Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 110
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَاَقِیْمُوْا الصَّلَاةَ : اور تم نماز قائم کرو وَاٰتُوْا الزَّکَاةَ : اور دیتے رہوتم زکوۃ وَمَا : اور جو تُقَدِّمُوْا : آگے بھیجو گے لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے مِنْ خَيْرٍ : بھلائی تَجِدُوْهُ : تم اسے پالو گے عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللہ : اللہ بِمَا : جو کچھ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ تم اپنی عاقبت کے لئے جو بھلائی کماکر آگے بھیجو گے ، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤگے جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب اللہ کی نظر میں ہے۔ “
غرض اس پورے پیراگراف میں اسلامی جماعت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور مسلمانوں کی فکر کو اس پر مرکوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے خطرے کی اصل جگہ کون سی ہے ۔ کہاں ان کے خلاف سازشیں تیارہوتی ہیں ۔ یوں اسلامی شعور کو یہودیوں کے برے ارادوں ، گھٹیا سازشوں اور مذموم حاسدانہ جذبات کے مقابلے میں تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کی تیاری کے بعد اس اسلامی شعور کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اس کے احکام کے منتظر ہوں اور اپنی ہر حرکت اور اپنے ہر فعل کو اللہ کے تصرف میں دے دیں ۔ یہاں تک کہ فیصلے کی گھڑی آجائے ۔ اس وقت مسلمانوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ عفو و درگذر سے کام لیں اور اپنے دلوں کو بغض وحسد اور کینہ ودشمنی سے پاک رکھیں اور صاحب امر اور صاحب مشیئت کے احکامات اور فیصلے کا انتظار کریں۔ اس کے بعد قرآن کریم ان دعوؤں کا جائزہ لیتا ہے جو یہود ونصاریٰ بالعموم کیا کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ وہ کہتے تھے کہ صرف وہی ہدایت پر ہیں ۔ یہ کہ جنت صرف ان کے لئے ہے اور ان کے علاوہ اس میں کوئی بھی داخل نہ ہوگا ۔ اور یہ دعویٰ بیک وقت یہودی اور عیسائی کرتے تھے ۔ ان میں سے ہر ایک شخص کہتا تھا کہ دوسرے کے پاس سچائی کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے ۔ ان کے ان دعوؤں کے تذکرے کے ضمن میں قرآن کریم عمل اور مکافات کے بارے میں اپنے حقیقی تصور کی وضاحت بھی کردیتا ہے۔
Top