایا ﴿ وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ0013 ﴾ اس کی ضمیر منصوب اسی کی طرف راجع ہے جس کی رویت پہلے ہوچکی تھی، اس کے بعد جو ﴿ لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى 0018﴾ فرمایا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس کو پڑھ کر بھی رای جبرئیل فی صورتہ لہ ستمائة جناح فرمایا (صحیح مسلم صفحہ 98: ج 1) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ0013﴾ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا : رای جبرئیل علیہ السلام۔ (صحیح مسلم 98: ج ! ) ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کے شاگرد حضرت مسروق (رح) نے جو ان سے سوال کیا تو انہوں نے سورة النجم میں ذکر فرمودہ دونوں روایتوں کو جبرائیل (علیہ السلام) کی رویت قرار دیا، امام نووی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا کہ اثبات رویت کا جو انہوں نے دعویٰ کیا ہے بظاہر وہ سماع پر ہی مبنی ہے، یہ بات محل نظر ہے کیونکہ ام المومنین عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا آپ نے فرمایا کہ اس سے جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ وہ تو فرما رہی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ہے آپ نے فرمایا کہ ﴿ وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ0013 ﴾ میں جبرائیل کی رویت مذکور ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کے بارے میں جو امام نووی ؓ کہ انہوں نے سنا ہی ہوگا یہ ایک محض حسن ظن پر مبنی ہے پھر حضرت ابن عباس ؓ نے بھی رویت بصری کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ فرمایا راہ بفوادہ مرتین۔ (صحیح مسلم صفحہ 98: ج 1) پوری طرح غوروفکر کرنے اور روایات کو دیکھنے سے شب معراج میں رویت باری تعالیٰ شانہٗ کا مضبوط ثبوت نہیں ہوتا لہٰذا تیسرا قول یعنی توقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ حافظ ابن حجر ؓ فتح الباری صفحہ 608 ج 8 میں لکھتے ہیں : وقد اختلف السلف فی رویة النبی ﷺ ربہ فذھبت عائشة و ابن مسعود الی انکارھا، واختلف عن ابی ذر۔ وذھب جماعة الی اثباتھا، وحکی عبدالرزاق عن معمر عن الحسن انہ حلف ان محمدارای ربہ ـ واخرج ابن خزیمة عن عروة ابن الزبیر اثباتھا، وکان یشتد علیہ اذا ذکر لہ انکار عائشة، وبہ قال سائر اصحاب ابن عباس، وجزم بہ کعب الاحبار والزھری و صاحبہ معمر وآخرون، وھو قول الاشعری و غالب اتباعہ ـ ثم اختلفو اھل رآہ بیعنہ اوبقلبہ وعن احمد کالقولین قلت : جات عن ابن عباس اخبار مطلقة واخری مقیدة فیجب حمل مطلقھا علی مقیدھا، فمن ذلک ما اخرجہ النسائی باسناد صحیح و صححہ الحاکم ایضامن طریق عکرمة عن ابن عباس قال : اتعجبون ان تکون الخلة لابراھیم والکلام لموسیٰ والرویة لمحمد ؟ واخرجہ ابن خزیمہ بلفظ ان اللہ اصطفی ابراھیم بالخلة الحدیث واخرج ابن اسحاق من طریق عبداللہ ابی سلمة ان ابن عمر ارسل الی ابن عباس : ھل رایء محمد ربہ ؟ فارسل الیہ ان نعم ـ ومنھا ما اخرجہ مسلم من طریق ابی العالیة عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ (ماکذب الفواد مارای، ولقد راہ نزلة اخری) قال : رای ربہ بفوادہ مرتین : ولہ من طریق عطاء عن ابن عباس قال : راہ بقلبہ واصرح من ذالک ما اخرجہ ابن مردویہ من طریق عطاء ایضًا عن ابن عباس قال : لم یرہ رسول اللہ ﷺ بعینہ انما راہ بقلبہ : وعلی ھذا فیمکن الجمع بین اثبات ابن عباس ونفی عائشة بان یحمل نفیھا علی رویة البصرو اثباتہ علی رویة القلب ـ ثم المراد برویة الفواد رویة القلب لا مجرد حصول العلم، لانہ ﷺ کان عالما باللہ علی الدوام ـ بل مراد من اثبت لہ انہ رابقلبہ ان الرویة التی حصلت لہ خلقت فی قلبہ کما یخلق الرویة بالعین لغیرہ، والرویة لا یشترط لھا شییء مخصوص عقلا ولو جرت العادة بخلقھا فی العین، وروی ابن خزیمة باسناد قوی عن انس قال رای محمد ربہ، وعند مسلم من حدیث ابی ذرانہ سال النبی ﷺ عن ذلک فقال نورانی اراہ، ولاحمد عنہ، قال ورایت نورا، ولابن خزیمة عنہ قال راہ بقلبہ ولم یرہ بیعنہ وبھذا یتبین مراد ابی ذربذکرہ النور ای النور حال بین رویتہ لہ ببصرہ، وقد رجع القرطبی فی (المفھم) قول الوقف فی ھذا المسالة وعزاہ الجماعة من المحققین، وقواہ بانہ لیس فی الباب دلیل قاطع، وغایة ما استدل بہ للطائفتین ظواھر متعارضة قابلة للتاویل، قال ولیست المسالة من العملیات فیکتفی فیھا بالادلة الظنیة، وانماھی من المعتقدات فلا یکتفی فیھا الا بالدلیل القطعی، وجنح ابن خزیمة فی (کتاب التوحید) الی ترجیح الاثبات واطنب فی الاستدلال لہ بما یطول ذکرہ، وحمل م اور دعن ابن عباس علی ان الرویاوقعت مرتین مرة بقلبہ ومرة بعینہ وفیما اور دتہ من ذلک مقنع وممن اثبت الرویة لنبینا ﷺ الامام احمد فروی الخلال فی (کتاب السنة) عن المروزی قلت لاحمد انھم یقولون ان عائشة قالت : من زعم ان محمدا رای ربہ فقداعظم علی اللہ الفریة، فبای شیء یدفع قولھا ؟ قال : بقول النبی ﷺ رایت ربی قول للنبی ﷺ اکبر من قولھا ـ وقد انکر صاحب الہدی علی من زعم ان احمد قال رای ربہ بعینی راسہ قال : وانما قال مرة رای محمد ربہ وقال بفوادہٖ ـ وحکی عنہ بعض المتاخرین راٰہ بعینی راسہ وھذا من تصرف الحا کی، فان نصوصہ موجودة، انتھی ـ قلت : وھذا الذی روی عن الامام احمد (رح) تعالیٰ انہ یدفع قولھا بقولہ ﷺ : رایت ربی فانہ اذاثبت بسند صحیح دل علی الرویة البصریة ومع ذلک لایثبت بسیاق سورة النجم فاثبات الرویة منہ ﷺ احتاج الیٰ روایة صحیحة صریحة دالة علی الرویة البصریة الحقیقة فی الیقظة سواء کان فی لیلة الاسراء وغیرھا، فاما ماحمل ابن خزیمة ماورد عن ابن عباس ؓ عنھما علی ان الرویہ وقعت مرتین مرة بعینہ ومرة بقلبہ فھو خلاف مانص علیہ ابن عباس نفسہ انہ راہ بفوادہ مرتین کمارواہ مسلمہ)
Top