Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَّعَلَي : اور پر الثَّلٰثَةِ : وہ تین الَّذِيْنَ : وہ جو خُلِّفُوْا : پیچھے رکھا گیا حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب ضَاقَتْ : تنگ ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : باوجود کشادگی وَضَاقَتْ : اور وہ تنگ ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَنْفُسُھُمْ : ان کی جانیں وَظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنْ : کہ لَّا مَلْجَاَ : نہیں پناہ مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِلَّآ : مگر اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ : پھر تَابَ عَلَيْهِمْ : وہ متوجہ ہوا ان پر لِيَتُوْبُوْا : تاکہ وہ توبہ کریں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنیوالا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور اللہ نے ان تین شخصوں کے حال پر بھی توجہ فرمائی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین اپنی فراخی کے باو جود ان پر تنگ ہوگئی اور خود اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ سے بچ کر کہیں پناہ نہیں مل سکتی سوائے اس کے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ رجوع کریں بیشک اللہ خوب توبہ قبول فرمانے والا ہے، اور رحم کرنے والا ہے۔
تین حضرات کا مفصل واقعہ جو غزوہ تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے اس کے بعد ان تین حضرات کی توبہ قبول فرمانے کا خصوصی تذکرہ فرمایا جو مخلص بھی تھے۔ اور غزوہ تبوک میں ساتھ نہ گئے تھے انہوں نے بالکل سچ بولا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت عالی میں صاف صاف عرض کردیا کہ ہم بغیر عذر کے رہ گئے تھے یہ حضرات کعب بن مالک ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ آیت کریمہ (وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِ ) میں اجمالی طور پر ان کا ذکر ہوچکا ہے یہاں دو بارہ ان کا تذکرہ فرمایا ہے کہ اللہ نے ان تین شخصوں پر بھی اپنی مہربانی سے توجہ فرمائی جن کا معاملہ ملتوی کردیا گیا تھا۔ ان تینوں حضرات کو زمین تنگ معلوم ہونے لگی اور اپنے نفسوں میں بھی تنگی محسوس کرنے لگے یعنی ان کا جینا بہت زیادہ دشوار اور دو بھر ہوگیا۔ اول تو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی اور اوپر مقاطعہ کا حکم کہ کوئی ان سے نہ بولے یہ سب باتیں مل کر بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہوگئے تھے جن کا واقعہ تفصیل سے حضرت کعب بن مالک کی زبانی امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے کتاب المغازی (ص 634 ج 2) میں یوں بیان کیا ہے۔ حضرت کعب بن مالک ؓ نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ سے فارغ ہو کر واپس تشریف لانے لگے تو مجھے زیادہ فکر لا حق ہوگئی میں سوچتا رہا کہ میں آپ کی نا گواری سے کیسے نکلوں گا اس بارے میں یہ بھی خیال آتا تھا کہ جھوٹے عذر پیش کر دوں گا۔ اور اپنے گھر والوں سے بھی اس بارے میں مشورہ کرتا تھا۔ جب آپ بالکل ہی مدینہ منورہ کے قریب پہنچ گئے تو جھوٹ بولنے کا جو خیال تھا وہ بالکل ختم ہوگیا اور میں نے یہ طے کرلیا کہ سچ ہی بولوں گا اور سچ ہی کے ذریعہ میں آپ کی ناراضگی سے نکل سکتا ہوں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے ہی آئے۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب سفر سے تشریف لاتے تھے تو اول مسجد میں جاتے تھے وہاں دو رکعتیں پڑھ کر تشریف فرما ہوجاتے تھے۔ جب آپ اپنے اس عمل سے فارغ ہوگئے تو وہ لوگ آگئے جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے پیچھے رہ گئے تھے۔ یہ لوگ حاضر خدمت ہوئے اور اپنے اپنے عذر پیش کرتے رہے اور قسمیں کھاتے رہے۔ یہ لوگ تعداد میں اسی سے کچھ اوپر تھے۔ آپ ظاہری طور پر ان کے عذر قبول فرماتے رہے۔ ان کو بیعت بھی فرمایا اور ان کے لیے استغفار بھی کیا اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد فرما دیا۔ حضرت کعب نے بیان کیا میں بھی حاضر خدمت ہوا۔ میں نے سلام عرض کیا۔ آپ مسکرائے جیسے کوئی غصہ والا شخص مسکراتا ہو پھر فرمایا آ جا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا تمہیں کس چیز نے پیچھے ڈالا (غزوۂ تبوک میں کیوں شریک نہیں ہوئے ؟ ) کیا تم نے سواری نہیں خرید لی تھی۔ میں نے عرض کیا واقعتا میں نے سواری خرید لی تھی۔ اللہ کی قسم اگر اصحاب دنیا میں سے کسی کے پاس بیٹھتا تو میں اس کی ناراضگی سے عذر پیش کر کے نکل سکتا تھا میں بات چیت کرنے کا ڈھنگ جانتا ہوں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں اور اس پر قسم کھاتا ہوں کہ اگر آج میں آپ کے سامنے جھوٹی بات پیش کر کے آپ کو راضی کرلوں تو عنقریب ہی اللہ تعالیٰ (صحیح بات بیان فرما کر) آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اور اگر میں سچی بات بیان کروں تو آپ غصہ تو ہوں گے لیکن میں اس میں اللہ سے معافی کی امید رکھتا ہوں، اللہ کی قسم مجھے کوئی عذر نہ تھا اور جتنا قوی اور غنی میں اس موقعہ پر تھا جبکہ آپ سے پیچھے رہ گیا ایسی قوت والا اور مال والا میں کبھی بھی نہیں ہوا۔ میری بات سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس شخص نے سچ کہا پھر فرمایا کھڑے ہوجاؤ۔ یہاں تک کہ اللہ تمہارے بارے میں فیصلہ فرمائے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں کہ میں وہاں سے اٹھا اور قبیلہ بنی سلمہ کے لوگ میرے ساتھ ہو لیے انہوں نے اللہ کی قسم جہاں تک ہمارا علم ہے اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ کیا تم یہ نہ کرسکے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اسی طرح عذر پیش کردیتے جیسے دوسرے لوگوں نے اپنے عذر پیش کیے اور پھر رسول اللہ ﷺ کا استغفار فرمانا تمہارے لیے کافی ہوجاتا، اللہ کی قسم ان لوگوں نے مجھے اتنی ملامت کی کہ میں نے یہ ارادہ کرلیا کہ واپس جا کر اپنے بیان کو جھٹلا دوں (اور کوئی عذر پیش کر دوں) پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ بتاؤ میرا شریک حال اور کوئی شخص بھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں دو آدمی ہیں انہوں نے بھی اسی طرح اپنا بیان دیا ہے جیسا تم نے بیان دیا ہے اور ان کو وہی جواب دیا گیا جو تم کو دیا گیا، میں نے پوچھا وہ دونوں کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ ہیں۔ ان لوگوں نے میرے سامنے ایسے دو شخصوں کا ذکر کیا جو صالحین میں سے تھے۔ میں نے کہا کہ میں ان دونوں کی اقتداء کرتا ہوں۔ جو ان کا حال ہوگا وہی میرا حال ہوجائے گا۔ حضرت کعب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیا۔ لہٰذا لوگ ہم سے بچ کر رہنے لگے اور یکسر بد ل گئے۔ میرا تو یہ حال ہوا کہ زمین بھی مجھے دوسری زمین معلوم ہونے لگی گویا کہ میں اس زمین میں رہتا ہوں جسے جانتا بھی نہیں۔ رات دن برابر گزر رہے تھے میں مسلمانوں کے ساتھ نمازوں میں حاضر ہوتا تھا اور بازاروں میں گھومتا تھا لیکن مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں میری حاضری ہوتی تھی، آپ نماز کے بعد تشریف فرما ہوتے تو میں سلام عرض کرتا اور اپنے دل میں یہ خیال کرتا تھا کہ سلام کے جواب کے لیے آپ ہونٹ ہلاتے ہیں یا نہیں ؟ پھر میں آپ کے قریب نماز پڑھتا تھا اور نظر چرا کر آپ کی طرف دیکھتا تھا۔ جب میں نماز پڑھتا تھا تو آپ میری طرف توجہ فرماتے تھے اور جب میں آپ کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ اعراض فرما لیتے تھے۔ یہ تو میرا حال تھا۔ لیکن میرے جو دو ساتھی تھے وہ تو بالکل ہی عاجز ہو کر اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور برابر روتے رہے۔ اس مقاطعہ کے زمانہ میں ایک یہ واقعہ پیش آیا کہ میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کے باغ کی دیوار پر چڑھا جن سے مجھے بہ نسبت اور لوگوں کے سب سے زیادہ محبت تھی، میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا اے ابو قتادہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی اور ان کو قسم دلائی وہ پھر خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی اور ان کو قسم دلائی تو انہوں نے اتنا کہہ دیا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمْ (اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والا ہے) یہ بات سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں واپس ہوگیا اور دیوار پھاند کر چلا آیا۔ اور دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میں مدینہ منورہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ شام کے کا شتکاروں میں سے ایک شخص جو غلہ بیچنے کے لیے مدینہ منورہ آیا ہوا تھا لوگوں سے پوچھ رہا تھا کہ کعب بن مالک کون شخص ہے ؟ لوگ میری طرف اشارے کرنے لگے۔ وہ میرے پاس آیا اور غسان کے بادشاہ کا ایک خط مجھے دیا۔ جس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تمہارے آقا نے تمہارے ساتھ سختی کا معاملہ کیا ہے اور اللہ نے تمہیں گرا پڑا آدمی نہیں بنایا۔ لہٰذا تم ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری دلداری کریں گے۔ یہ خط پڑھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ ایک اور آزمائش سامنے آگئی۔ میں نے اس خط کو لے کر تنور میں جھونک دیا۔ مقاطعہ کے سلسلہ میں ایک یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم تینوں کو حکم بھیجا کہ اپنی بیویوں سے علیحدہ رہیں۔ ہلال بن امیہ کی بیوی تو حاضر خدمت ہو کر یہ عذر پیش کر کے اجازت لے آئی کہ وہ بہت زیادہ بوڑھے ہیں ان کا کوئی خادم نہیں ہے آپ نے خدمت کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ وہ میاں بیوی والا جو خاص تعلق ہے اس کو کام میں نہ لایا جائے۔ میرے خاندان والوں نے مجھے بھی مشورہ دیا کہ تم بھی اجازت طلب کرلو کہ تمہاری بیوی تمہاری خدمت کردیا کرے۔ میں نے کہا کہ میں جوان آدمی ہوں میں ایسا نہیں کرسکتا۔ جب اس مقاطعہ پر پچاس راتیں گزر گئیں تو نماز فجر کے بعد جبکہ میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور میرا حال وہ ہوچکا تھا جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے کہ اپنی جان سے بھی تنگ آگیا اور زمین بھی میرے لیے اپنی کشادگی کے باوجو دتنگ ہوگئی تو میں نے ایک بلند آواز سنی جبل سلع پر چڑھ کر کوئی شخص بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک خوش ہوجاؤ یہ آواز سن کر میں سجدہ میں گرپڑا اور میں نے یہ سمجھ لیا کہ مصیبت دور ہونے کی کوئی صورت سامنے آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کا اعلان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول فرما لی۔ یہ اعلان نماز فجر کے بعد فرمایا تھا۔ اعلان سن کر لوگ ہمیں خوشخبری دینے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھیوں کی طرف بھی خوشخبری دینے والے چلے اور ایک صاحب اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میری طرف چلے۔ لیکن قبیلہ بنی اسلم کے ایک صاحب دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر توبہ کی خوشخبری سنا دی۔ اس شخص کی آواز گھوڑ سوار سے پہلے پہنچ گئی۔ جب وہ شخص میرے پاس پہنچا جس کی آواز میں نے سنی تھی تو اسے میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر دے دیئے۔ اس وقت میرے پاس یہی دو کپڑے تھے (اگرچہ مال بہت تھا) میں نے دونوں کپڑے دے دیئے اور خود دو کپڑے مانگ کر پہن لیے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف روانہ ہوا۔ صحابہ کرام مجھ سے فوج درفوج ملاقات کرتے تھے اور توبہ قبول ہونے پر مبارکبادی دیتے تھے میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہیں آپ کے چاروں طرف حاضرین موجود ہیں۔ میری طرف طلحہ بن عبید اللہ دوڑے ہوئے آئے یہاں تک کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ میں ان کے اس عمل کو کبھی نہیں بھولوں گا اس کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی بھی میری طرف اٹھ کر نہیں آیا۔ (وجہ اس کی یہ تھی کہ اگر سبھی اٹھتے تو مسجد نبوی جو سکون و اطمینان کے ساتھ جمی ہوئی تھی وہ ٹوٹ جاتی، سب کی طرف سے ایک شخص کا کھڑا ہونا کافی ہوگیا) میں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اس وقت آپ کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا آپ نے فرمایا کہ تم خوشخبری قبول کرو۔ جب سے تمہاری پیدائش ہوئی ہے تم پر آج سے بہتر کوئی دن نہیں گزرا اس سے اسلام لانے کا دن مستثنیٰ ہے (کمافی حاشیتہ البخاری عن القسطلانی) رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی خوشی کا موقعہ آتا تھا تو آپ کا چہرہ انور ایسا روشن ہوجاتا تھا جیسے چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ کی خوشی کو اسی سے پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے اپنی توجہ میں اس بات کو بھی شامل کرلیا کہ میں اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے خرچ کر دوں گا۔ آپ نے فرمایا کچھ مال رکھ لو، تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے کہا اچھا تو میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو مجھے خیبر کے مال غنیمت سے ملا تھا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ نے مجھے سچ ہی کے ذریعہ نجات دی ہے اور میں نے اپنی توبہ میں اس بات کو بھی شامل کرلیا ہے کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ ہی بولوں گا کہنے کو تو میں نے کہہ دیا لیکن میرے علم میں مسلمانوں میں کوئی ایسا نہیں جو سچ بولنے کے بارے میں مجھ سے زیادہ مبتلا کیا گیا ہو۔ میں آج تک اس پر قائم ہوں، جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سچ بولنے کا عہد کیا اس وقت سے لے کر آج تک کبھی میں نے جان کر جھوٹ نہیں بولا اور اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ باقی زندگی بھی میری حفاظت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے توبہ قبول فرمانے کی بشارت دیتے ہوئے آیت شریفہ (لَقَدْ تَّاب اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ ) سے لے کر (وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) تک آیات نازل فرمائیں۔ حضرت کعب نے یہ بھی فرمایا کہ نعمت اسلام کے بعد اس سے بڑی کوئی نعمت مجھے حاصل نہیں ہوئی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سچ بات کہہ دی تھی۔ اگر میں جھوٹ کہہ دیتا تو میں بھی ہلاک ہوجاتا جیسے دوسرے لوگ جھوٹے عذر پیش کر کے ہلاک ہوگئے۔ فوائد ضروریہ : حضرت کعب بن مالک ؓ اور ان کے دونوں ساتھیوں کے واقعہ سے بہت سے فوائد مستنبط ہوتے ہیں۔ (1) مومن بندوں پر لازم ہے کہ ہمیشہ سچ بولیں، سچی بات کہیں، سچ ہی میں نجات ہے۔ اور جھوٹ میں ہلاکت ہے۔ منافقین نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر جھوٹے عذر پیش کر کے دنیا میں جانیں چھڑا لیں لیکن آخرت کا عذاب اپنے سر لے لیا اور مخلصین مومنین نے سچ بولا اور سچی توبہ کی۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کی توبہ قبول فرمانے کا اعلان فرما دیا۔ اگر کوئی شخص اپنے اکابر سے اور متعلقین سے جھوٹ بولے چند دن ممکن ہے کہ اس کا جھوٹ چل جائے لیکن پھر اس کی پول کھل ہی جاتی ہے۔ اور ذلت کا منہ دیکھتا پڑتا ہے۔ (2) امیر المومنین اگر مناسب جانے تو بعض افراد کے بارے میں مقاطعہ کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ عامۃ المسلمین کو حکم دے سکتا ہے کہ فلاں فلاں شخص سے سلام کلام بند رکھیں۔ جب وہ صحیح راہ پر آجائے تو مقاطعہ ختم کردیا جائے۔ (3) بعض مرتبہ ابتلاء پر ابتلا ہوجاتا ہے۔ حضرت کعب بن مالک ؓ رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی میں اور مقاطعہ کی مصیبت میں مبتلا تو تھے ہی اوپر سے شاہ غسان کا یہ خط ملا کہ تم ہمارے پاس آجاؤ تو ہم تمہاری قدر دانی کریں گے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان پر استقامت بخشی اور انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا مندی ہی کو سامنے رکھا اور بادشاہ کے خط کو تنور میں جھونک دیا۔ اگر وہ اس وقت اپنے عزائم میں کچے پڑجاتے اور شاہ غسان کی طرف چلے جاتے تو اس وقت کی ظاہری مصیبت بظاہر دور ہوجاتی لیکن ایمان کی دولت سے محروم ہو کر آخرت برباد ہوجاتی۔ اس قسم کے ابتلاء ات اور امتحانات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرے اور استقامت پر رہے۔ (4) حضرت کعب ؓ مقاطعہ کے باو جود مسجد میں حاضر ہوتے رہے نمازیں پڑھتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سلام بھی پیش کرتے رہے۔ یہ نہیں سوچا کہ چلو آپ روٹھے ہم چھوٹے، جیسا کہ ان لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے جن کا تعلق اصلی نہیں ہوتا۔ (5) جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آجائے تو اس کے مقابلہ میں کسی عزیز قریب کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ حضرت قتادہ جو حضرت کعب بن مالک کے چچا زاد بھائی اور انہیں سب سے زیادہ محبوب تھے جب انہیں سلام کیا تو جواب نہیں دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے سلام کلام کی ممانعت تھی۔ (6) جب آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں تینوں حضرات کی توبہ قبول فرمانے کا ذکر تھا تو حضرات صحابہ نے کعب بن مالک اور ان کے دونوں ساتھیوں کو جلدی سے بشارت دینے کی کوشش کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دینی معاملات میں کسی کو کوئی کامیابی حاصل ہوجائے جس کا اسے علم نہ ہو تو اسے بشارت دینی چاہئے اور اس میں جلدی کرنی چاہئے۔ (7) پھر جب حضرت کعب ؓ توبہ کا اعلان سننے کے بعد اپنے گھر سے نکلے تو حضرات صحابہ ؓ نے جوق در جوق ان سے ملاقاتیں کیں اور برابر انہیں مبارکبادیاں رہے یہ مبارک بادی توبہ قبول ہونے پر تھی، معلوم ہوا کہ دینی امور میں اگر کسی کو کامیابی حاصل ہوجائے تو اسے مبارک بادی دینا چاہئے۔ (8) جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حضرت کعب پہنچے تو حضرت طلحہ بن عبید اللہ کھڑے ہوئے اور دوڑ کر ان سے مصافحہ کیا اور مبارک بادی دی اس سے معلوم ہوا کہ زبانی مبارک بادی کے ساتھ عملی طور پر مبارکباد دینا بھی مستحب ہے۔ (9) آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا عہد کرنا اور جو کچھ گناہ کیا ہو اس پر سچے دل سے نادم ہونے سے توبہ قبول ہوجاتی ہے (اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تلافی کرنا بھی لازم ہوتا ہے) لیکن توبہ کو اقرب الی القبول بنانے کے لیے مزید کوئی عمل کرنا مستحب ہے۔ اور توبہ قبول ہونے کے بعد بطور شکر کچھ مال خیرات کرنا بھی مستحب ہے۔ صلاۃ التوبہ جو مشروع ہے اس میں یہی بات ہے کہ توبہ کی قبولیت جلد ہوجائے اور قبول کرانے کے لیے ندامت کے ساتھ کوئی اور عمل بھی شامل ہوجائے۔ حضرت کعب نے توبہ قبول ہوجانے کے بعد جو یہ عرض کیا کہ میں نے اللہ کی رضا کے لیے بطور صدقہ اپناپورا مال خرچ کرنے کی نیت کی ہے۔ یہ نیت اگر پہلے سے تھی تو صلوٰۃ التوبہ کی طرح ایک عمل ہے اور اگر بعد میں نیت کی تھی تو بطور ادائے شکر تھی۔ (10) حضرت کعب نے عرض کیا کہ میری توبہ کا یہ بھی جزو ہے کہ میں اپنا پورا مال بطور صدقہ خرچ کر دوں، اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب خرچ نہ کرو کچھ مال روک لو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تو میں اپنا خیبر والا حصہ روک لیتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پورا مال صدقہ کر کے پریشانی میں نہ پڑجائے۔ البتہ اگر کسی نے پورا مال صدقہ کرنے کی نذر مان لی (جو زبان سے ہوتی ہے) تو اس کو پورا مال صدقہ کرنا واجب ہے لیکن اس سے بھی یوں کہا جائے گا کہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے بقدر ضرورت کچھ روک لے اور آئندہ جب مال تیری ملکیت میں آجائے تو جو مال روک لیا تھا اسی جنس کا مال صدقہ کردینا تاکہ نذر پر پوری طرح عمل ہوجائے۔ حضرت کعب کے واقعہ میں چونکہ نذر نہیں تھی محض نیت تھی، اس لیے جتنا مال روک لیا تھا۔ اس کے برابر میں صدقہ کرنے کا ذکر حدیث میں نہیں ہے۔ (11) جو شخص جس قدر کسی گناہ سے بچنے کا اہتمام کرنے کا عہد کرلیتا ہے اسے عموماً ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جن میں اس گناہ کے کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ ایک بڑا امتحان ہوتا ہے۔ حضرت کعب نے چونکہ ہمیشہ سچ بولنے کا عہد کرلیا تھا اس لیے اس بارے میں ان کا بار بار امتحان ہوتا رہتا تھا۔
Top