Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اس طرح نکلنا چاہئے تھا) جس طرح تمہارے پروردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ اپنے گھر سے نکالا اور (اس وقت) مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔
(8:5) کما جیسے۔ ان آیات کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے مختصراً ان کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ شعبان المعظم سنہ 2 ھ میں مدینہ کے شمال جانب ابو سفیان کی قیادت میں ایک تاجرتی وفد شام سے مکہ کی جانب لوٹ رہا تھا۔ ان کی گزرگاہ مسلمانان مدینہ کی زد میں تھی۔ ابو سفیان نے حفظ ما تقدم کے طور پر امداد کے لئے مکہ کو اپنا آدمی دوڑایا۔ جس نے حالات کو نہایت مبالغہ کے ساتھ مکہ والوں کے سامنے بیان کی۔ اس پر مکہ سے ابوجہل کی سرکردگی میں ایک لشکر جرار جملہ سامان حرب سے لیس ہوکر جنوب سے مدینہ کی جانب چڑھ نکلا۔ جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے تو ان وک معلوم ہوا کہ قافلہ مسلمانوں کی زد سے بچ کر نکل گیا ہے اس پر ابو جہل کے کئی آدمیوں نے رائے دی کہ اب جب کہ مقصد پورا ہوگیا ہے ہمیں لوٹ جانا چاہیے لیکن ابو جہل اور اس کے لشکر کی اکثریت اس پر رضا مند نہ ہوئی ان کا ارادہ تھا کہ مسلمانوں کی اس مختصر جمعیت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے جس سے نہ صرف ان کا مذہب بلکہ ان کی یہ تجارتی شاہراہ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں سے محفوظ ہوجائے گی۔ لہٰذا انہوں نے آگے بڑھنے کا عزم کیا۔ ادھر مسلمانوں کو جب ایک طرف سے قافلہ کی آمد اور دوسری طرف کفار کے لشکر کی ہلغار کا علم ہوا تو ان کے سامنے دو راستے تھے شمال میں قافلہ پر حملہ کرکے مال حاصل کریں۔ یا جنوب میں کفار کے لشکر کا مقابلہ کرکے دین حق کی سربلندی قائم کریں۔ باہمی مشاورت کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مؤخر الذکر راستہ اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ چند ایک مسلمان اس فیصلہ پر اتنے خوش نہ تھے ان کے خیال میں وہ سیدھے موت کے منہ میں جا رہے تھے کیونکہ لشکر کفار کے جم غفیر اور مسلمانوں کی تعداد حقیر میں کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔ پھر ادھر ہر شخص کیل کانٹے سے لیس اور ادھر مسلمانوں میں اکثر نہتے تھے۔ لیکن انجام کار حالات نے ثابت کردیا کہ سرور دو عالم ﷺ کا انتخاب بالکل برحق تھا۔ اور آخر کار حق ہی کی ستح ہوئی اور نتیجہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے لئے خوشگوار نکلا۔ (یہ غزوۂ بدر رمضان سنہ 2 ھ کا واقعہ ہے) اب ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح ایک فریق بدر کے میدان میں علی الرغم اور بمجبوری نکلا تھا اب مال غنیمت کی تقسیم پر بھی بعض ناخوش ہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت میں جو مال جس کے ہاتھ آجاتا وہی اس کا مالک بن بیٹھتا تھا۔ اب خداوند تعالیٰ کا حکم آگیا کہ سارے کا سارا مال غنیمت اللہ اور اللہ کے رسول کی ملکیت ہے جس طرح چاہیں تقسیم کریں۔ لیکن ان کو علم نہیں کہ گو بظاہر یہ طریقہ تقسیم ان پر شاق ہے لیکن اس کے دوررس نتائج نہ صرف اسلام بلکہ ان کے اپنے حق میں بغائیت خوشگوار ہوں گے۔ اخرجک ربک من بیتک بالحق۔ (جس طرح) تیرے رب کا تجھے اپنے گھر سے (کفار کے مقابلہ میں) نکالنا حق بجانب تھا۔ (اسی طرح خداوند تعالیٰ کا یہ فرمان کہ الانفال للہ و للرسول حق بجانب ہے) وان۔ میں واؤ حالیہ ہے حالانکہ یقیناً (مومنوں کا ایک گروہ ناخوش تھا)
Top