Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ : لے لیں آپ مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال (جمع) صَدَقَةً : زکوۃ تُطَهِّرُھُمْ : تم پاک کردو وَتُزَكِّيْهِمْ : اور صاف کردو بِهَا : اس سے وَصَلِّ : اور دعا کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّ : بیشک صَلٰوتَكَ : آپ کی دعا سَكَنٌ : سکون لَّھُمْ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اے نبی ! آپ ان کے اموال سے صدقہ وصول کیجئے اور اس صدقہ کے ذریعہ ان (کے اموال) کو پاک کیجئے اور ان (کے نفوس) کا تزکیہ کیجئے، پھر ان کے لئے دعا بھی کیجئے۔ بلاشبہ آپ کی دعا 117 ان کے لئے تسکین کا باعث ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا ہے
117 ایسے توبہ کرنے والوں سے صدقہ قبول کیجئے :۔ ان مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ چونکہ مال و دولت کی محبت ہی جہاد کے فریضہ میں کوتاہی کا سبب بنی ہے۔ لہذا یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دینا چاہئے۔ چناچہ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا ہماری توبہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنا سارا مال صدقہ کردیں۔ آپ نے فرمایا سارا مال دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک تہائی مال کا صدقہ کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ان کے صدقات قبول کیجئے۔ کیونکہ یہ سب سچے مومن اور اللہ کے رسول کے خیر خواہ تھے پھر آپ ان کے حق میں دعا بھی کریں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اگرچہ اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا مگر اس کا حکم عام ہے۔ اسی لیے علماء مسئلہ زکوٰۃ میں اس آیت کو بھی پیش کرتے آئے ہیں۔ اور اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ زکوٰۃ کے فائدے :۔ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم وغیرہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔ (2) خذ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے (3) زکوٰۃ کی ادائیگی کے دو فائدے ہیں ایک یہ کہ باقی مال گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہوجائے اور دوسرے یہ کہ حب دنیا، حرص، بخل وغیرہ جیسے باطنی امراض سے دلوں کا تزکیہ ہوجائے۔ اب ہم زکوٰۃ اور اس کی وصولی سے متعلق چند احادیث بیان کریں گے :۔ 1۔ آپ نے فرمایا غلہ سے غلہ، بکریوں سے بکریاں، اونٹوں سے اونٹ اور گایوں سے گائیں۔ (بطور زکوٰۃ لی جائیں) (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب صدقۃ الزرع ) 2۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ زکوٰۃ میں عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کی جائے۔ (ملا جلا مال لیا جائے۔ ) (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب محاسبۃ المصدقین ) 3۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس زمین کو آسمان یا چشمے کا پانی دیا جائے یا وہ زمین خود بخود سیراب ہو اس سے دسواں حصہ زکوٰۃ لی جائے اور جس کھیتی کو کنوئیں سے پانی دیا جائے اس سے بیسواں حصہ لیا جائے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب العشر فیمایسقی من ماء السماء والماء الجاری) 4۔ آپ نے فرمایا پیداوار کا ذریعہ بننے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب فی زکوٰۃ السائمہ ) 5۔ سہیل بن ابی خیثمہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم (زکوٰۃ کے لیے) پھلوں وغیرہ کا اندازہ کرنے لگو تو ایک تہائی چھوڑ دو ۔ اور اگر سمجھو کہ ایک تہائی زیادہ ہے تو چوتھا حصہ چھوڑ دو ۔ (ابو داؤد۔ کتاب الزکوٰۃ باب الخرص) 6۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنوئیں اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز (دفینہ) میں پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب فی الرکاز الخمس) 7۔ احکام زکوٰۃ کے متعلق احادیث :۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس (عاملین زکوٰۃ) کے چھوٹے چھوٹے ٹولے آئیں گے جو تمہیں ناگوار گزریں گے جب وہ آئیں تو انہیں خوش آمدید کہو اور تشخیص مال (زکوٰۃ کے معاملہ میں) انہیں اپنی مرضی کرنے دو ۔ پھر اگر وہ انصاف سے کام لیں تو اس کا انہیں اجر ملے گا اور اگر زیادتی کریں تو اس کا بار انہی پر ہوگا۔ تم انہیں خوش رکھو کیونکہ تمہاری زکوٰۃ کی تکمیل کا انحصار ان کی رضا پر ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ (زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد) تمہارے حق میں دعا بھی کریں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب رضا المتصدق) آپ سے پوچھا گیا کہ عاملین ہم پر زیادتی کرتے ہیں تو کیا ہم اتنا مال چھپالیا کریں (کہ حساب برابر رہے) آپ نے فرمایا ایسا مت کرو۔ (ابوداؤد حوالہ ایضاً ) 8۔ آپ نے فرمایا کہ عامل ایک جگہ بیٹھ کر علاقے کے مویشی اپنے پاس نہ منگوائے اور نہ صاحب مال اپنا مال دور لے جائیں بلکہ جہاں کوئی رہتا ہے وہیں جا کر زکوٰۃ وصول کی جائے۔ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب این تصدق الاموال) 9۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں سے (زرعی زکوٰۃ) ان کے آبپاشی کے مقامات پر وصول کی جائے۔ (احمد بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکوٰۃ) 10۔ آپ نے فرمایا زکوٰۃ میں زیادتی کرنے والا (عامل) ایسا ہی ہے جیسے زکوٰۃ نہ دینے والا۔ (ترمذی ابو اب الزکوٰۃ۔ باب فی المعتدی فی الصدقۃ) 11۔ زکوٰۃ دینے والے کو دعا دینے کا حکم :۔ عبداللہ بن ابی اوفٰی فرماتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کسی قسم کی زکوٰۃ آتی تو آپ فرماتے اے اللہ ان پر رحمت فرما۔ میرے باپ جب زکوٰۃ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا اے اللہ ! آل ابی اوفیٰ پر رحمت فرما۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ حدیبیہ۔ مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الدعاء لمن اتیٰ بصدقتہٖ ) 12۔ سیدنا علی فرماتے ہیں کہ سیدنا عباس ؓ نے آپ سے پوچھا کہ آیا زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے بھی دی جاسکتی ہے ؟ تو آپ نے اس کی اجازت دے دی۔ (ترمذی۔ ابو اب الزکوٰۃ۔ باب فی تعجیل الزکوٰۃ) 13۔ سیدنا انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں داغ دینے کا آلہ تھا جس سے آپ صدقہ کے اونٹوں کو داغ دے رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب وسم الامام ابل الصدقۃ ) 14۔ سرکاری ملازمین کے تحفے رشوت کی قسم ہے :۔ ابو حمید ساعدی کہتے ہیں کہ آپ نے (بنی سلیم کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے) ایک شخص (عبداللہ بن لُتْبِیّہ) کو عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر آیا تو آ کر کہا یا رسول اللہ ! یہ آپ کے لیے (زکوٰۃ کا مال) ہے اور یہ مجھے تحفہ کے طور پر ملا ہے۔ آپ نے فرمایا تو اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا۔ پھر دیکھتا کہ تمہیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں ؟ پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور حمد و ثنا کے بعد عاملین کا حال بیان کیا پھر فرمایا اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے تم میں سے جو شخص زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ چرائے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر لادے ہوئے آئے گا۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور باب کیف کان یمین النبی ) بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوچکا ہے جو یہ کہتا ہے کہ زکوٰۃ کا جو نصاب اور جو شرح رسول اللہ نے مقرر فرمائی تھی وہ صرف ان کے دور اور اس دور کے تقاضوں کے مطابق تھی اور آج ایک اسلامی حکومت اس دور کے تقاضوں کے مطابق جو بھی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ وہی زکوٰۃ ہے۔ اسلامی حکومت اگر چاہے تو شرح زکوٰۃ میں کمی بیشی کرنے کی بھی مجاز ہے اور نئے ٹیکس عائد کرنے کی بھی۔ ایک اسلامی حکومت اس سلسلہ میں جو کچھ بھی وصول کرے وہ زکوٰۃ ہی ہوگی۔ نیز رسول اللہ کی سنت یہی ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق محل نصاب اشیاء اور شرح زکوٰۃ مقرر کی تھی اور ہم اپنے دور کے مطابق یہ امور طے کریں۔ یہ نظریہ چونکہ اسلام کے ایک بنیادی مسئلہ پر براہ راست حملہ ہے اس لیے ہم اس کا جواب ذرا تفصیل سے دیں گے اور اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک یہ کہ ٹیکس اور زکوٰۃ میں کون کون سا فرق ہے دوسرا یہ کہ آیا زکوٰۃ کی موجودگی میں ایک اسلامی حکومت کوئی اور ٹیکس لگانے کی مجاز ہے یا نہیں ؟ زکوۃ اور ٹیکس میں فرق :۔ عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں سے تو زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی اور غیر مسلموں سے خراج اور جزیہ۔ عرب کا ہمسایہ ملک ایران ایک متمدن حکومت تھی۔ اس میں زمینداروں سے جو مالیہ وصول کیا جاتا اسے خراگ کہتے تھے۔ خراج کا لفظ اسی سے معرب ہے اور خراگ کے علاوہ دوسرے ٹیکسوں کو گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اسی سے معرب ہے۔ گویا غیر مسلموں پر تو وہی ٹیکس بحال رکھے گئے جو زمانہ کے دستور کے مطابق تھے مگر مسلمانوں سے یہ عام ٹیکس ساقط کردیئے گئے اور ان کے بجائے زکوٰۃ عائد کی گئی۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کا نصاب اور شرح ہمیشہ غیر متبدل رہی جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تبدیلی ہوتی رہی۔ عہد نبوی میں جزیہ کی شرح ایک دینار فی کس سالانہ تھی اور یہ رقم اجتماعی طور پر بوڑھے بچے، عورت اور معذوروں کی تعداد کے مطابق لی جاتی تھی مگر سیدنا عمر نے اس میں اصلاح کی۔ بوڑھے، بچوں، عورتوں اور معذوروں سے جزیہ ساقط کردیا اور کمانے والے افراد کے بھی تین درجے مقرر کیے جن سے علی الترتیب چار دینار، دو دینار اور ایک دینار سالانہ کے حساب سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ اسی طرح قبیلہ بنی تغلب کے عیسائیوں نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ ان سے خراج کی بجائے دوگنا عشر لے لیا جائے تو سیدنا عمر نے ان کی درخواست قبول کرلی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس دور میں زکوٰۃ کو تو دین کا رکن سمجھا جاتا تھا اور اس کے احکامات غیر متبدل تھے جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تغیر و تبدل کرلیا جاتا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ جو کچھ بھی زائد وصول کیا جائے اسے عربی میں مکس کہتے ہیں مشکوۃ میں صاحب مکس کا معنی ای من یاخذ العشر و یزید علیہ شیأ بتلاتے ہیں یعنی وہ شخص جو عشر وصول کرتا ہے اور اس سے کچھ زیادہ بھی لیتا ہے۔ ان الفاظ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا جو کچھ بطور رشوت لے وہ مکس ہے اور یہ بھی زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس عائد کر دے۔ یعنی 10% کے بجائے بارہ چودہ فیصد وصول کرے اور یہ بھی کہ حکومت زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس عائد کردے۔ تاہم لغت اسی تیسرے مفہوم کی تائید کرتی ہے۔ مکس کے معنی المنجد (عربی۔ اردو) نے محصول ٹیکس اور چونگی لکھے ہیں اور ماکس کے معنی ٹیکس وصول کرنے والا۔ منتہی الارب (عربی۔ فارسی) نے اس کے معنی باج، خراج گرفتن اور مقائیس اللغتہ (عربی میں اس کا معنی کلمۃ تدل علی جبی المال ہے اور جبایۃ کا لفظ محصول اکٹھا کرنے کے لیے محاورۃً استعمال ہوتا ہے۔ لہذا یہ عین ممکن ہے کہ مکس کا لفظ ہی دوسری زبان میں جا کر ٹیکس بن گیا ہو۔ اب مکس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ دور نبوی میں جب قبیلہ غامدیہ کی عورت کو زنا کے جرم میں سنگسار کیا گیا تو سیدنا خالد بن ولید نے اسے ایک پتھر مارا جس کی وجہ سے خون کے چند چھینٹے سیدنا خالد کے منہ پر بھی پڑے سیدنا خالد نے اس عورت کو برابھلاکہا تو آپ نے سیدنا خالد سے فرمایا خالد ! یہ کیا بات ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کردیا جائے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) گویا مکس کا جرم زنا سے کسی صورت کم نہیں ہے اور ایک دفعہ آپ نے یوں فرمایا ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ تیسرا فرق مقصد کے لحاظ سے ہے۔ ٹیکس کا مقصد عوام کی آمدنی کا ایک حصہ لے کر اس سے نظام حکومت چلانا، رفاہ عامہ کے کام کرنا اور اس سے ملکی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے جبکہ زکوٰۃ کے اصل مقصد دو ہیں ایک تطہیر مال، دوسرا تزکیہ نفس۔ جیسا کہ اس حاشیہ کی ابتداء میں واضح کیا جا چکا ہے اور یہ دونوں فائدے زکوٰۃ دینے والے کو پہنچتے ہیں اور اس کا معاشرتی فائدہ یہ ہے کہ اس سے غریب مقروض اور محتاج عنصر کی مالی امداد ہوجاتی ہے۔ چوتھا فرق محاصل کا ہے یعنی ٹیکس کن لوگوں سے لیا جاتا ہے اور زکوٰۃ کن سے۔ اسلامی نقطہ نظر سے معاشرہ کو معاشی لحاظ سے صرف تین طبقوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 1۔ وہ لوگ جن سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے یہ لوگ اہل نصاب یا غنی ہیں۔ 2۔ دوسرے وہ لوگ جن میں زکوٰۃ تقسیم ہوگی۔ یہ لوگ فقراء و مساکین ہیں۔ 3۔ متوسط طبقہ جو نہ زکوٰۃ دینے کا اہل ہوتا ہے، نہ زکوٰۃ لینے کا۔ مثلاً ابو داؤد کی ایک حدیث کے مطابق جس کے پاس ایک اوقیہ چاندی کی مالیت کے برابر کوئی بھی چیز موجود ہو وہ زکوٰۃ لینے کا مستحق نہیں جبکہ زکوٰۃ کا حد نصاب 5 اوقیہ چاندی ہے۔ اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ طبقہ نمبر 1 سے لے کر طبقہ نمبر 2 میں تقسیم کردی جائے جیسا کہ رسول اللہ نے سیدنا معاذ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت ہدایت فرمائی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ باب محاسبۃ المصدقین) تیسرے طبقہ کا زکوٰۃ سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ وہ نہ دینے والوں میں ہیں نہ لینے والوں میں اس کے برعکس ٹیکس کی رقوم کا بیشتر حصہ غریبوں کی جیب سے نکلتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مثلاً 77۔ 1976 ء کے گوشوارہ کے مطابق ہماری حکومت کی مجموعی آمدنی کا 75 فیصد حصہ صرف ٹیکسوں سے وصول ہوا تھا پھر یہ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں ایک بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس جیسے انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، دولت ٹیکس وغیرہ۔ یہ ٹیکس امراء پر لگائے جاتے ہیں۔ 77۔ 1976 ء کے مطابق ان ٹیکسوں سے ٹیکسوں کی مجموعی آمدنی کا صرف 3/ 12 فیصد وصول ہوا۔ باقی 7/ 87 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے وصول ہوا۔ بالواسطہ ٹیکس وہ ہیں جو ادا تو تاجر یا صنعت کار کرتے ہیں مگر یہ ٹیکس قیمت فروخت میں شامل کر کے اس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیتے ہیں۔ جیسے سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی وغیرہ جو چینی، سریا، سیمنٹ، سوتی کپڑا، درآمدات اور دیگر بیشمار اشیاء پر لگائے جاتے ہیں اور چونکہ ہمارے ہاں صارفین کا بیشتر حصہ غریب طبقہ ہے۔ لہذا ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ یہی طبقہ برداشت کرتا ہے۔ پانچواں فرق مصارف کے لحاظ سے ہے۔ زکوٰۃ کا سب سے بڑا اور اہم مصرف غریب طبقہ کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہے جبکہ ٹیکس ملکی ضروریات کو پورا کرنے اور رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ ہوتے ہیں۔ گو یہ سب چیزیں سب کے لیے مشترک ہوتی ہیں تاہم عملاً ان سے امیر طبقہ ہی مفاد حاصل کر پاتا ہے مثلاً اعلیٰ تعلیم کے حصول یا حصول انصاف جو کسی غریب کے بس کا روگ نہیں۔ اسی طرح اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امیر طبقہ اپنے اثر اور وسائل کی بنا پر ہر چیز سے زیادہ فائدہ اٹھا جاتا ہے گویا ٹیکس کی رقم جس کا زیادہ حصہ غریب کی جیب سے نکلا تھا اس سے امیر زیادہ فائدہ اٹھا گیا۔ مختصراً یہ کہ زکوٰۃ دین اسلام کا ایسا رکن ہے جس کے ذریعہ دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف مڑتا ہے جبکہ ٹیکس سرمایہ دارانہ نظام کے دو اہم ارکان سود اور ٹیکس میں سے دوسرا رکن ہے۔ تو جس طرح سود سے بالآخر سرمایہ دار اور امیر طبقہ کو فائدہ پہنچتا ہے اور غریب طبقہ پستا ہے اسی طرح ٹیکس کا بار تو غرباء پر زیادہ ہوتا ہے اور فائدہ امیر حاصل کرتا ہے۔ چھٹا فرق مزاج اور نتائج کے لحاظ سے ہے۔ ٹیکس عموماً آمدنی پر لگتا ہے جس سے دولت جمع کرنے کی ہوس بڑھتی ہے جبکہ زکوٰۃ عموماً بچت پر لگتی ہے جس سے اندوختہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ سرمایہ حرکت میں رہتا ہے جس سے معیشت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ زکوٰۃ بچت پر لگنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فرد کی ضرورتوں اور اخراجات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ جبکہ عام ٹیکس آمدنی پر لگتے ہیں۔ مثلاً فرض کیجئے کہ زید اور بکر دونوں تین تین ہزار روپے تنخواہ لیتے ہیں۔ زید کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور وہ بآسانی دو ہزار روپے بچا لیتا ہے مگر بکر کے پانچ چھ بچے بھی ہیں اور وہ اس رقم میں بمشکل گزر بسر کرتا ہے تو ٹیکس ان کے اس امتیاز میں کوئی فرق نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں ٹیکس کو ہر شخض ایک بوجھ تصور کرتا ہے ٹیکس دہندہ کبھی پوری مالیت ظاہر نہیں ہونے دیتے اور ٹیکس وصول کرنے والے بھی رشوت لے کر خود ٹیکس چوری کی راہیں بتلا دیتے ہیں۔ اس ملی بھگت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو متوقع رقم کا نصف بھی حاصل نہیں ہوتا اور وہ ٹیکس مزید بڑھانے اور مزید ٹیکس لگانے کی راہ اختیار کرلیتی ہے۔ جبکہ زکوٰۃ ایک دینی فریضہ اور مالی عبادت ہے جسے اکثر مسلمان فریضہ سمجھ کر ہی ادا کرتے ہیں اس میں ہیرا پھیری نہیں کرتے اور اس میں رشوت کا امکان بھی بہت کم ہوتا ہے۔ زکوۃ کی شرح میں بتدیلی اور دوسرے ٹیکس :۔ ان حضرات کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ نے خود اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق محل زکوٰۃ اشیاء اس حد نصاب اور اس کی شرح مقرر فرمائی تھی بالکل غلط ہے وجہ یہ ہے کہ اگر یہ باتیں تدبیری امور میں شامل ہوتیں تو آپ صحابہ کرام ؓ سے ضرور مشورہ کرتے۔ کیونکہ قرآن میں آپ کو یہی حکم دیا گیا ہے اور بہت سے تدبیری امور میں آپ کا صحابہ سے مشورہ کرنا احادیث سے ثابت بھی ہے لیکن یہ حضرات کسی ضعیف سے ضعیف حدیث حتیٰ کہ تاریخ کی کسی کتاب سے بھی یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ آپ نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لیا ہو۔ اس کے برعکس ہم قرآن سے یہ ثابت کریں گے کہ شرح زکوٰۃ اور محل نصاب اشیاء کی تعیین سب کچھ منزل من اللہ تھا جس میں آپ کی رائے یا مرضی کو کچھ عمل دخل نہ تھا ارشاد باری ہے :۔ ( وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ 24؀۽) 70 ۔ المعارج :24) اور ان (مومنوں) کے اموال میں مانگنے اور نہ مانگنے والوں کا حصہ مقرر ہے۔ یہاں لفظ معلوم استعمال ہوا ہے جس کا مادہ علم ہے گویا آپ کو اس حق کا علم دیا گیا تھا۔ اور قرآن میں اکثر مقامات پر لفظ علم کا اطلاق وحی کے علم پر ہوا ہے لہذا آپ نے حق معلوم یا شرح زکوٰۃ کی جو تعیین فرمائی وہ اپنی مرضی سے نہیں فرمائی نہ صحابہ کے مشورہ سے فرمائی اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم تو سینکڑوں بار آیا ہے۔ لیکن اس کی ترتیب، تعدادار کعات وغیرہ کا کہیں ذکر نہیں۔ یہی حال مناسک حج وغیرہ کا ہے اور یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو منزل من اللہ وحی کی محتاج ہیں اور زکوٰۃ کے بارے میں تو آپ کی خصوصی احتیاط یہ بھی تھی کہ آپ یہ سب تفاصیل تحریراً صوبوں کے گورنروں کو بھجواتے تھے۔ اور محل نصاب اشیاء درج ذیل آیات سے ثابت ہیں۔ 1۔ نقدی اور سونا چاندی وغیرہ (وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 34؀ۙ ) 9 ۔ التوبہ :34) اور جو لوگ سونے اور چاندی وغیرہ کا ذخیرہ کرتے ہیں۔ 2۔ زرعی پیداوار یعنی غلہ اور پھلوں کی زکوٰۃ (وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ 141؀ۙ ) 6 ۔ الانعام :141) اور جس دن فصل کاٹو تو اس میں سے اللہ کا حق ادا کرو۔ 3۔ باقی ذرائع آمدنی کے لیے جس میں مویشیوں کی زکوٰۃ اور اموال صنعت و تجارت کی زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ 267۔ ) 2 ۔ البقرة :267) اے ایمان والو ! جو بھی پاکیزہ مال تم کماتے ہو اس میں سے خرچ کرو۔ 4۔ زمینوں اور معدنیات کے لیے مندرجہ بالا آیات کا اگلا حصہ یوں ہے۔ (وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ 267۔ ) 2 ۔ البقرة :267) اور ان چیزوں سے بھی خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں۔ یہ آیت جیسے دفینوں، معدنیات اور زمین کے خزانوں کے لیے عام ہے۔ ویسے ہی نباتاتی اور زرعی پیداوار کے لے بھی عام ہے۔ ان تصریحات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ سے متعلق جملہ امور منزل من اللہ تھے اور ان میں رد و بدل کا خود آپ کو بھی اختیار نہ تھا اگر آپ کو بھی کچھ اختیار ہوتا تو فرضیت زکوٰۃ کے بعد کئی مواقع ایسے آئے جن میں آپ اس شرح کو بڑھا سکتے تھے جیسے غزوہ تبوک کا موقع جبکہ آپ کو فنڈ کی شدید ضرورت تھی۔ علاوہ ازیں ابتدائے اسلام سے آج تک ان امور کا غیر متبدل رہنا ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ زکوٰۃ کی موجودگی میں دوسرے ٹیکس :۔ اسلام نے جس شدت اور تاکید کے ساتھ بغیر حق کے ایک مسلمان کے خون کو حرام کیا ہے اسی شدت اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں کے اموال اور عزت و آبرو کو بھی حرام کیا ہے جس پر آپ کا خطبہ حجۃ الوداع شاہد ہے (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) علاوہ ازیں مسلمانوں کے جان و مال اور آبرو کی حرمت کے متعلق یہ خطبہ احادیث کی تقریباً تمام کتب میں مذکور ہے۔ پھر ایسے صریح احکام کی موجودگی میں حکومت کے پاس وہ کونسا حق ہے جس کی بنا پر وہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور طریقے سے جبراً کچھ وصول کرے ؟ اگر ایک شخص اپنی ضرورت کے لیے مکان بنا لیتا ہے تو اس پر پراپرٹی ٹیکس کیونکر عائد کیا جاسکتا ہے ؟ اس سلسلہ میں فقہائے امت نے اگر کچھ لچک پیدا کی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اگر قحط کا زمانہ ہو۔ غریب لوگ بھوکوں مر رہے ہوں۔ بیت المال میں اتنی رقم موجود نہ ہو جس سے ضروریات پوری کی جاسکیں اور اغنیاء حکومت کی اپیل کے باوجود خود غریبوں کا احساس نہ کر رہے ہوں تو ان چار شرطوں کے ساتھ حکومت اسلامیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امراء پر ٹیکس لگا کر غرباء کی ضروریات کو پورا کرے اور امراء پر ٹیکس لگانے میں عدل سے کام لیا جائے گا یعنی صرف اس قدر مال لیا جائے گا جس سے ضرورت پوری ہو سکے اس سے زائد نہیں۔ نیز اس ٹیکس کی حیثیت ہنگامی اور عارضی ہوگی، دوامی نہیں ہوگی۔ رہے ایسے ٹیکس جن کا مقصد ہی اہل اقتدار کی عیاشیوں اور ہوس پرستیوں کو پورا کرنا ہو ان کی ایک اسلامی حکومت میں کوئی گنجائش نہیں۔ نئے ٹیکس اور حکومت کی ضروریات :۔ نئے ٹیکس عائد کرنے کے جواز میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ آج کل حکومتیں بہت سی ذمہ داریاں اپنی سر لے لیتی ہے اور اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں لہذا نئے ٹیکس لگانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں ہماری معروضات یہ ہیں :۔ 1۔ اگر حکومت کے اخراجات بڑھ چکے ہیں تو آمدنی کی بھی مدات بڑھ چکی ہیں کئی محکمے کاروباری طریق پر چل رہے ہیں جن سے معقول آمدنی متوقع ہوتی ہے جیسے محکمہ ڈاک و تار، ٹیلی فون، واپڈا، ریلوے اور انہار وغیرہ۔ ان محکموں میں خسارہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب عملہ بددیانت ہو۔ ورنہ نقصان کی کوئی صورت نہیں۔ 2۔ کئی محکمے ایسے ہیں جن کی ایک اسلامی نظام میں سرے سے گنجائش نہیں مثلاً خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی، فحاشی پھیلانے والے ثقافتی مراکز اور ثقافت کی بین المملکتی نقل و حرکت پر اٹھنے والے اخراجات۔ 3۔ حکومت کے انتظامی اخراجات توجہ طلب ہیں۔ لاتعداد محکمے اور ان میں آئے دن اضافہ تاکہ صاحب اقتدار پارٹی کے جیالوں اور وفاداروں کو کھپایا جاسکے۔ ان کی تعداد، الاؤنسز اور سفری اخراجات کم کرنے سے کافی بچت کی جاسکتی ہے۔ 4۔ اہل اقتدار کی عیاشیوں اور ہوس پرستیوں پر جو بےپناہ اخراجات اٹھتے ہیں اور ان کا بار قومی خزانہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ سرکاری افسر سرکاری املاک کو استعمال تو خود اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں۔ لیکن اخراجات قومی خزانہ پر ڈال دیتے ہیں۔ اور ان باتوں کا سدباب صرف اس لیے نہیں ہوتا کہ سب سرکاری افسر جب یہی کچھ کر رہے ہوں تو کون دوسرے کا محاسبہ کرے ؟ 5۔ اخراجات میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملازموں کو بھرتی کرتے وقت صرف ان کی سند، ڈگری یا نمبروں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور جو انسانیت کے اصل جوہر ہیں یعنی دیانتداری، تقویٰ یا دینی تعلیم وغیرہ ان چیزوں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ کام چوری، رشوت اور بددیانتی کی شکل میں سامنے آتا ہے جس دفتر میں دس ملازموں سے دیانتداری سے کام چل سکتا ہو وہاں بیس بھرتی کرلیے جاتے ہیں۔ جن میں بیشتر اپنی سیٹوں سے غیر حاضر اور باہر نکل کر اپنے گاہکوں سے سودا بازی اور رشوت کا معاملہ طے کر رہے ہوتے ہیں اور چونکہ سارا عملہ ہی انہی کاموں میں لگا ہوتا ہے۔ لہذا یہ لوگ کسی گرفت میں بھی نہیں آتے۔ مزید ستم یہ کہ ان کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جب تک کوئی ملازم کسی سنگین بدعنوانی کا مرتکب نہ ہو جس کو کسی صورت چھپایا نہ جاسکتا ہو۔ اسے نہ معطل کیا جاسکتا ہے اور نہ برطرف کیا جاسکتا ہے۔ ان چند در چند وجوہ کی بنا پر دفتری کاموں کی رفتار تو بہت سست رہ جاتی ہے مگر اخراجات آٹھ گنا بڑھ جاتے ہیں۔ 6۔ اخراجات کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہمارا موجودہ نظام ہے مثلاً عدلیہ کو لیجئے جہاں فوجداری مقدمات بھی سالہا سال تک چلتے ہیں۔ دیوانی مقدمات کا اور بھی برا حال ہے۔ اسلامی نظام میں قتل جیسے مقدمہ میں ایک ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں آج کل سو جج کام کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام میں دس جج بھی کفایت کرسکتے ہیں۔ اس طرح عدلیہ کے اخراجات بھی اسی نسبت سے کم ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ پولیس کے بھی پھر جہاں مدعی اور مدعا علیہ کا وقت اور خرچ بچے گا تو وہاں ٹریفک کا دباؤ بھی از خود کم ہوجائے گا۔ اور سڑکوں کی تعمیر پر اخراجات بھی کم ہوجائیں گے گویا صرف عدلیہ کے نظام میں تبدیلی سے ہی اتنے اخراجات کم ہوسکتے ہیں۔ پھر اگر پورے طور پر اسلامی نظام رائج ہو تو اخراجات میں حیرت انگیز حد تک کمی از خود واقع ہوجائے گی۔ 7۔ اور ہمارے خیال میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ یہی حکومت کا ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکس لگائے جانے کا حق ہے۔ گویا یہ حق بڑھتے ہوئے اخراجات کے مرض کا علاج نہیں بلکہ یہی اصل مرض ہے۔ اسی حق کی بنا پر حکومت بہت سے غیر دانشمندانہ اور غیر ترقیاتی منصوبے شروع کردیتی ہے اور اگر اس کا بار ٹیکسوں سے پورا ہوتا نظر نہ آتا ہو تو حکومت نئے نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرلیتی ہے یہ گویا ایک جبری اور بدترین قسم کا ٹیکس ہے جسے خفیہ ٹیکس ؓ EX) (HIDDEN کہا جاتا ہے جس کا عوام کو پتہ تک نہیں چلتا لیکن اس کا بار عوام پر پڑجاتا ہے اور اشیاء کی قیمتیں چڑھ جاتی ہیں اور مہنگائی زیادہ سے زیادہ ہوتی جاتی ہے حکومت کے پاس یہی وہ حربہ ہے جس کی بنا پر وہ اپنے اخراجات کم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتی اور اخراجات بڑھاتی ہی چلی جاتی ہے۔ ان وجوہ اور ان تصریحات کے بعد ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ بیت المال کی جائز آمدنی سے حکومت کے جائز اخراجات آج بھی بطریق احسن پورے ہوسکتے ہیں جس کے لیے ہم تاریخ سے شواہد پیش کرسکتے ہیں۔ دور فاروقی میں اسلامی مملکت عہد نبوی سے کئی گنا زیادہ پھیل چکی تھی۔ کئی نئے محکمے بھی وجود میں آ چکے تھے۔ مثلاً محکمہ مال گزاری، فوج، پولیس، جیل اور ڈاک وغیرہ جو آپ ہی کے عہد میں قائم ہوئے۔ زمانہ کے تقاضے بھی بدل چکے تھے مثلاً دور نبوی میں مسجد نبوی ہی عدلیہ کا صدر دفتر تھا جبکہ دور فاروقی میں عدلیہ کے لیے الگ عمارت اور عملہ کا بندوبست ہوا۔ علی ہذا القیاس ضروریات اور اخراجات بڑھ چکے تھے مگر اسی بیت المال سے حکومت کا نظم و نسق چلتا رہا اور تمام اخراجات پورے ہوتے رہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے چھ سات سو سال طویل دور حکومت میں کبھی مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی عائد نہ کیا گیا اور اخراجات تمام تر بیت المال سے پورے ہوتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ دور فاروقی میں بیشمار فتوحات ہوئیں جہاں سے کافی مال و دولت ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہذا کوئی نیا ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ اعتراض اس لحاظ سے غلط ہے کہ جن علاقوں سے مال و دولت آتی تھی اسی نسبت سے انہی علاقوں کے انتظام و انصرام پر خرچ بھی ہوجاتی تھی اور یہ ایک ایسی ذمہ داری تھی جسے حکومت اپنا فرض سمجھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عمر اپنے سپہ سالاروں کو مزید علاقے فتح کرنے سے روکتے رہتے تھے۔ لہذا آج بھی کرنے کا کام یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کے مرض کے اسباب تلاش کر کے انہیں دور کیا جائے۔ نہ یہ کہ ٹیکس کے جواز کے لیے دلائل تلاش کیے جائیں۔ جس کی حقیقت پہلے واضح کی جا چکی ہے۔
Top