Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ : لے لیں آپ مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال (جمع) صَدَقَةً : زکوۃ تُطَهِّرُھُمْ : تم پاک کردو وَتُزَكِّيْهِمْ : اور صاف کردو بِهَا : اس سے وَصَلِّ : اور دعا کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّ : بیشک صَلٰوتَكَ : آپ کی دعا سَكَنٌ : سکون لَّھُمْ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجیے، اس کے ذریعہ سے آپ انہیں پاک صاف کردیں گے،190۔ اور آپ ان کیلئے دعا کیجیے بلاشبہ آپ کی دعا ان کے حق میں (باعث) تسکین ہے، اور اللہ خوب سننے والا ہے، خوب جاننے والا ہے،191۔
190۔ (ہر ظلمت و کدورت سے) ” جب توبہ سے گناہ معاف ہوگیا تو صدقہ کے آلہ تطہیروتزکیہ کے کیا معنی۔ سو وجہ اس کی یہ ہے کہ توبہ سے گناہ معاف ہوجاتا ہے لیکن گاہے اس کی ظلمت و کدورت کا عموما مندفع ہوجاتی ہے “ (تھانوی (رح) (آیت) ” تطھرو تزکی “۔ کو صدقہ کی صفت بھی سمجھا گیا ہے، اور حال بھی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن بہترین ترکیب یہ ہے کہ ضمیرین مخاطب یعنی رسول اللہ ﷺ کی طرف سمجھی جائیں۔ والاجود ان تکون المخاطبۃ للنبی ﷺ اے فانک تطھر وتزکیھم بھا (قرطبی۔ عن الزجاج) گناہوں سے صفائی تو تطھیر میں خود ہی آگئی، اب اس کے بعدتزکیہ لانا معنی میں مزید ترقی کے لئے ہے۔ التزکیۃ مبالغۃ فی التطھیر وزیادۃ فیہ (کشاف، مدارک) (آیت) ” تطھرھم تزکیھم بھا “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ انفاق مال سے خواہشیں ضعیف ہوتی ہیں اور قوائے نفس منکسر ہوتے ہیں اور مادۂ شہوات کی اصلاح ہوتی ہے۔ (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ یہ حضرات بندش سے رہائی پانے کے بعد طرط اخلاص سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ مال لے کر آئے اور درخواست کی کہ اس کو اللہ کی راہ میں صرف کیا جائے ، (آیت) ” خذ “۔ امروجوبی ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ امام کو قبول صدقات میں توقف وتردوجائز نہیں، صدقہ سے یہاں مراد زکوٰۃ فرض ہے یا کفارہ گناہ والا صدقہ ؟ قول دونوں ہی نقل ہوئے ہیں۔ لیکن ترجیح دوسرے قول کو ہے۔ لیس المراد الصدقۃ الواجبۃ وانماھی صدقۃ کفارۃ الذنب الذی صدر منھم (کبیر۔ عن الحسن) روی عن الحسن انھا لیست بالزکوۃ والمفروضۃ وانماھی کفارۃ الذنوب التی اصابوھا (جصاص) (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ صدقہ وصول کرنے کا یہ حکم جو رسول اللہ ﷺ کو مل رہا ہے، اس سے فقہاء نے یہ بھی نکالا ہے کہ تقسیم صدقات امام مسلمین کا حق ہے، اس لئے کسی شخص کا بہ طور خود صدقہ ادا کردینا جائز نہیں کہ اس سے حق امام کا اتلاف لازم آتا ہے۔ یدل علی ان اخذ الصدقات الی الامام وانہ متی ادا ھا من وجبت علیہ الی المساکین لم یجزہ لان حق الامام قائم فی اخذھا فلاسبیل لہ الی اسقاطہ (جصاص) 191۔ سو اس نے ان کے توبہ و استغفار کو اور ان کے الفاظ اعتراف کو خوب سن بھی لیا اور ان کے احساس ندامت کو خوب جان بھی لیا۔ (آیت) ” وصل علیھم “۔ علماء نے یہاں سے یہ نکالا ہے کہ صدقہ جس کو دیا جائے وہ اور امام جس کی خدمت میں صدقہ تقسیم کے لئے پیش کیا جائے ان دونوں کے لئے صدقہ دینے والے کو دعادینا مستحب ہے بلکہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ امام جو اپنے لئے صدقہ نہیں لیتا بلکہ تقسیم صدقات کا صرف امین ومنتظم ہے جب وہ دعائے خیر پر مامور ہوا تو مسکین و محتاج تو بدرجہ اولی دعائے خیروادائے شکر پر مامور ہوگا مشائخ صوفیہ نے اور ترقی کرکے بعدفراغ ضیافت صاحب ضیافت کے حق میں دعائے خیر و برکت اختیار کی ہے اور مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے امداد ہمت اور افاضہ انوار صحبت کا حکم نکل رہا ہے (آیت) ” ان صلوتک سکن لھم “۔ اس میں اثبات ہے ان اشخاص کے کمال اخلاص کا، فقہاء صوفیہ نے کہا ہے کہ آیت سے بہ قاعدۂ عبارۃ النص ظاہر ہورہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مومنین کے تزکیہ اخلاق وتصفیہ قلوب اور عطائے مقام تسکین ورضا پر مامور تھے اور بہ قاعدۂ اشارۃ النص یہ کہ برزگوں کی خدمت بہ غرض حصول دعائے خیر کرنی چاہیے۔ یہ بھی کہا ہے کہ رسول کی دعا امت کے حق میں، امام کی رعایا کے حق میں، مشائخ کی شاگردوں اور مریدوں کے حق میں، مشائخ کی شاگردوں اور مریدوں کے حق میں اور بڑوں کی چھوٹوں کے حق میں وعدۂ قبول رکھتی ہے۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے متعدد مسائل صوفیہ کا اثبات ہوتا ہے، مثلا اعتراف ذنوب کی فضیلت، معترف کا قبول عذر، بعض اعمال (مثلا صدقہ) کی برکات، شیخ کی برکات (جیسا کہ تزکیہ کو آپ ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا) وقس علی ہذا۔
Top