Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو لوگ احکام الٰہی کی اطاعت کرنے کا عہد کر کے پھر اسے توڑ ڈالتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کے کاٹنے میں بیباک ہیں اور اپنی بدعملیوں سے ملک میں فساد پھیلاتے ہیں ، سو یہی وہ لوگ ہیں جن کیلئے سراسر نامرادی ہے
فاسق کون ہے ؟ : 63: وہی لوگ جو عہد کر کے اسے توڑ ڈالتے ہیں خصوصاً وہ لوگ جو احکام الٰہی کی اطاعت کا عہد کر کے پھر اسے توڑ دیں اور جن کاموں کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس سے قولی یا عملی انحراف کریں۔ عہد اس صورت معاملہ اور معاہدے کو کہا جاتا ہے جو دو شخصوں کے درمیان طے ہوجائیں ۔ میثاق ایسے معاہدے کو کہتے ہیں جو قسم کے ساتھ مضبوط و مستحکم کیا جائے ۔ اس آیت نے گویا پہلی آیت کی تشریح کردی اور بتا دیا کہ قرآن کریم ان مثالوں سے جن پر مشرکین و منافقین نے اعتراض کیا ہے صرف وہی لوگ گمراہ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے سرکشی کرتے ہیں جس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ ایسا کرنے والے اس ازلی وعدے کو توڑ ڈالتے ہیں جو تمام انسانوں نے اپنے رب سے باندھا تھا ، اور ایجاب و قبول سے وہ موثق ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ یہ عہد قولی نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ کی ذات لفظوں کے بولنے اور آواز نکالنے سے جو انسان سے متعلق ہے بغیر واسطہ کی بری ہے۔ پس اللہ کا قول انسانی فطرت ہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا اس قدرت کی نشانیاں جو دنیا میں اور خود انسان میں ہیں اور جو عقل وتمیز انسان میں بالواسطہ ان کے سمجھنے کی موجود ہے اس کے اللہ ہونے پر موثق عہد ہے جس کا دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہوا ہے خود انسان کی فطرت اور قوائے محرک اور قوت مانع یا معتدل کرنے والی ان قویٰ کی اس میں رکھی ہے وہ ٹھیک اس کے دین یا شریعت کے بجالانے کا عین فطرت ہے جو پکا عہد ہے پس جو لوگ اس عہد کو توڑتے ہیں وہی بدکار ہیں اور وہی ان مثالوں سے گمراہ ہوتے ہیں ۔ اس فطری عہد کا ذکر انسانی تفہیم کے لئے اس طرح قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تمام انسانوں کی اس عالم کی پیدائش سے پہلے رب کریم نے تمام پیدا ہونے والے انسانوں کی فطرتوں کو جمع کرکے ایک سوال فرمایا تھا کہ : اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ 1ؕ: یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ اس پر سب انسانی فطرتوں نے بیک زبان ہو کر کہا تھا : ” بَلٰى“ یعنی آپ رب کیوں نہ ہوئے ؟ جس میں بڑی تاکید کے ساتھ اس کا اقرار ہے کہ اللہ جل شانہ ہمارا رب و پروردگار ہے اور اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے سرمو تجاوز نہ کریں۔ اس لئے یہ عہد ازلی انسان اور اللہ کے درمیان ہوچکا ہے جو فطرت انسانی میں موجود ہے ، اب دنیا میں پیدا ہونے کے بعد تمام انبیاء (علیہ السلام) اور آسمانی کتابیں اس عہد کی تجدید ، یاد دہانی اور اس پر عمل کی تفصیلات بتانے کے لئے آئے تھے جس نے اس فطری معاہدے ہی کو توڑ ڈالا اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب سے فائدہ اٹھائے ؟ دوسری وجہ یہ بتائی کہ ان لوگوں نے ان تمام تعلقات کو قطع کر ڈالا ہے جن کے جوڑے رکھنے یعنی ملائے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا تھا۔ ان تعلقات میں وہ تعلق بھی ہے جو بندہ اور اللہ کے درمیان ہے اور وہ تعلق بھی جو انسان کو اپنے ماں باپ اور دوسرے عزیزوں سے ہے اور وہ تعلق بھی جو ایک انسان کو اپنے پڑوسی اور دوسرے شرکاء کار کے ساتھ ہے اور وہ تعلق بھی جو عام مسلمانوں اور عام انسانوں کے ساتھ ہے ان تمام تعلقات کے پورے کرنے ہی کا نام اسلام ہے یا شریعت اسلام ہے اور انہی میں کوتاہی کرنے سے ساری زمین میں فساد برپا ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اس جملہ کے بعد فرمایا : یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ : یعنی یہ لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں اور آیت کے آخر میں ان کے انجام بد کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ۔
Top