(102:7) ثم لترونھا عین الیقین : ثم تراخی وقت کے لئے ہے۔ بمعنی پھر۔
لترونھا۔ لام تاکید کا ۔ ترون مضارع تاکید بانون ثقیلہ کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب کا مرجع جحیم ہے
پھر (یعنی قبروں سے اٹھنے کے بعد ، قیامت کے روز) تم اس کو ضرور بالضرور دیکھ لوگے۔
عین الیقین مضاف مضاف الیہ۔ یقین کی آنکھ۔ یہ لترون کا مفعول مطلق ہے۔
علامہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ رؤیت اور معائنہ ہم معنی ہیں۔ (اس لئے یہاں علم سے مراد ہے مشاہدہ) عین الیقین لترون کا مفعول مطلق ہے اگرچہ دونوں کا مادہ جدا جدا ہے مگر معنی ایک ہی ہے۔ اس تقریر سے رؤیر کو اس جگہ بمعنی علم قرار دینے کا قول دفع ہوگیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنی آنکھوں سے ایسا معائنہ کرلو گے جو یقین کا موجب ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ رؤیت اور مشاہدہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کو عین الیقین کہا جاتا ہے ۔ رؤیت چشم حصول علم کا سب سے قوی ذریعہ ہے۔ (تفسیر مظہری)