Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 194
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ عِبَادٌ : بندے اَمْثَالُكُمْ : تمہارے جیسے فَادْعُوْهُمْ : پس پکارو انہیں فَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پھر چاہیے کہ وہ جواب دیں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
(مشرکو) جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔
(7:194) تدعون۔ تم پکارتے ہو۔ ای تعبدون۔ (جن کی) تم عبادت کرتے ہو۔ وتسمونہم الھۃ۔ جنہیں تم الہٰ کا نام دیتے ہو۔ عبار امثالکم۔ تم ہی جیسے بندے۔ بت اگرچہ پتھر اور لکڑی کے بےجان مجسمے ہوا کرتے تھے ان کو تمہارے جیسے بندے کہنا وجوہ ذیل کی بناء پر ہوسکتا ہے : (1) مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ زندہ ہیں اور سنتے سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کے اعتقاد کے مطابق ان سے بات کی گئی۔ (2) بہ الفاظ بطور استہزاء استعمال کئے گئے ہیں کہ اے عقل کے دشمنو ! اگر تمہاری بات کو مان بھی لیا جاوے کہ یہ زندہ ہیں اور سنتے سمجھتے ہیں تو پھر بھی زیادہ سے زیادہ تمہاری طرح کے انسان ہی ہوں گے ۔ تو پھر اپنے جیسے انسان کی بندگی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ (3) بتوں کی عباد کہنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ بھی تمہاری طرح اس کے ملوک ہی ہیں۔ جس طرح تم مخلوق ہو اس طرح پر یہ بھی مخلوق ہیں۔ فادعوھم فلیستجیبوالکم۔ پس پکار دیکھو ان کو۔ انہیں چاہیے کہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم اپنے اعتقاد پر سچے ہو (لیکن بھلا یہ ایسا کرتے ہیں ہرگز نہیں )
Top