Dure-Mansoor - Al-Baqara : 217
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ١ؕ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌ١ؕ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۗ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ١ؕ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا١ؕ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے سوال کرتے ہیں عَنِ : سے الشَّهْرِ الْحَرَامِ : مہینہ حرمت والا قِتَالٍ : جنگ فِيْهِ : اس میں قُلْ : آپ کہ دیں قِتَالٌ : جنگ فِيْهِ : اس میں كَبِيْرٌ : بڑا وَصَدٌّ : اور روکنا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَكُفْرٌ : اور نہ ماننا بِهٖ : اس کا وَ : اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَ اِخْرَاجُ : اور نکال دینا اَھْلِهٖ : اس کے لوگ مِنْهُ : اس سے اَكْبَرُ : بہت بڑا عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ وَالْفِتْنَةُ : اور فتنہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنَ : سے الْقَتْلِ : قتل وَلَا يَزَالُوْنَ : اور وہ ہمیشہ رہیں گے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے حَتّٰى : یہانتک کہ يَرُدُّوْكُمْ : تمہیں پھیر دیں عَنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین اِنِ : اگر اسْتَطَاعُوْا : وہ کرسکیں وَمَنْ : اور جو يَّرْتَدِدْ : پھر جائے مِنْكُمْ : تم میں سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَيَمُتْ : پھر مرجائے وَھُوَ : اور وہ كَافِرٌ : کافر فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَ : اور الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
آپ سے شہر حرام کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ اس میں جنگ کرنا بڑا جرم ہے، اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام کے ساتھ کفر کرنا اور اہل مسجد حرام کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ پردازی قتل کرنے سے بڑا کر جرم ہے اور کافر لوگ برابر تم سے جنگ کرتے رہیں گے۔ یہاں تکہ کہ تمہیں پھیر دیں گے تمہارے دین سے اگر ان سے ہو سکے اور جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے پھر حالت کفر میں مرجائے، سو دنیا و آخرت میں ایسے لوگوں کے اعمال اکارت ہوجائیں گے اور یہ لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہیمشہ رہیں گے
(1) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، بیہقی نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ جندب بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ان کے اوپر ابو عبیدہ بن جراح یا عبیدہ بن حارث ؓ کو (امیر بنا کر) بھیجا۔ جب وہ جانے لگے تو غلبہ عشق سے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ کر رونے لگے اور بیٹھ گئے۔ آپ نے پھر ان کی جگہ عبد اللہ بن جحش کو بھیجا۔ اور اس کو ایک خط لکھ کردیا اور حکم فرمایا کہ اس کو نہ پڑھنا یہاں تک کہ فلاں مقام پر پہنچ جاؤ۔ اور (یہ بھی) فرمایا کہ اپنے اصحاب میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا۔ جب انہوں نے خط کو پڑھا تو لفظ آیت ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھا۔ اور کہا ہم نے سنا اور اطاعت کی اللہ اور اس کے رسول کی پھر اپنے ساتھیوں کو خبر دی اور ان پر خط پڑھا (ان میں سے) دو آدمی واپس لوٹ گئے اور باقی ان کے ساتھ چلتے رہے۔ اور لشکر ابن حضرمی سے ملا اور اس کو قتل کر ڈالا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ دن یکم رجب ہے یا جماد الثانی کی آخری تاریخ ہے مشرکوں نے مسلمانوں سے کہا تم نے شہر حرام میں قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ (الآیہ) ان کے بعض لوگوں نے کہا اگر انہیں گناہ نہیں ہوگا تو ان کے لئے اس جہاد کا اجر بھی نہیں ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” ان الذین امنوا والذین ھاجروا وجھدوا فی سبیل اللہ، اولئک یرجعون رحمت اللہ، واللہ غفور رحیم (218) “ (2) البزار نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عبید اللہ بن فلاں کو ایک سریہ میں بھیجا وہ لوگ بطن مخلہ میں عمرو بن الحضرمی سے ملے اور آگے حدیث کو (اسی طرح) ذکر فرمایا۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حضرت عباس ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو روکا اور شہرحرام میں ان کو مسجد حرام سے واپس لوٹا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اگلے سال شہر حرام میں اپنے نبی ﷺ پر (مکہ) فتح فرما دیا تو مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ پر شہر حرام میں قتال کرنے پر عیب لگایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” قل قتال فیہ کبیر، وصد عن سبیل اللہ وکفر بہ والمسجد الحرام، واخراج اہلہ منہ اکبر عند اللہ “ محمد ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا وہ لوگ عمر وبن الحضرمی سے ملے جو طائف سے آرہے تھے۔ جمادی الآخری کی آخری رات میں یا رجب کی پہلی رات میں اصحاب محمد ؓ نے گمان کیا کہ یہ جمادی (الثانی) کی رات ہے اور وہ رجب کی پہلی رات تھی۔ انہیں کوئی دھیان نہ رہا اور ان میں سے ایک آدمی نے اس کو (یعنی عمرو ابن حضرمی کو) قتل کردیا۔ اور اس کے پاس جو کچھ تھا سب لوٹ لیا مشرکین نے اس بات کی عار دلانے کے لئے آدمی بھیجے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ، قل قتال فیہ کبیر “ اور اس کے علاوہ اس سے بڑے (گناہ) ہیں لفظ آیت ” وصد عن سبیل اللہ وکفربہ والمسجد الحرام “ اور مسجد حرام کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا بڑا (گناہ) ہے جو اصحاب محمد ؓ سے سرزد ہوا اور شرک اس سے زیادہ سخت گناہ ہے۔ (4) ابن اسحاق کلبی، اسد ابو صالح نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ عمرو بن الحضرمی کے واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ (5) ابن منذر اور ابن عساکر نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے صفوان بن بیضاء ؓ کو عبد اللہ بن جحش ؓ کے لشکر میں بھیجا ابواء سے پہلے انہوں نے مال غنیمت کو پایا اور ان کے بارے میں یہ آیت لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ نازل ہوئی۔ اشہر حرام میں قتال کا حکم (6) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا وہ سات آدمی تھے اور ان پر عبد اللہ بن جحش اسدی (امیر) تھے اور ان میں سے عمار بن یاسر۔ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ، سعد بن ابی وقاص، عتبہ بن غزوان سلمی (جو) بنو نوفل کے حلیف (یعنی اتحادی) تھے یا سہیل بن بیضاء عامر بن فہیرہ، واقد بن عبد اللہ یار بوعی جو عمر بن الخطاب کے حلیف تھے اور آپ ﷺ نے ہاتھ ابن جحش کو ایک خط دیا اور ان کو حکم فرمایا کہ اس خط کو نہ پڑھیں۔ جب تک ملل کے بطن میں نہ اتریں جب وہ ملل کے بطن میں اترے تو انہوں نے خط کو کھولا ملل (ایک جگہ کا نام) اس میں یہ تھا کہ تم چلتے جاؤ۔ یہاں تک کہ بطن نخلہ میں اترو اور اپنے ساتھیوں سے کہو جو شخص فوت کا ارادہ رکھتا ہو اس کے چاہئے کہ وہ ساتھ چلے اور چاہئے کہ وصیت کر دے۔ بلاشبہ میں بھی وصیت کرنے والا اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کو نافذ کرنے والا ہوں۔ وہ چل پڑے اور ان سے سعد بن ابی وقاص عتبہ بن غزوان پیچھے رہ گئے ان کی سواریاں گم ہوگئیں ابن جحش (رح) بطن نخلہ تک چلے۔ اچانک وہاں حکم بن کیسان، عبد اللہ بن مغیرہ بن عثمان اور عمرو حضرمی کو پایا انہوں نے آپس میں قتال کیا اور حکم بن کیسان، عبد اللہ بن المغیرہ کو قیدی بنا لیا۔ مغیرہ بھاگ گیا اور انہوں نے عمرو حضرمی کو قتل کردیا یون کہ اس نے واقد بن عبد اللہ کو قتل کیا تھا۔ یہ پہلی غنیمت تھی جو اصحاب محمد ﷺ کو غنیمت ملی۔ جب وہ مدینہ منورہ کی طرف قیدیوں اور غنیمت کے اموال لے کر آئے مشرکوں نے کہا کہ محمد ﷺ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور پہلے شخص ہیں جس نے شہر حرام کو حلال کرلیا۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ، قل قتال فیہ کبیر “ نہیں حلال ہے جو کچھ تم نے کیا اے مشرکین کی جماعت (یہ کام) بہت بڑا (گناہ ہے) شہر حرام میں قتل کرنے سے۔ جب تم نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اور محمد ﷺ کو اس سے روکا۔ ” والفتنۃ “ اور وہ شرک بڑا گناہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہر حرام میں قتل کرنے سے یہی قول ہے (اللہ تعالیٰ کا) لفظ آیت ’ وصد عن سبیل اللہ وکفربہ “ (7) الفریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بنو تمیم میں سے ایک آدمی کو نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر میں بھیجا۔ ابن حضرمی (وہاں سے) گزرا جو طائف سے شراب اٹھا کر مکہ مکرمہ کی طرف لے جا رہا تھا۔ اس آدمی نے اس کو تیر مال کر قتل کردیا۔ قریش اور محمد ﷺ کے درمیان ایک معاہدہ تھا اور (قریش کے آدمی کو جمادی الآخر کے آخری دن یا رجب کے پہلے دن میں قتل کیا تھا لیکن قریش نے کہا شہر حرام میں قتل کیا گیا حالانکہ ہمارے ساتھ معاہدہ بھی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” قل قتال فیہ کبیر “ (الآیہ) فرماتے ہیں کہ اللہ کا انکار کرنا اور بتوں کی عبادت کرنا یہ بڑا (گناہ) ہے ابن حضرمی کے قتل سے۔ (8) عبد بن حمید اور ابن جریر نے ابو مالک الغفاری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن جحش ؓ کو بھیجا۔ وہ مشرکین کے کچھ لوگوں سے بطن نخلہ میں ملے اور مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ آج جمادی الآخری کا آخری دن ہے 58 اور وہ رجب کا پہلا دین تھا۔ مسلمانوں نے ابن حضرمی کو قتل کردیا مشرکوں نے کہا کیا تم یہ نہیں کہتے تھے کہ شہر حرام اور بلاد حرام میں جنگ حرام ہے۔ اور تم نے شہر حرام میں قتل کردیا تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ لفظ آیت ” یسئلونک عند الشھر الحرام قتال فیہ “ الی قولہ ” اکبر عند اللہ “ یعنی جس کا تم نے ارتکاب کیا ہے وہ حضرمی کے قتل سے بڑا جرم ہے۔ ” والفتنۃ “ جس پر تم جمے ہوئے ہو۔ یعنی شرک پر لفظ آیت ” اکبر من القتل “ (یہ قتل سے بہت بڑا گناہ ہے) (9) بیہقی نے دلائل میں زہری عروہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں سے ایک لشکر بھیجا اور ان پر عبد اللہ بن جحش اسدی ؓ کو امیر بنایا۔ یہ لوگ چلے یہاں تک کہ (وادی) نخلہ میں اترے۔ وہاں انہوں نے عمرو بن حضرمی کو پایا جو شہر حرام کے آخری دن میں قریش کے ایک تجارتی قافلہ میں تھے ابھی شہر حرام کے شروع ہونے میں ایک دن باقی تھا۔ مسلمان ان سے لڑ پڑے ان سے ایک کہنے والے نے کہا یہ دشمنوں کی جماعت ہے اور غنیمت کا مال ہے کہ تم کو اللہ کی طرف سے عطا کیا گیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ دن شہر حرام میں سے ہے یا نہیں ؟ اور ایک کہنے والے نے کہا آج کے دن کو ہم شہر حرام سے شمار کرتے ہیں ہم کسی لالچ کے لئے اس کا حلال نہیں کرتے اور آخر ان لوگوں کا کام غالب ہوا جنہوں نے دنیا کے سامان کا ارادہ کیا انہوں نے ابن حضرمی کو باندھ دیا اور اس کو قتل کر رکے اس کے قافلہ کو مال غنیمت بنا لیا۔ یہ بات جب کفار کو پہنچی اور ابن حضرمی پہلے قتل ہونے والے تھے جو مسلمان اور مشرکین کے درمیان قتل ہوئے۔ کفار قریش کا ایک وفد سوار ہو کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ آیا اور مکہنے لگے کیا آپ نے شہر حرام میں قتال کو حلال کرلیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری۔ لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر حرام قتال فیہ، قل قتال فیہ کبیر وصد عن سبیل اللہ “ آخر تک اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا کہ شہر حرام میں قتال کرنا حرام ہے جیسے اور بندوں کو اللہ کے راستے سے روکنا ان کو عذاب دینا قید کرنا۔ تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ اور ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنا حج وعمرہ میں اور اس میں نماز پڑھنے میں۔ اور مسجد حرام کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا جو مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنا حج عمرہ میں اور اس میں نماز پڑھنے میں۔ اور مسجد حرام کے رہنے والوں سے نکالنا جو مسلمان وہاں رہنے والے تھے۔ اور ان کو دین کے بارے میں فتنہ میں ڈالنا یہ سب مسلمانوں کے جرم سے بڑے گناہ ہیں۔ اور ہم کو یہ بات بھی پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابن حضرمی (کے قتل ہوجانے پر) دیت فرمائی۔ اور شہر حرام کو اسی طرح حرام قرار دیا جیسے تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری۔ لفظ آیت ” براءۃ من اللہ ورسولہ “ (سورۃ توبہ آیت 1) (10) عبد الرزاق، ابو داؤد نے الناسخ میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے زہری اور مقسم (رح) (دونوں حضرات) سے روایت کیا کہ واقد بن عبد اللہ ؓ عمرو بن حضرمی سے رجب کی پہلی رات میں ملے اور انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ آج جمادی الآخری (کی رات) ہے اس کو قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری۔ لفظ آیت ” یسئلونک رن الشھر الحرام قتال فیہ، قل قتال فیہ کبیر “ (الآیہ) زہری ؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے شھر حرام میں قتال کو حرام فرما دیا تھا یہ بات ہم کو پہنچی اور بعد میں حلال فرما دیا تھا۔ (11) ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے یزین بن رومان کے طریق سے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن جحش ؓ کو نخلہ کی طرف بھیجا اور ان سے فرمایا وہیں رہنا یہاں تک کہ تم قریش کی خبریں ہمارے پاس لے آؤ اور ان کو قتال کا حکم نہ فرمایا کیونکہ یہ (واقعہ) شھر حرام میں تھا۔ اور ان کی روانگی کا علم ہونے سے پہلے ان کو خط لکھا (جس میں) فرمایا تو اور تیرے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا جب وہ دو دن چل چکے تو انہوں نے خط کو کھولا تو اس میں یہ لکھا تھا تم چلتے رہو یہاں تک کہ (وادی) نخلہ میں اتر جاؤ ان قریش کی خبریں ہمارے پاس پہنچانا جو تم کو ان کی طرف سے میسر آئیں۔ خط پڑھنے کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہم نے حکم الہٰی کو سنا اور اس کی اطاعت کی جو شخص تم میں سے شہادت میں رغبت رکھتا ہو وہ میرے ساتھ چلے میں رسول اللہ ﷺ کے حکم پر چلنے والا ہوں۔ اور جو شخص تم میں سے شہادت کو ناپسند کرے اس کو چاہئے کہ لوٹ جائے کیونکہ رسول الہ ﷺ نے مجھے تم میں سے کسی کو بھی مجبور کرنے پر منع فرمایا ہے۔ پوری قوم اس کے ساتھ چلی یہاں تک کہ جب وہ وادی نجران میں تھے تو سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کے اونٹ گم ہوگئے وہ ان کو تلاش کرتے ہوئے پیچھے رہ گئے۔ باقی سب صحابہ چلتے رہے یہاں تک کہ (وادی) نخلہ میں اترے ان کے پاس سے عمرو بن حضرمی، حکم بن کیسان، عثمان اور مغیرہ بن عبد اللہ گزرے ان کے ساتھ تجارت کا سامان تھا۔ طائف سے چمڑے اور زیتون کا تیل لے کر آرہے تھے۔ جب صحابہ ؓ نے ان کو دیکھا تو واقد بن عبد اللہ نے ان کے سامنے آئے اور وہ اپنے سر کا حلق کرائے ہوئے تھے۔ جب اس کا حلق کئے ہوئے دیکھا تو عمار ؓ نے کہا تم پر ان کی طرف سے کوئی ڈر نہیں ہے اور قوم نے ارادہ کیا کہ ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب بھی تھے۔ اور وہ جمادی الاآخری کا آخریء دن تھا۔ تو انہوں نے (آپس میں) کہا اگر تم ان کو قتل کرو گے اور تم ان کو شہر حرام میں ضرور قتل کرو گے اور اگر تم ان کو چھوڑ دو گے تو یہ لوگ اس رات میں حرم مکہ میں داخل ہو کر تم سے محفوظ ہوجائیں گے۔ تو صحابہ ان کے قتل پر جمع ہوگئے۔ واقد بن عبد اللہ تمیمی ؓ نے عمرو بن حضرمی کو تیر مارا اور اس کو قتل کردیا اور عثمان بن عبد اللہ اور حکم بن کیسان کو قیدی بنا لیا اور مغیرہ بھاگ گیا اور ان کو عاجز کردیا۔ انہوں نے اونٹوں کے قافلہ کو ہانکا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ آپ نے ان سے فرمایا اللہ کی قسم ! میں نے تم کو شھر حرام میں قتال کرنے کا حکم دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قیدیوں کو اور اونٹوں کے قافلہ کو ٹھہرایا اور اس میں سے کوئی چیز نہیں لی۔ جب ان کو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے ارشاد فرمایا بہت پریشان ہوئے۔ اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ہلاک ہوگئے اور مسلمانوں میں سے ان کے بھائیوں نے سختی کا معاملہ کیا۔ قریش نے کہا جب ان کے پاس یہ معاملہ پہنچا کہ محمد ﷺ نے حرام خون بہا دیا۔ اور مال لے لیا لوگوں کو قیدی بنا لیا اور شہر حرام کو حلال کرلیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری۔ لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ (الآیہ) جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے قافلے کو لے لیا۔ اور قیدیوں سے فدیہ قبول کیا۔ مسلمانوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم جنگ کی خواہش کیا کریں تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ان الذین امنوا والذین ھاجروا وجھدوا فی سبیل اللہ، اولئک یرجون رحمت اللہ “ اور صحابہ کرام ؓ آٹھ تھے اور نویں ان کے امیر عبد اللہ بن جحش تھے۔ (12) ابن جریر نے ربیع (رح) سے لفظ آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ (اس کا مطلب یہ ہے) آپ اسے اس میں قتال کرنے کے بارے میں پوچھتے ہیں اور اسی طرح پڑھتے تھے۔ ” عن قتال فیہ “ (13) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ ؓ کی قرأت میں یوں تھا لفظ آیت ” یسئلونک عند الشھر الحرام عن قتال فیہ “ (14) ابن ابی داؤد (رح) سے روایت کیا کہ عکرمہ ؓ اس حرف کو یوں پڑھتے تھے ” قتل فیہ “ (15) عطاء بن میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ شہر حرام میں قتال کو حلال کردیا گیا (جس کا ذکر) سورة برأۃ میں ہے۔ لفظ آیت ” فلا تظلموا فیہن انفسکم وقاتلوا المشرکین کافۃ “ (سورۃ التوبہ آیت 26) (16) ابن ابی حاتم نے سفیان ثوری (رح) سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ شی (یعنی حکم) منسوخ ہے اب شہر حرام میں قتال کرنے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (17) النحاس نے الناسخ میں جو یبر سے انہوں نے ضحاک سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت ” یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ “ سے مراد فی شہر حرام ہے (اور) ” قل قتال فیہ کبیر “ یعنی بڑا (گناہ) ہے۔ ان مہینوں میں قتال کرنا منع تھا۔ یہاں تک کہ آیت سیف نے (جو) سورة برأۃ میں ہے اس کو منسوخ کردیا (یعنی) لفظ آیت ” فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم “ اشہر الحرام میں اور اور اس کے علاوہ سب مہینوں میں قتال کو حلال کردیا گیا۔ (18) ابن المنذر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت ” والفتنۃ اکبر من القتل “ میں فتنہ سے مراد شرک ہے۔ (19) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یزالون یقاتلونکم “ سے مراد کفار قریش ہیں۔؂ (20) ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اولئک یرجعون (رح) “ سے مراد اس امت کے بہترین لوگ ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اہل رجاء سے شمار کیا کیونکہ جس نے امید کی اس نے طلب کیا۔ اور جو شخص ڈر گیا وہ بھاگ گیا۔ (21) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) نے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ اس امت کے بہترین لوگ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اہل رجا بنا دیا جیسا کہ تم سنتے ہو۔
Top