Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 198
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَسْمَعُوْا١ؕ وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَدْعُوْهُمْ : تم پکارو انہیں اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت لَا يَسْمَعُوْا : نہ سنیں وہ وَ : اور تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھتا ہے يَنْظُرُوْنَ : وہ تکتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَهُمْ : حالانکہ لَا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے ہیں وہ
اور اگر تم انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاؤ تو سن نہ سکیں۔ اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ (بظاہر) آنکھیں کھلے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر (فی الواقع) کچھ نہیں دیکھتے۔
(7:198) وان تدعوہم الی الھدی۔ ملاحظہ ہو (7:193) ۔ اگر یہاں ہم کی ضمیر مشرکون کی طرف راجع ہے جیسا کہ الحسن کا قول ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا۔ کہ اگر تم ان (مشرکین) کو ہدایت کی طرف پکارو تو وہ نہیں سنیں گے اور تو ان کو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ دیکھ پا نہیں رہے (یونہی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں پکار کو سمجھ نہیں رہے) ۔ لیکن اکثر مفسرین کے نزدیک ہم کی ضمیر کا مرجع وہ اصنام و اوثان ہیں جن کو مشرکین اللہ کے شریک ٹھہرا رہے تھے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کو ہدایت کی طرف بلاؤ (یا ہدایت کے لئے بلاؤ) تو اپنی مصنوعی آنکھوں سے معلوم دیں گے کہ دیکھ رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اس قابل ہی نہیں کہ دیکھ سکیں۔ یہ مضمون آیت 1:53 کے بعد دوبارہ لایا گیا ہے کہ ان بتوں کی لاچارگی اور بےبسی ان کے ذہن نشین کرائی جائے۔
Top