Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور سچوں کے ساتھ ہوجانے کا حکم اوپر کی دو آیتوں میں حضرت کعب بن مالک اور ان کے دونوں ساتھیوں کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ یہ آیت بھی انہی آیات کے ساتھ نازل ہوئی۔ حضرت کعب اور ان کے ساتھیوں نے سچ بولا اور سچ ہی کی وجہ سے نجات ہوئی (جس کا حدیث شریف میں ذکر ہے) اس آیت میں سچائی کی اہمیت اور ضرورت بتانے کے لیے عامۃ المسلمین کو حکم فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اللہ سے ڈرنے کا حکم قرآن مجید میں جگہ جگہ وارد ہوا ہے۔ اس آیت میں تقویٰ حاصل ہونے کا ایک طریقہ بتادیا اور وہ یہ ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ عربی میں صادق سچے کو کہتے ہیں اور سچائی کو صدق کہتے ہیں۔ دین اسلام میں صدق کی بہت بڑی اہمیت اور فضیلت ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ایمان، اقوال اور اعمال سب میں ضرورت ہے۔ اس کی ضد کذب یعنی جھوٹ ہے۔ جھوٹ سے دین اسلام کو بہت سخت نفرت ہے۔ اور اس کی شدید ممانعت ہے۔ مومن بندہ پر لازم ہے کہ ان وعدوں میں سچا ہو جو وہ مخلوق سے کرتا ہے۔ بندوں کے ساتھ جو رہنا سہنا ہو اس میں بھی سچائی کو سامنے رکھے۔ اگر سچائی پیش نظر نہ رہے تو جھوٹ بولے گا اور دھوکہ دے گا۔ سورة زمر میں فرمایا (وَالَّذِیْ جَاء بالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) (اور جو شخص سچ لے کر آیا اور سچ کی تصدیق کی سو یہ لوگ تقویٰ والے ہیں) اس میں سچائی اختیار کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور انہیں صفت تقویٰ سے متصف بتایا ہے۔ سورة حجرات میں فرمایا (اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ ) (بلاشبہ مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہیں کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں) اس میں یہ بتادیا کہ ایمان میں سچائی ہونا لازم ہے۔ اگر دین کی کسی بات کو نہ مانا یا عقائد دینیہ کے کسی عقیدہ میں شک کیا گو وہ لوگوں کے سامنے بظاہر مسلمان ہونے کی وجہ سے مومن سمجھا جائے گا لیکن اللہ کے ہاں مومن نہ ہوگا کیونکہ اس کے ایمان میں سچائی نہیں ہے پھر عملی طور پر بھی ایمان کے تقاضوں کو پورا کر کے دکھانا لازم ہے۔ اللہ کی راہ میں مالوں سے، جانوں سے جہاد کریں اور یہ سب کچھ دل کی گہرائیوں سے پوری سچائی کے ساتھ ہو۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے نہ جان جانے کی پرواہ ہو نہ مال خرچ ہونے سے نفس میں کوئی خلش اور چبھن محسوس ہوتی ہو۔ جو بھی عمل کریں اس میں نیت کی سچائی ہو یعنی صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت ہو۔ بندوں کو معتقد بنانا ان سے تعریف کروانا اعمال صالحہ کے ذریعہ دنیا طلب کرنا اور شہرت کے لیے علم حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔ جیسی عبادت مخلوق کے سامنے کرے جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو، ایسی ہی عبادت تنہائی میں کرے۔ ایسا نہ کرے کہ لوگوں کے سامنے لمبی نماز اور اچھی نماز پڑھے اور تنہائی میں نماز پڑھے تو جلدی جلدی نمٹا دے نہ رکوع سجدہ ٹھیک ہو نہ تلاوت صحیح ہو نہ خشوع و خضوع ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جب بندہ ظاہر میں نماز پڑھتا ہے اور اچھی نماز پڑھتا ہے پھر لوگوں سے علیحدہ ہو کر تنہائی میں نماز پڑھتا ہے تب بھی اچھی نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ھٰذا عَبْدِیْ حَقًّا) کہ سچ مچ یہ میرا بندہ ہے۔ (رواہ ابن ماجہ کمافی المشکوٰۃ ص 455) حضرت شیخ سعدی (رح) نے گلستان میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک صاحب جو بزرگ سمجھے جاتے تھے اپنے ایک لڑکے کے ساتھ بادشاہ کے مہمان ہوئے وہاں انہوں نے نماز پڑھی اور کھانا کم کھایا، جب واپس گھر آئے تو اہل خانہ سے کھانا طلب کیا۔ لڑکے نے کہا کہ ابا جان نماز بھی دوبارہ پڑھئے، کیونکہ جیسے وہاں کھانا کم کھانا اللہ تعالیٰ کے لیے نہ تھا ایسے ہی آپ کی نماز بھی اللہ کے لیے نہ تھی۔ جب بندہ کہتا ہے کہ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں اور (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ایَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) کے الفاظ زبان سے ادا کرتا ہے تو اسے ظاہر سے اور باطن سے اللہ ہی کا بندہ بننا لازم ہے۔ زبان سے اللہ کا بندہ ہونے کا دعویٰ اور عملی طور پر دنیا کا بندہ، خواہشوں کا بندہ۔ دینار اور درہم کا بندہ۔ یہ شان عبدیت کو زیب نہیں دیتا، دعوائے بندگی میں سچا ہونا لازم ہے۔ جب دعا کرے تو دعا میں بھی سچائی ہونی چاہئے یعنی جب یوں کہے کہ اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں تو پوری طرح متوجہ ہو کر حقیقی سوالی بن کر سوال کرے۔ زبان سے دعاء کے الفاظ جاری ہیں لیکن دل غافل ہے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ کیا مانگ رہا ہوں ؟ یہ سچ اور سچائی کے خلاف ہے۔ جب اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو سچے دل سے حضور قلب کے ساتھ مغفرت طلب کرے۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو یوں کہہ رہا ہے کہ میں مغفرت چاہتا ہوں لیکن دل اور کہیں لگا ہوا ہے۔ یہ صدق اور سچائی کے خلاف ہے۔ اسی لیے حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا نے فرمایا استغفارنا یحتاج الی استغفار کثیر۔ کہ ہمارا استغفار کرنا بھی صحیح استغفار نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی استغفار کی ضرورت ہے (ذکرہ ابن الجزری فی الحصن) اگر قسم کھائے تو اللہ کی قسم کھائے اور سچی قسم کھائے آئندہ کسی عمل کے کرنے پر قسم کھائی تو قسم پورا کرے (شرط اس میں بھی وہی ہے کہ گناہ کی نذر نہ ہو) ۔ جب کسی نیک کام کرنے کا ارادہ اور وعدہ کرے تو سچا کر دکھائے۔ حضرت انس ؓ کے چچا انس بن نضر غزوہ بدر میں شریک ہونے سے رہ گئے تھے۔ اس کا انہیں بہت رنج ہوا، کہنے لگے کہ افسوس ہے رسول اللہ ﷺ نے پہلی بار مشرکین سے جنگ کی اور اس میں شریک نہ ہوا۔ اگر اللہ نے مجھے مشرکین سے قتال کرنے کا موقعہ دیا تو میں جان جوکھوں میں ڈال کر دکھا دوں گا۔ آئندہ سال جب غزوۂ احد پیش آیا اور اس میں مسلمان شکست کھا گئے تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ میں مشرکین کے عمل سے برأت ظاہر کرتا ہوں اور یہ جو مسلمانوں نے شکست کھائی ان کی طرف سے معذرت پیش کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے احد سے ورے جنت کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے اور مشرکین سے بھڑ گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ شہادت کے بعد دیکھا گیا تو ان کے جسم میں تلواروں اور نیزوں کے اسی سے کچھ اوپر زخم تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ ) (مومنین میں ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنا عہد پورا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا) حضرات صحابہ ؓ سمجھتے تھے کہ یہ آیت حضرت انس بن نضر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ (ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور ص 194 ج 5) و عزاہ الی الترمذی و النسائی و البیھقی فی الدلائل۔ و رواہ البخاری مختصراً ص 605 ج 2) حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوۂ احد سے فارغ ہوئے تو حضرت مصعب بن عمیر ؓ پر آپ کا گزر ہوا۔ آپ نے ان کو مقتول پڑا ہوا دیکھا اور آیت (رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ) تلاوت فرمائی۔ (درمنثور ص 191 ج 1 عن الحاکم و البیہقی فی الدلائل) جو شخص عالم نہ ہو وہ طرز گفتگو سے یہ ظاہر نہ کرے کہ میں عالم ہوں۔ اگر کوئی شخص عالم بھی ہو اور مسئلہ معلوم نہ ہو تو اٹکل سے مسئلہ نہ بتائے کیونکہ اس میں اس کا دعویٰ ہے کہ میں جانتا ہوں اور یہ دعویٰ جھوٹا ہے پھر اٹکل سے بتانے میں غلطی ہوجاتی ہے اس میں اپنا بھی نقصان ہے اور سوال کرنے والے کو بھی دھوکہ دینا ہے اور گمراہ کرنا ہے۔ اگر کسی کے پاس مال یا علم و عمل کا کمال نہ ہو تو اپنی حقیقی حالت کے خلاف ظاہر نہ کرے، کیونکہ یہ صدق و سچائی کے خلاف ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ایک سوتن ہے اگر میں جھوٹ موٹ (اسے جلانے کے لیے) یوں کہہ دوں کہ شوہر نے مجھے یہ یہ کچھ دیا ہے اور حقیقت میں نہ دیا ہو تو کیا اس میں کچھ گناہ ہے ؟ آپ نے فرمایا اَلْمُتَشَبِّعُ بِِمَا لَمْ یُعْطَ کَلَا بِسِ ثَوْبَیْ زُوْرٍ (مشکوٰۃ المصابیح ص 281 از بخاری و مسلم) کہ جس شخص نے جھوٹ یہ ظاہر کیا کہ مجھے یہ چیز دی گئی ہے حالانکہ اسے نہیں دی گئی اس کی ایسی مثال ہے جیسے کیسی نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے (یعنی سر سے پاؤں تک وہ جھوٹا ہی جھوٹا ہے) اس حدیث کا مفہوم بہت عام ہے۔ ہر قسم کے جھوٹے دعویداروں کو شامل ہے۔ سچ اور جھوٹ اقوال میں منحصر نہیں، اعمال و احوال اور لباس اور دعاوی اور عزائم ان سب میں سچ اور جھوٹ کی شان پیدا ہوجاتی ہے ہر مومن بندہ اپنی نگرانی کرے اور سچ ہی کو اختیار کرے اور ہر طرح کے جھوٹ سے بچے۔ اصلاح بین الناس یا بعض دیگر مواقع میں جو جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے، وہ مستثنیٰ ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جانوں کی طرف سے مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (1) جب بولو تو سچ بولو (2) وعدوں کو پورا کرو (3) جو امانتیں تمہارے پاس رکھی جائیں انہیں ادا کرو۔ (4) اپنی شرم کی جگہوں کی حفاظت کرو۔ (5) اپنی نظروں کو نیچا رکھو۔ (6) اپنے ہاتھوں کو (ظلم و زیادتی سے) بچائے رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 415) عبداللہ بن عامر ؓ کا بیان ہے کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے میری والدہ نے کہا آ میں تجھے دے رہی ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا انہوں نے کہا میں نے کھجور دینے کا ارادہ کیا تھا آپ نے فرمایا اگر تو اسے کچھ بھی نہ دیتی تو تیرے اعمال نامہ میں ایک جھوٹ لکھا جاتا (مشکوٰۃ المصابیح ص 416) اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کو راضی کرنے کے لیے بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ان سے جو وعدہ کریں وہ بھی سچا ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم سچ کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور بیشک نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور انسان برابر سچ اختیار کرتا ہے اور سچ ہی پر عمل کرنے کی فکر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گنہگاری کی طرف لے جاتا ہے اور گنہگاری دوزخ میں لیجاتی ہے اور انسان جھوٹ کو اختیار کرتا ہے اور جھوٹ ہی کے لیے فکر مند رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تیرے اندر چار خصلتیں ہوں تو ساری دنیا بھی اگر تجھ سے جاتی رہے تو کوئی ڈر نہیں۔ (1) امانت کی حفاظت (2) بات کی سچائی (3) اخلاق کی خوبی (4) لقمہ کی پاکیزگی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 445) صادقین کی مصاحبت ابھی صدق کی فضیلت اور اہمیت اور اس کے مقابل جو صفت کذب ہے اس کی مذمت اور شناعت و قباحت معلوم ہوئی۔ حضرات مفسرین کرام نے (وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) کا ایک مطلب تو یہ بھی لکھا ہے کہ کونوا مثلھم فی صدقھم جو لوگ صادقین ہیں انہیں کی طرح ہوجاؤ یعنی صدق ہی کو اختیار کرو اور ایمان و اعمال و اقوال میں صادقین کی راہ پر چلو اور جس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اس کی مناسبت سے یہی معنی زیادہ اظہر ہیں۔ کیونکہ حضرت کعب اور ان کے دونوں ساتھی جو نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ جانے سے رہ گئے تھے وہ ان کے ساتھ عمل صدق میں شریک نہ ہوئے تھے۔ لیکن الفاظ کا عموم اس بات کو بھی بتاتا ہے کہ صادقین کی صحبت اختیار کرو۔ صحبت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ اچھی صحبت اور بری صحبت دونوں بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں جو اچھوں کی صحبت اٹھائے گا اس میں خوبی پیدا ہوگی اور جو بروں کی صحبت میں رہے گا اس میں برائیاں آتی چلی جائیں گی اور اس کا نفس برائیوں سے مانوس ہوجائے گا اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (لَا تُصَاحِبْ اِلَّا مُؤْمِنًا وَ لَا یَاْکُلُ طَعَامَکَ الاَّ تَقِیٌّ) صرف مومن کی صحبت اختیار کرو اور تیرا کھانا (یعنی طعام ضیافت) متقی کے سوا کوئی نہ کھائے (رواہ الترمذی) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے سو تم میں سے ہر شخص غور کرے کہ اس کی دوستی کس سے ہے (رواہ الترمذی) (اگر اچھے لوگوں سے دوستی ہے تو اچھا آدمی ہے اور برے لوگوں سے دوستی ہے تو سمجھ لے کہ تو برا آدمی ہے) ۔ پس ہر شخص کو معاشرت کے لیے اٹھنے بیٹھنے کے لیے مسافرت کے لیے اور مصاجت کے لیے صادقین کی صحبت اختیار کرنا لازم ہے جیسے ساتھی ہوں گے ویسا ہی خود ہوجائے گا اور یہ ایسی چیز ہے جس کا عموماً مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ سچوں کے ساتھ ہونے میں تقویٰ کا حکم دینے کے بعد سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم دیا۔ اپنے لیے بھی صادقین اور صالحین کی مصاحبت کا فکر کریں اور اپنی اولاد کے لیے بھی اسی کو سوچیں، صادقین کے ساتھ بھی رہیں ان کی کتابیں بھی پڑھیں۔ کتاب بھی بہترین ساتھی ہے مگر کتاب اچھی ہو۔ اچھائی سکھاتی ہو اور اچھے لوگوں کی لکھی ہوئی ہو۔
Top