Tafheem-ul-Quran - Ar-Ra'd : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی لوگ کہنے لگے " اے مریم، یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا
سورة مَرْیَم 19 ان لفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اخت ہارون کے معنی " ہارون کے خاندان کی لڑکی " لیے جائیں، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرز بیان ہے۔ مثلاً قبیلہ مضر کے آدمی کو یا اخامصہ (اے مضر کے بھائی) اور قبیلہ ہمدانی کے آدمی کو یا اخاھمدان (اے ہمدان کے بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ پہلے کے حق میں دلیل ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی ﷺ سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اس معنی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیئے ہوئے آئی تھی، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کردیا تھا وہ یہ ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابل لحاظ نہیں ہو سکتی، لیکن مسلم، نسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً " ہارون کی بہن " ہی ہیں۔ مغیرہ ؓ بن شعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں نے حضرت مغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے۔ حضرت مغیرہ ان کے اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آ کر نبی ﷺ کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا " تم نے یہ جواب کیوں نہ دے دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیا اور صلحاء کے نام پر رکھتے تھے ؟ " حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جاسکتا تھا۔
Top