Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 17
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ١۪ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى١ۚ وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ : سو تم نے نہیں قتل کیا انہیں وَلٰكِنَّ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ قَتَلَهُمْ : انہیں قتل کیا وَ : اور مَا رَمَيْتَ : آپ نے نہ پھینکی تھی اِذْ : جب رَمَيْتَ : آپ نے پھینکی وَلٰكِنَّ : اور بلکہ اللّٰهَ : اللہ رَمٰى : پھینکی وَلِيُبْلِيَ : اور تاکہ وہ آزمائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مِنْهُ : اپنی طرف سے بَلَآءً : آزمائش حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم لوگوں نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا۔ اور (اے محمد ﷺ جس وقت تم نے (کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزما لے۔ بیشک خدا سنتا جانتا ہے۔
(8:17) رمیت۔ تو نے پھینکا۔ رمی یرمی (ضرب) سے ماضی واحد مذکر حاضر۔ ناقص یائی۔ لیبلی۔ لام تعلیل۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ ابلی یبلی (باب افعال) ابلاء مصدر ۔ بلو وبلی مادہ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا پرانا اور بوسیدہ ہونے کے ہیں۔ اسی سے بلاہ السفر۔ ای ابلاہ کا محاورہ ہے۔ یعنی سفر نے اسے لاغر کردیا۔ اور بلوتہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا۔ اور اسی آزمائش کے معنی میں اس کا اکثر استعمال ہوتا ہے۔ ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع (2:155) اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک سے تمہاری آزمائش کریں گے۔ یا ان ھذا لھو البلؤ المبین (37:106) بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی۔ تکلیف کو بھی بلاء کہا گیا ہے کیونکہ تکلیف بھی ایک طرف کی آزمائش ہی ہے۔ جیسے ولنبونکم حتی نعلم المجاھدین منکم ونعلم الصابرین (47:31) ہم تم کو ضرور آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کریں (یعنی جہاد کی تکلیف میں مبتلا کرکے) ۔ اللہ تعالیٰ کبھی بندوں کا تنگی کے ذریعہ امتحان لیتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں اور کبھی خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ اس کے بندے شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ کما حقہ صبر کرنا آسان ہے بہ نسبت کما حقہ شکر کرنے کے۔ کیونکہ آرام و آسائش میں انسان زیادہ نفسانی خواہشات میں محو ہوجاتا ہے اور اپنے منعم کو اور اس کا شکر بجالانے کو بھول جاتا ہے۔ اسی بناء پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں من وسع علیہ دنیاہ فلم یعلم انہ قدمکربہ فھو مخذوع عن عقلہ۔ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزمائش کی گرفت میں ہے تو وہ فریب خوردہ اور عقل و فکر سے محروم ہے۔ اور حضرت عمر ؓ کا قول ہے بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نصر۔ تکلیف سے ہمیں آزمایا گیا تو ہم نے صبر کیا اور فراخ حالی سے ہمیں آزمایا گیا تو صابر نہ نکلے۔ ان ہی معانی کی روشنی میں بعض نے لیبلی المؤمنین منہ بلاء حسنا کا ترجمہ کیا ہے۔ تو یہ اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے۔ (تفہیم القرآن) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنی جانب سے ایک باوقار آزمائش سے آزمائے۔ (عبد اللہ یوسف علی) لیکن جمہور مفسرین نے بلاء کا معنی احسان۔ عطاء اور نعمت لیا ہے۔ اور یبلی کا مطلب عطا کرنا یا نعمت سے نوازنا۔ الخازن لکھتے ہیں :۔ نقد اجمع المفسرون علی ان البلاء ھنا بمعنی النعمۃ مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہاں بلاء سے مراد نعمت ہے۔ صاحب کشاف رقمطراز ہیں :۔ ولیبلی المؤمنین منہ بلاء حسنا۔ ای لعطیہم عطاء جمیلا۔ تاکہ مؤمنین کو عطاء جمیل سے نوازے۔ بیضاوی لکھتے ہیں :۔ ولینعم علیہم نومۃ عظیمۃ بالنصور الغنیمۃ۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو فتح اور مال غنیمت کی نعمت عظیم عطا فرمائے۔ صاحب منتہی الادب نے منجملہ دیگر معانی کے ابلاہ بلاء کا معنی نعمت داد اورا کیا ہے۔ یعنی کفار کا مؤمنوں کے مؤمنوں کے ہاتھوں قتل اور رسول اللہ ﷺ کے وست مبارک سے الرمی کا معجزہ اس واسطے عمل میں لایا گیا کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو فتح اور مال غنیمت کی نعمتوں سے نوازے۔
Top