Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 217
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ١ؕ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌ١ؕ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۗ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ١ؕ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا١ؕ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے سوال کرتے ہیں عَنِ : سے الشَّهْرِ الْحَرَامِ : مہینہ حرمت والا قِتَالٍ : جنگ فِيْهِ : اس میں قُلْ : آپ کہ دیں قِتَالٌ : جنگ فِيْهِ : اس میں كَبِيْرٌ : بڑا وَصَدٌّ : اور روکنا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَكُفْرٌ : اور نہ ماننا بِهٖ : اس کا وَ : اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَ اِخْرَاجُ : اور نکال دینا اَھْلِهٖ : اس کے لوگ مِنْهُ : اس سے اَكْبَرُ : بہت بڑا عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ وَالْفِتْنَةُ : اور فتنہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنَ : سے الْقَتْلِ : قتل وَلَا يَزَالُوْنَ : اور وہ ہمیشہ رہیں گے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے حَتّٰى : یہانتک کہ يَرُدُّوْكُمْ : تمہیں پھیر دیں عَنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین اِنِ : اگر اسْتَطَاعُوْا : وہ کرسکیں وَمَنْ : اور جو يَّرْتَدِدْ : پھر جائے مِنْكُمْ : تم میں سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَيَمُتْ : پھر مرجائے وَھُوَ : اور وہ كَافِرٌ : کافر فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَ : اور الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(اے محمد ﷺ لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا) اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے اور فتنہ انگیزی خونزیری سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر (کر کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے
آیت نمبر 217 تا 219 ترجمہ : نبی ﷺ نے اپنے سرایا (جنگی یونٹ) میں سے پہلا سریہ (یونٹ) روانہ فرمایا، اور اس کا امیر عبد اللہ بن جحش کو بنایا، چناچہ ان لوگوں نے مشرکین سے قتال کیا اور جمادی الاخری کے آخری دن ابن حضرمی کو قتل کردیا، اور ان کو جمادی الاخری کا رجب کے پہلے سن سے اشتباہ ہوگیا، تو کفار نے ماہ رجب کو حلال سمجھنے پر عار دلائی تو، یَسْئلُونَکَ نازل ہوئی، لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام (یعنی) ماہ محترم میں لڑنا کیسا ہے ؟ قِتَال فیہِ (عن الشھر الحرام) سے بدل الاشتمال ہے آپ ان کو بتادو کہ ان میں قتال کرنا بہت برا ہے (یعنی) گناہ کے اعتبار سے بڑا جرم ہے (قتال فیہ) مبتداء خبر ہیں، اور لوگوں کو اللہ کے راستہ یعنی ان کے دین سے روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام یعنی مکہ سے روکنا اور اہل حرم کو حرم سے نکالنا، اور وہ نبی ﷺ اور مومنین ہیں، اللہ کے نزدیک بڑا گناہ ہے اس میں قتال کرنے سے، صَدٌّ، مبتداء ہے اور اکبر عند اللہ اس کی خبر ہے، اور فتنہ (یعنی) تمہارا شرک کرنا تم کو اس میں قتل کرنے سے شدید تر ہے اور اے مومنو ! یہ کافر تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین سے کفر کی طرف پھیر دیں اگر ان کا بس چلے، اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھرے گا، اور وہ کفر ہی کی حالت میں رہے گا تو اس کے اعمال صالحہ دنیا و آخرت میں ضائع ہوجائیں گے تو نہ تو ان اعمال کا شمار ہوگا اور نہ ان پر اجر ملے گا اور کفر ہی پر مرنے کی قید کا یہ فائدہ ہے کہ اگر یہ شخص اسلام کی طرف واپس آگیا تو اس کا عمل ضائع نہیں ہوا، لہٰذا اس پر ثواب عطا کیا جائیگا اور وہ اس عمل کا اعادہ نہ کرے گا جیسا کہ حج مثلاً امام شافعی (رح) تعالیٰ کا یہی مذہب ہے اور ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے اور جب اہل سریہ کو یہ گمان ہوا کہ وہ اگرچہ گناہ سے محفوظ رہے لیکن ان کو (جہاد کا) اجر تو نہیں ملا تو (اِنَّ الَّذِیْنَ ) نازل ہوئی بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی یعنی اپنے وطنوں کو چھوڑا اور دین کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا یہی ہیں وہ لوگ جو اللہ کی رحمت ثواب کے (بجا طور پر) امیدوار ہیں، اور اللہ تعالیٰ مومنین کو معاف کرنے والا ہے اور ان پر رحم کرنے والا ہے آپ سے شراب اور جوئے یعنی ان کے حکم کے بارے میں پوچھتے ہیں ان کو بتادو ان دونوں کے کرنے میں گناہ عظیم ہے اور ایک قراءت میں (کبیرٌ) ثاء مثلثہ کے ساتھ (یعنی) کثیرٌ ہے اس لئے کہ ان دونوں کی وجہ سے عداوت اور گالی گلوچ اور فحش گوئی کی نوبت آتی ہے اور (ان میں) لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مثلاً لذت مسرت شراب میں اور بلا مشقت مال کا حصول جوئے میں، اور ان کا گناہ یعنی ان مفاسد کا گناہ جو (ان دونوں) سے پیدا ہوتے ہیں عظیم تر ہے ان کے نفع سے، اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ (شراب) پیتے رہے اور کچھ (پینے سے) باز آگئے، حتیٰ کہ سورة مائدہ کی آیت نے ان دونوں کو حرام کردیا اور لوگ آپ سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ (راہ خدا میں) کیا خرچ کریں ؟ یعنی اس کی مقدار کیا ہو ؟ آپ بتادو کہ جو تمہاری حاجت سے فاضل ہو اس کو خرچ کرو اور جس کی تم کو حاجت ہو اس کو خرچ نہ کرو (کہ اس کو خرچ کرکے) خود کا ضائع کردو اور ایک قراءت میں (العَفوُ ) رفع کے ساتھ ہے، ھُوَ کی تقدیر کے ساتھ اس طرح جس طرح کہ تمہارے لئے مذکورہ احکام بیان کئے اللہ تمہارے لئے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم دنیا و آخرت کے معاملہ میں غور کرو پس اسی کو اختیار کرو جو دنیا و آخرت میں تمہارے لئے بہتر ہو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ابن الحضرمی، ان کا اصل نام عمر بن عبد اللہ بن عباد حضرمی ہے حضرموت کی طرف منسوب ہے۔ قولہ : سَرَایَا، سَریَّۃٌ کی جمع ہے لشکر کا ایک حصہ، اصطلاح میں سریہ اس لشکر کو کہتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے بذات خود شرکت نہ فرمائی ہو اور غزوہ اس لشکر کو کہتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے بذات خود شرکت فرمائی ہو، غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد ستر ہے، سریہ پانچ افراد سے لے کر چار سو تک کی تعداد کو کہتے ہیں اس سے زیادہ کو جند (لشکر) کہا جاتا ہے، مفسر علام نے اس سریہ کو پہلا سریہ کہا ہے حالانکہ مواہب میں ہے کہ اس سے پہلے تین سرایا اور چار غزوے ہوچکے تھے پہلا سریہ ہجرت کے ساتویں مہینہ رمضان میں پیش آیا جس کا امیر آپ ﷺ نے اپنے چچا حمزہ ؓ کو بنایا تھا اس سریہ کے افراد کی تعداد تیس تھی اس کے بعد دوسرا سریہ، سریہ عبیدۃ بن الحارث ہے یہ شوال کے مہینہ میں پیش آیا، ہجرت کے آٹھویں مہینہ میں اس میں ساٹھ افراد شامل تھے اس کے بعد تیسرا سریہ، سریہ سعد ابن ابی وقاص ہے یہ حجاز کی ایک وادی خرار میں پیش آیا، یہ ذی القعدہ میں ہجرت کے نویں مہینہ میں پیش آیا یہ سریہ بیس افراد پر مشتمل تھا، اس کے بعد چار غزوات پیش آئے اول غزوہ و دان دوسرا بواط تیسرا غزوہ ذوالعُشیرہ پیش آیا اور چوتھا غزوہ بدر الاولیٰ پیش آیا جس کے بعد سریہ عبد اللہ بن جحش رجب کے آخر میں ہجرت کے ستر ہویں مہینہ میں پیش آیا، لہٰذا سریہ عبد اللہ بن جحش کو اول سریہ کہنے میں نظر ہے۔ تطبیق : تطبیق کی جو صورت ہوسکتی ہے وہ یہ کہ جس سریہ میں کسی کا قتل ہوا ہو اور مال غنیمت ہاتھ لگا ہو وہ یہی سریہ ہے اس اعتبار سے اس کو پہلا سریہ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس سے پہلے سرایا میں نہ کوئی قتل ہوا اور نہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔ (جمل، صاوی) قولہ : اِلتبسَ عَلَیْھِمْ بِرَجَبَ ، جمادی الاخری کی آخری تاریخ سمجھ کر مسلمانوں نے حضرمی کے قافلہ پر شب خون مارا تھا، دوسرے روز جب چاند دیکھا تو اس میں اشتباہ ہوا بعض کہنے لگے یہ کل کا چاند ہے بعض نے کہا آج ہی کا ہے اگر کل کا ہو تو قتال رجب کی پہلی تاریخ میں واقع ہوا جو کہ اشہر حرم میں سے ہے اس وجہ سے مسلمان بھی شش و پنج میں پڑگئے اور مشرکین مکہ نے بھی اس بارے میں مسلمانوں پر طعنہ زنی شروع کردی کہ تم نے تو اشہر حرام کو بھی حلال کرلیا حتی کہ مشرکین مکہ کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مسلمانوں کی شکایت کی اور یہی مسئلہ دریافت کیا، تب یہ آیت نازل ہوئی ” یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ الخ “۔ قولہ : المحرم۔ سوال : الحرام کی تفسیر المحرم سے کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ جواب : مقصد ایک سوال مقدر کا جواب دینا ہے۔ سوال : یہ ہے کہ : الشھر الحرام میں مصدر کا حمل ذات پر لازم آرہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جواب : یہ ہے کہ : الحرام مصدر المحرم مفعول کے معنی میں ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں، یا یہ حمل مبالغۃ ہے۔ قولہ : قتال فیہ یہ الشھر الحرام سے بدل الاشتمال ہے اس لئے کہ الشھر الحرام اداء مقصود کے لئے ناکافی ہے۔ سوال : قتال فیہ نکرہ ہے اور الشھر الحرام، معرفہ، اور نکرہ کا معرفہ سے بدل واقع ہونا درست نہیں ہے۔ جواب : نکرہ موصوفہ کا بدل واقع ہونا درست ہے تقدیر عبارت یہ ہے قِتَال کائن فیہ۔ قولہ : مبتداء و خبرٌ، یعنی قتال فیہ کبیرٌ مبتداء خبر ہیں۔ سوال : قتال نکرہ ہے اور نکرہ کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔ جواب : نکرہ اگر موصوفی ہو تو مبتداء واقع ہونا درست ہے یہاں، فیہِ ، قتال کی صفت ہے تقدیر عبارت یہ ہے قتال کائنٍ فیہ کبیر (فلا اعتراض) بعض حضرات نے قتالٌ فیہ کبیرٌ، جملہ موصوفہ قرار دے کر قول کا مقولہ قرار دیا ہے مگر یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ مقولہ کا جملہ ہونا ضروری ہے اور قتالٌ فیہ کبیرٌ جملہ تامہ نہیں ہے اس کا جملہ موصوفہ واقع ہونا درست نہیں ہے۔ قولہ : اَکبرُ ، اعظم۔ سوال : اکبَرُ متعدد کی خبر واقع ہے حالانکہ اکبر مفرد ہے۔ جواب : اَفْعَلُ کا وزن واحد تثنیہ جمع مذکر و مؤنث سب میں استعمال ہوتا ہے۔ قولہ : وَالْفِتْنَۃُ اَکْبرُ مِنَ الْقَتْلِ ، اَلْفِتنَۃُ اکبرُ ، مبتداء خبر ہیں حالانکہ ان میں مطابقت نہیں ہے اس کے دو جواب ہیں ایک کی طرف تو مفسر علام نے اَلشِرک کہہ کر اشارہ کیا ہے یعنی فتنہ سے مراد شرک ہے، لہٰذا مطابقت موجود ہے دوسرا جواب اَفْعَلُ کے وزن میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہیں۔ قولہ : فلا اعتدادَبِھَا، ولا ثواب عَلَیْھَا، فلا اِعْتَدادَ ، کا تعلق فی الدنیا سے ہے، یعنی وہ نہ میراث کا مستحق ہوگا اور مال غنیمت وغیرہ میں حصوں کا، اور ولا ثواب کا تعلق آخرت سے ہے یعنی ایسے شخص کو آخرت میں کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔ قولہ : وَعَلَیْہِ الشافعی : ان دونوں مسئلوں میں امام شافعی (رح) تعالیٰ سے امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کا اختلاف ہے یعنی اگر مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوگیا تو امام صاحب کے نزدیک ارتداد سے پہلے کے اعمال کا اب کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔ نتیجہ اختلاف : ایک شخص نے نماز پڑھی اور وہ مرتد ہوگیا اور ابھی وقت باقی ہے کہ پھر اسلام قبول کرلیا تو امام صاحب کے نزدیک اس پر دوبارہ نماز پڑھنا لازم ہے بخلاف امام شافعی (رح) تعالیٰ کے۔ قولہ : فی تعاطیْھمَا، اس میں اشارہ ہے کہ خمر اور میسر کی ذات میں گناہ نہیں ہے بلکہ بروئے کار لانے اور استعمال کرنے میں گناہ ہے قولہ : ای ما ینشَأُ عنھما مِن المفاسِد، اس میں اشارہ ہے کہ اِثْمھُما، میں اضافت، اضافت مصدر الی السبب کے قبیل سے ہے نہ کہ اضافت مصدر الی الفاعل کے قبیل سے جو کہ غالب ہے۔ قولہ : اَیْ مَا قدرُہ، اس اضافہ کا مقصد تکرار کے اعتراض کو دفع کرنا ہے۔ دفع : دفع کا خلاصہ یہ ہے کہ سابق میں مذکور یَسْئلُوْنَک مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ، میں ذات نفق سے سوال تھا اور یہاں مقدار منفق سے سوال ہے۔ (فلا تکرار) ۔ قولہ : انفقوا اس میں اشارہ ہے کہ العَفْوَ ، فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے۔ سوال : ھُوْ کو مبتداء محذوف کی خبر قرار دینے میں کیا نقصان ہے ای ھو العَفْوُ ۔ جواب : اس صورت میں سوال و جواب میں مطابقت نہیں رہتی اس لئے کہ سوال جملہ فعلیہ ہے اور جواب جملہ اسمیہ ہوجاتا اب دونوں جملے فعلیہ ہوگئے۔ قولہ : کَمَا بُیَّنَ لکم، اس میں اشارہ ہے کہ کذلک میں کاف فعل مؤخر یُبَیّنُ کے مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے اسی تبیینًا مثل ھذا التبیین۔ تفسیر و تشریح یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ ، اَرْسَلَ النبی ﷺ اَوَّلَ سَرَایَاہُ الخ اس آیت کا تعلق ایک واقعہ سے ہے۔ واقعہ : رجب 2 ھ میں نبی ﷺ نے آٹھ افراد پر مشتمل ایک دستہ نخلہ کی جانب بھیجا تھا (جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرما دی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے، آپ ﷺ نے ان کو جنگ کی اجازت نہیں دی تھی، لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ ملا اور اس پر انہوں نے حملہ کرکے ایک شخص جس کا نام عمر بن عبد اللہ حضرمی تھا قتل کردیا ان میں سے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا باقی دو آدمیوں کو مع مال و اسباب کے گرفتار کرکے مدینہ لے آئے یہ کاروائی اس وقت ہوئی جب جمادی الثانیہ ختم ہو رہا تھا اور رجب شروع ہونے والا تھا یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ جمادی الثانیہ کی آخری تاریخ میں ہوا یا رجب کا مہینہ شروع ہوچکا ہے (جو کہ اشہر حرام میں سے ہے) لیکن قریش نے اور ان سے در پردہ ملے ہوئے یہودیوں اور منافقوں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دئیے، اسی سلسلہ میں مشرکوں کا ایک وفد بھی آپ ﷺ سے ملا اور ماہ محرم میں قتال کے بارے میں فتوی معلوم کیا، اس آیت میں ان کے اعتراضات کے دو جواب اور ماہ محترم میں قتال کا حکم بیان کیا گیا ہے، ایک جواب تسلیمی ہے اور ایک الزامی۔ تسلیمی جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ اشہرم حرام میں قتال کرنا نہایت برا اور گناہ کبیر ہے مگر مسلمانوں سے اس واقعہ کا وقوع قصداً نہیں ہوا بلکہ غلطی اور غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے جو گناہ نہیں ہے مسلمان جمادی الاخری کی آخری تاریخ سمجھے ہوئے تھے مگر اتفاقاً وہ رجب کی پہلی تاریخ نکلی۔ الزامی جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ ماہ حرام میں لڑنا بڑی بری حرکت ہے مگر اس پر اعتراض کرنا ان لوگوں کو زیب نہیں دیتا جنہوں نے 13 برس تک مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لئے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لاے تھے، ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ اپنا وطن عزیز چھوڑ کر جلاوطن ہونے پر مجبور ہوگئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اپنے ان بھائیوں کیلئے مسجد حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کردیا، حالانکہ مسجد حرام کسی کی مملوکہ جائدار نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اس کی زیارت سے روکا گیا ہو، اب جن ظالموں کا اعمال نامہ ان کرتوتوں سے سیاہ ہے ان کا کیا منہ ہے کہ معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر شور مچائیں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا وہ اول تو نادانستہ طور پر ہوا، دوسرے یہ کہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند مسلمانوں سے غیر ذمہ دار انہ فعل کا ارتکاب ہوگیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یار رکھنے کے قابل ہے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مال غنیمت لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ خمس لینے سے انکار فرما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کو یہ لوٹ ناجائز ہے، اپنے آدمیوں نے بھی ان کے اس فعل پر سخت ملامت کی تھی اور مدینہ میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے انہیں اس پر دار دی ہو۔ مسئلہ : جہاد فی سبیل اللہ، عام حالات میں فرض کفایہ ہے اگر ایک جماعت اس فرض کو انجام دے رہی ہے تو دوسروں کو اجازت ہے کہ وہ دیگر کاموں میں دینی خدمت انجام دیں، البتہ اگر کسی وقت امام المسلمین ضروری سمجھ کر اعلان عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکت جہاد کی دعوت دے تو پھر سب پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے قرآن کریم نے سورة توبہ میں ارشاد فرمایا : ” یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ “ اے مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل ہوجاتے ہو۔ اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے، اسی طرح اگر خدانخوستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی مملک پر حملہ آور ہوں اور مدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر نہ ہو تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہوجاتا ہے اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو اس کے پاس والے مسلمانوں پر یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے، قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہاء و محدثین نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔ مسئلہ : اسی لئے جب تک جہاد فرض کفایہ ہو تو اولاد کو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں۔ مسئلہ : جس شخص کے ذمہ قرض ہو اس کے لئے جب تک قرض ادا نہ کر دے فرض کفایہ میں حصہ لینا جائز نہیں، البتہ اگر نفیر عام کی وجہ سے جہاد فرض عین ہوجائے تو پھر کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اشہر حرم میں قتال کا حکم : ابتداءً قتال ان مہینوں میں ہمیشہ کے لئے حرام ہے مگر جب کفار ان مہینوں میں حملہ آور ہوں تو مدافعانہ قتال کی مسلمانوں کو بھی اجازت ہے، جیسا کہ امام جصاص نے بروایت حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی شہر حرام میں اس وقت تک قتال نہ کرتے تھے جب تک کہ ابتداء کفار کی طرف سے نہ ہو۔ مسئلہ : دنیا میں اعمال کا ضائع ہونا یہ ہے کہ اس کی بیوی نکاح سے خارج ہوجاتی ہے، اگر اس کا کوئی مورث مسلمان انتقال کرے تو اس شخص کو میراث کا حصہ نہیں ملتا، حالت اسلام میں جو کچھ نماز روزہ کیا تھا وہ سب کالعدم ہوجاتا ہے، مرتد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی، مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہیں کیا جاتا۔ اور آخرت میں ضائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عبادت کا ثواب نہیں ملتا، ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں داخل ہوگا۔ مسئلہ : کافر اصلی، حالت کفر میں اگر کوئی نیکی عمل کرے تو اس کے عمل کا ثواب معلق رہتا ہے، اگر کبھی اسلام لے آیا تو سب پر ثواب ملتا ہے اور اگر کفر پر انتقال کر گیا تو تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں آخرت میں اس کو کوئی اجر نہیں ملتا۔ مسئلہ : مرتد کی حالت کافر اصلی کی حالت سے بدتر ہے، کافر اصلی سے جزیہ قبول ہوسکتا ہے مگر مرتد سے جزیہ قبول نہیں ہوتا، مرتد اگر اسلام نہ لائے تو اگر مرد ہے تو قتل کردیا جاتا ہے اور اگر عورت ہے تو حبس دوام کی سزا ہے، سرکاری اہانت کرنے والا اسی سزا کے لائق ہے۔
Top