Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 16
اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰىۙ
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ : جب چھا رہا تھا سدرہ پر مَا يَغْشٰى : جو کچھ چھا رہا تھا
جب کہ سدرۃ المنتہیٰ کو وہ چیزیں ڈھانپ رہی تھیں جنہوں نے ڈھانپ رکھا تھا
سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى کیا ہے ؟ سدرہ عربی میں بیری کے درخت کہتے ہیں اور المنتہیٰ کا معنی ہے انتہاء کی جگہ، عالم بالا میں جَنَّةُ الْمَاْوٰى کے قریب سدرۃ المنتہیٰ ہے یعنی بیری کا وہ درخت جس کے پاس چیزیں آکر منتہی ہوجاتی ہیں یعنی ٹھہر جاتی ہیں، زمین سے جو کچھ اعمال وغیرہ اوپر جاتے ہیں وہ پہلے وہاں ٹھہرتے ہیں پھر اوپر جاتے ہیں اور اوپر سے جو کچھ نازل ہوتا ہے پہلے وہاں ٹھہرایا جاتا ہے پھر نیچے اترتا ہے۔ (راجع تفسیر القرطبی صفحہ 94: ج 9) حدیث شریف کی کتابوں میں معراج شریف کا واقعہ تفصیل کے ساتھ مروی ہے۔ اس میں سدرۃ المنتہیٰ کا بھی تذکرہ فرمایا ہے صاحب معراج ﷺ کی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ملاقاتیں ہوئیں۔ آپ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملاقات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کیطرف لے جایا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے کہ ہجر بستی کے مشکیزے ہوتے ہیں اور اس کے پتے اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان اس درخت کو سونے کے پتنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ دوسری روایت میں ہے کہ اسے ایسے الوان (یعنی رنگوں) نے ڈھانپ رکھا تھا جنہیں میں نہیں جانتا اور ایک روایت میں ہے کہ جب سدرۃ المنتہیٰ کو اللہ کے حکم سے ان چیزوں نے ڈھانپ لیا جنہوں نے ڈھانپا تو وہ بدل گیا (یعنی پہلی حالت نہ رہی) اس میں بہت زیادہ حسن آگیا اس وقت اس کے حسن کا یہ عالم تھا کہ اللہ کی مخلوق سے کوئی بھی اس کے حسن کو بیان نہیں کرسکتا۔ (صحیح مسلم صفحہ 93: ج 1) چونکہ اس کے حسن اور سونے کے پتنگوں اور الوان کے ڈھانپنے کی وجہ سے اس کی عجیب کیفیت ہو رہی تھی اس لیے تفخیم اللشان ﴿ اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى ۙ0016﴾ فرمایا۔
Top