Anwar-ul-Bayan - Al-Humaza : 2
اِ۟لَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَهٗۙ
الَّذِيْ : جس جَمَعَ : جمع کیا مَالًا : مال وَّعَدَّدَهٗ : اسے گن گن کر رکھا
جو مال جمع کرتا اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے
(104:2) ن الذین جمع مالا وعددہ۔ یہ جملہ کل سے بدل ہے۔ یعنی ہر وہ شخص جس نے مال جمع کیا اور اس کو (بار بار) گنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب مال کی طرف راجع ہے۔ عدد ماضی واحد مذکر غائب تعدید (تفعیل) مصدر۔ بمعنی بار بار گننا۔ گن گن کر رکھنا ۔ امام ابو جعفر بیہقی نے تاج المصادر میں تعدید کے معنی لکھے ہیں :۔ بڑی تعداد میں مال جمع کرنا۔ نہایت اہتمام سے کسی چیز کا گننا۔ علامہ فیومیء نے مصباح میں تصریح کی ہے کہ :۔ عدد بالتشدید کا استعمال مبالغہ کے لئے ہوتا ہے۔ امام رازی (رح) تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :۔ ارشاد الٰہی وعددہ کے معنی کئی طرح ہوسکتے ہیں :۔ (1) یہ کہ عدۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ذخیرہ کے ہیں چناچہ اعددت الشیء لکذا اور عددتہ کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کہ اس غرض کے لئے مال کو روک رکھا ہو۔ اور حوادث زمانہ کے خیال سے اس کا ذخیرہ اور اندوختہ کیا جائے۔ (2) یہ کہ عدد کے معنی ہیں اس کو خوب گننا اور تشدید کثرت معدود کے لئے آتی ہے جس طرح کہ کہا جاتا ہے فلان یعدد فضائل فلان (فلاں شخص فلاں کی فضیلتوں کو بہت گناتا ہے) اسی لئے سدی نے عددہ کے معنی بیان کئے ہیں کہ :۔ احصاہ یعنی اس نے خوب شمار کر رکھا ہے اور کہتا ہے یہ بھی میرا ہے یہ بھی مرا ہے ۔ غرضیکہ دن بھر اسی مالی مصروفیت میں ختم ہوجاتا ہے۔ اور رات آتی ہے تو چھپا کر رکھ دیتا ہے۔ (3) یہ کہ عددہ بمعنی کثرہ ہے یعنی اس کو خوب زیادہ کرلیا۔ محاورہ ہے فی بنی فلان عدد۔ یعنی بنو فلاں میں بڑی کثرت ہے۔ اخیر کی دونوں توجیہوں کا تعلق عدد کے معنی سے ہے اور پہلی کا عدۃ کے معنی سے ہے۔ زجاج نے پہلے معنی ہی کو اختیار کیا ہے۔ اور ضحاک نے اس کی تفسیر ان لفظوں میں کی ہے۔ اعد مالہ لورثتہ۔ یعنی اپنے وارثوں کے لئے مال کا اندوختہ کیا۔ اس تفسیر پر بھی یہ عدۃ سے ماخوذ ہے۔
Top