Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور بیشک آپ بڑے اخلاق والے ہیں،
پھر فرمایا ﴿ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ 004﴾ اور بیشک آپ بڑے اخلاق والے ہیں۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کی خلق عظیم کی تعریف بھی ہے اور آپ کے دشمنوں کی تردید بھی ہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے اخلاق فاضلہ کاملہ سے نوازا ہے آپ کے اخلاق ان لوگوں کی تردید کر رہے ہیں جو آپ کو مجنون کہتے تھے۔ آپ کے اخلاق کریمانہ کی ایک جھلک دیکھنا چاہیں تو احادیث شریفہ میں جو آپ کے مکارم اخلاق اور معاشرت و معاملات کے واقعات لکھے ہیں ان کا مطالعہ کرلیا جائے توراۃ شریف تک میں آپ کے اخلاق فاضلہ کا ذکر پہلے ہی سے موجود تھا۔ (دیکھو صحیح بخاری صفحہ 185) آپ صاحب خلق عظیم تھے اپنی امت کو بھی اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے تھے موطا امام مالک میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ : بعثت لاتمم حسن الاخلاق کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ حضرت ابو الدرداء ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ قیامت کے دن مومن کی ترازو میں جو سب سے زیادہ بھاری چیز رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ فحش گو اور بدکلام کو اللہ تعالیٰ مبغوض رکھتا ہے۔ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے تم میں سے سب سے زیادہ وہ لوگ محبوب ہیں جن کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ ایمان والوں میں کامل ترین وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح 431) حضرت عائشہ ؓ سے ان کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں کس طرح رہتے تھے انہوں نے کہا کہ اپنے گھر والوں کے کام کاج میں رہتے تھے۔ جب نماز کا وقت ہوجاتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے، حضرت عائشہ ؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ نے کبھی کسی کو اپنے دست ِ مبارک سے نہیں مارا نہ کسی عورت کو نہ کسی خادم کو ہاں اگر فی سبیل اللہ جہاد میں کسی کو مارا ہو تو اور بات ہے اور اگر کسی سے آپ کو تکلیف پہنچی ہو تو اس کا انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ کی حرمت والی چیزوں میں سے کسی کی بےحرمتی ہونے لگتی تو آپ اس کا انتقام لے لیتے تھے۔ (رواہ مسلم) حضرت عائشہ ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ نہ فحش گو تھے نہ بتکلف فحش گو بنتے تھے اور نہ بازاروں میں شور مچاتے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ معاف فرماتے اور درگزر فرما دیتے تھے۔ (رواہ الترمذی) حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی مجھ سے کوئی نقصان ہوگیا تو کبھی ملامت نہیں فرمائی، اگر آپ کے گھر والوں میں سے کسی کی طرف سے ملامت ہوتی تو فرماتے کہ چھوڑو جانے دو جو چیز مقدر میں تھی وہ پیش آنی ہی تھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 519 عن المصابیح) حضرت انس ؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی شخص مصافحہ کرتا تو آپ اس کی طرف سے اپنا چہرہ نہیں پھیر لیتے تھے جب تک وہ ہی اپنا چہرہ نہ پھیر لیتا اور آپ کو کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی پاس بیٹھنے والے کی طرف ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہوں۔ (رواہ الترمذی) حضرت عبداللہ بن حارث ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مسکرانے والا میں نے نہیں دیکھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 520) حضرت معاذ بن جبل ؓ کو جب آپ نے (یمن جانے کے لیے) رخصت فرمایا تو جب انہوں نے رکاب میں پاؤں رکھا تو آخری وصیت یہ فرمائی کہ احسن خلقک للناس کہ لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا۔ (رواہ مالک) ام المومنین سیّدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک مومن آدمی اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے راتوں کو نمازوں میں قیام کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے کا درجہ پا لیتا ہے۔ (رواہ ابو داؤد)
Top