Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 39
كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا١ؕ اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ۠   ۧ
كَاَنْ : گویا لَّمْ يَغْنَوْا : نہ بسے تھے فِيْهَا : یہاں اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک ثَمُوْدَ : ثمود كَفَرُوْا : منکر ہوئے رَبَّهُمْ : اپنے رب کے اَلَا : یاد رکھو بُعْدًا : پھٹکار لِّثَمُوْدَ : ثمود پر
کیا تمہارے لیے ہمارے اوپر قسمیں ہیں قیامت تک باقی رہنے والی کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہے جو تم فیصلہ کرو گے !
فرمایا کہ کیا خدا نے تم سے قیامت تک کے لیے عہد کر رکھا ہے کہ جو تم چاہو گے تمہارے ساتھ وہی معاملہ ہو گا؟ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کسی عہد کی نشان دہی تم نہیں کر سکتے تو آخر وہ کیا چیز ہے جس کے بل پر تمہیں ناز ہے کہ نہ دنیا میں تمہیں کوئی ہلا سکتا اور نہ آخرت میں تم پر کوئی مسؤلیت ہے! یہ امر یہاں واضح رہے کہ قوموں سے اللہ تعالیٰ نے آخرت کی فوز و فلاح کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ ایمان اور عمل صالح اور اس عہد کی پابندی کے ساتھ مشروط ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے واسطہ سے لوگوں سے لیے ہیں۔ کسی قوم سے بھی اس نے کوئی ایسا عہد نہیں کیا ہے جو بالکل غیر مشروط طور پر قیامت تک کے لیے ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کی دونوں شاخوں سے اللہ تعالیٰ نے امامت و پیشوائی کا جو عہد کیا وہ تورات میں بھی مذکور ہوا ہے اور قرآن میں بھی۔ اس میں بالکل واضح طور پر تشریح ہے کہ یہ عہد ان لوگوں سے متعلق نہیں ہے جو خدا کے عہد کو توڑ کر اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بن جائیں گے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قوموں کی امامت پر سرفراز فرمانے کی بشارت دی کہ ’اِنِّیْ جَائِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا‘ (البقرہ ۲: ۱۲۴) (میں تم کو لوگوں کا ایک عظیم امام بنانے والا ہوں) تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال کیا کہ ’وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘ (کیا یہ وعدہ میری ذریت سے متعلق بھی ہے؟) اللہ تعالیٰ نے اس کا فوراً جواب دیا کہ ’لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ‘ (میرا یہ عہد ان لوگوں کو شامل نہیں ہے جو تمہاری ذریت میں سے میرے عہد کو توڑ کر اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بن جائیں گے) اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ظاہر ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل سے متعلق ہے اسی طرح بنی اسماعیل سے بھی متعلق ہے۔ لیکن قریش نے بھی اولاد ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) ہونے کے زعم میں عند اللہ ہر مسؤلیت سے اپنے کو بری سمجھ لیا اور بنی اسرائیل نے بھی ’نَحْنُ أَبْنآؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ‘ (المائدہ ۵: ۱۸) کے غرور میں مبتلا ہو کر یہ گمان کر لیا کہ وہ آخرت کی ہر مسؤلیت سے بالاتر ہیں۔
Top