Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 41
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ١ؕ وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم چلے آتے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹائے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے ۭوَاللّٰهُ : اور اللہ يَحْكُمُ : حکم فرماتا ہے لَا مُعَقِّبَ : کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں لِحُكْمِهٖ : اس کے حکم کو وَهُوَ : اور وہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اسکے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں ؟ اور خدا (جیسا چاہتا ہے) حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کا رد کرنیوالا نہیں۔ اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔
(13: 41) تاتی۔ اتی یاتی (باب ضرب) اتیان مصدر۔ مضارع جمع متکلم۔ ہم آتے ہیں۔ ہم چلے آتے ہیں۔ اتیان کے معنی ” آنا “ کے ہیں خواہ کوئی بذاتہٖ آئے یا اس کا حکم پہنچے۔ یا اس کا نظم ونسق اور حکم عملاً جاری ہو۔ جیسے فاتی اللہ بنیانہم من القواعد (16:26) سو اللہ نے ان کی ساری عمارت جڑ سے اکھاڑ دی۔ اتیتہ بکذا واتیتہ کذا۔ کے معنی کوئی چیز لانا اور دینا کے ہیں۔ ننقصھا۔ ننقص۔ مضارع جمع متکلم۔ نقص مصدر (باب نصر) ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ ہم اس کو کم کرتے ہیں انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا۔ میں ننقصھا من اطرافھا حال ہے ناتی کا۔ یعنی ہم زمین کو اس کی تمام طرفوں سے کم کرتے چلے آتے ہیں۔ (یہاں اتیان مصدر اس معنی میں استعمال ہوا ہے جس طرح (16:26) متذکرہ بالا میں) مطلب یہ کہ اہل کفار کے علاقے آہستہ آہستہ اہل اسلام کے اثرونفوذ میں چلے آرہے ہیں (علاقوں سے جغرافیائی۔ اعتقادی۔ تمدنی۔ سبھی حدود مراد لی جاسکتی ہیں) ۔ معقب۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ تعقیت (تفعیل) سے عقب مادّہ۔ ردکر دینے والا۔ لوٹا دینے والا۔ لا معقب لحکمہ ۔ اللہ کے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے۔ یہ عقب الحاکم علی حکم من قبلہ۔ کے محاورہ سے ماخوذ ہے۔ یعنی حاکم نے اپنے پیشرو کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ (الکشاف) نیز ملاحظہ ہو 13:11 ۔ اور 13:22) ۔
Top