Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بیشک سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کردیا پھر وہ کسی طرح ایمان نہیں لاتے۔
اِنَّ شَرَّالدَّ وَآبِّ عِنْدَاللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ۔ ج اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتَّ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّھُمْ لَایَتَّقُوْنَ ۔ فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِیْ الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ۔ ( الانفال : 55 تا 57) (بےشک سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کردیا پھر وہ کسی طرح ایمان نہیں لاتے۔ (خصوصاً ان میں سے وہ لوگ) جن سے آپ نے معاہدہ کیا ہے پھر وہ ہر مرتبہ اس معاہدے کو توڑ دیتے ہیں اور وہ بالکل نہیں ڈرتے۔ سو اگر آپ پائیں انھیں لڑائی میں تو انھیں ایسی مار ماریں کہ تتر بتر ہوجائیں وہ لوگ جو ان کے پیچھے ہیں امید ہے کہ وہ نصیحت حاصل کریں گے ) شَرَّالدَّ وَآبِّکامفہوم دَ وَآبٌّ، دابّۃٌ کی جمع ہے۔ اس کا لغوی معنی ” زمین پر چلنے پھرنے والا جاندار “ ہے۔ اس لحاظ سے اس میں حیوانات بھی شامل ہیں اور انسان بھی۔ لیکن بالعموم اس کا اطلاق حیوانات پر ہوتا ہے۔ اللہ کی مخلوق ہونے کے اعتبار سے تمام جاندار برابر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی صلاحیتوں اور ان کی زندگی کے مقاصد کے حوالے سے بعض مخلوقات کو دوسری مخلوقات پر فوقیت دی ہے۔ اس لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اسے سوچنے سمجھنے، غور وفکر کرنے اور اس کے نتیجے میں صحیح بات تک پہنچنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے جبکہ حیوانات اور حشرات الارض وغیرہ اس صلاحیت سے محروم ہیں۔ حیوانات کو جن مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے حواس کی راہنمائی کافی ہے۔ انھیں غور و فکر کرنے اور سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تمام حیوانات کو انسان کی تحویل میں دیا گیا ہے۔ وہ اپنی اپنی حیثیت میں انسان کی چاکری کر رہے ہیں اور اس چاکری کے لیے غور وفکر کی نہیں مکمل اطاعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہر حیوان کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ زود یابدیر اپنے مالک کی اطاعت کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ لیکن انسان کو جس قسم کی زندگی اور زندگی کے مقاصد عطا کیے گئے ہیں، ان کی قبولیت اور ادائیگی کے لیے انسان کو غور وفکر کی صلاحیت یعنی عقل اور ضمیر کا نور عطا کیا گیا ہے۔ حیوان سے اس کا مالک جو کام بھی لینا چاہتا ہے، وہ بالجبر اور طاقت کے زور سے لے لیتا ہے۔ لیکن انسان کوفی الجملہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے آزادی سے اور سوچ سمجھ کر کرے۔ اس لحاظ سے آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق سوچنے اور غور وفکر کرنے کا ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان اپنی زندگی کا مقصدکھانا، پینا اور اپنی خواہشات کو پورا کرنا بنالے اور انسانی اقدار اور انسانی مقاصد پر غور و فکر کرنے کے لیے کبھی تیا رنہ ہو تو اس میں اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ زندگی کی بقا کے لیے جس طرح کی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں یعنی اسے غذا چاہیے، آرام چاہیے، گھر کی چھت چاہیے اور اپنے ارادے کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت چاہیے۔ یہی بنیادی چیزیں کم وبیش معیار کے فرق کے ساتھ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں، موسم کی شدت سے بچتے ہیں، مکان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک بھٹ بنا لیتے ہیں۔ انسان اپنی ضرورتیں بہتر اور خوبصورت انداز میں پوری کرتا ہے اور حیوان نہائیت سادگی کے ساتھ۔ انسان ایک سادہ چیز کو اپنی ذہانت سے کچھ سے کچھ شکل دے لیتا ہے اور لطف ولذت میں اسے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ حیوان ان باتوں سے محروم ہے، لیکن بنیادی ضرورتیں وہ بھی بہرحال پوری کرتا ہے۔ اگر انسان اسی حد تک محدود رہتا تو یقینا حیوان میں اور اس میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ وہ انسانیت کی صف میں اس وقت شامل ہوتا ہے جب وہ اپنی عقل کو استعمال کرتا ہے اور عقل سے کام لے کر ان صداقتوں کو قبول کرلیتا ہے جن کا عقل سلیم مطالبہ کرتی ہے اور زندگی کی ان وادیوں میں جہاں عقل کام نہیں دیتی وہ وحی الہٰی کو قبول کرلیتا ہے کیونکہ اس کی عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ ہماری زندگی جن دوائر میں پھیلی ہوئی ہے ان کا تعلق صرف محسوسات اور معقولات تک ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ہماری زندگی کے رشتے مابعد الطبیعات سے بھی ہیں اور عالم غیب سے بھی۔ اس آیت میں پروردگار اس بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ کافر جب پیغمبر کی دعوت پر کان نہیں دھرتا جبکہ پیغمبر کی دعوت عقل کا تقاضا ہے اور اس کی دعوت کی ہر بات عقل اور فطرت کے ترازو میں تل کر نکلتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سوچنے سمجھتے اور غور و فکر کرنے سے انکار کردیا ہے اور یہ ایک ایسا رویہ ہے جو حیوان کا تو ہوسکتا ہے انسان کا نہیں ہوسکتا۔ اگر معاملہ یہیں تک ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ایک قدم آگے ہے۔ حیوان کا مالک انسان ہے اور جس انسان کے تصرف میں جس حیوان کو بھی دیا گیا ہے، آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اس حیوان نے اپنے مالک کو پہچاننے میں غلطی کی ہو یا اس کی اطاعت کرنے سے اس نے انکار کیا ہو۔ باربرداری کے جانور اپنے مالک کے لیے باربرداری کا فرض انجام دیتے ہیں۔ سواری کے جانور اپنے مالک کا بوجھ اٹھانے سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ ہل جوتنے والے اور فصل کاشت کرنے والے بیل کبھی اس خدمت سے پہلو تہی نہیں کرتے۔ لیکن انسان کو جن مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے، ان مقاصد سے اس کا انحراف جب خطرناک حدود کو چھونے لگتا ہے تو تب اللہ کے نبی تشریف لاتے ہیں اور اللہ کی جانب سے کتابیں اترتی ہیں۔ لیکن جو شخص اللہ کے نبی کی بات کو سننے اور اللہ کی کتاب کو پڑھنے سے انکار کردے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حیوانیت کی سطح سے بھی گرگیا ہے کیونکہ اگر اس میں حیوانیت بھی بدرجہ کمال ہوتی تو وہ اپنے مالک، محسن اور مربی کی پہچان میں کبھی غلطی نہ کرتا۔ وہ اپنے رزق دینے والے کو ضرور پہچانتا اور یہی بنیادی باتیں اسے اللہ کے نبی کے دین کو قبول کرنے پر آمادہ کردیتیں۔ لیکن جو شخص ان باتوں کو قبول کرنا تو دور کی بات ہے اللہ کے نبی کی دشمنی پر تل جاتا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس کی دعوت کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ایسا شخص بدترینِ خلائق ہے کیونکہ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا اس سبب سے نہیں ہے کہ اسے کوئی سرخاب کے پر لگے ہیں یا وہ بڑی سے بڑی مخلوق سے زیادہ طاقتور ہے یا اس کے جسم میں دوسری مخلوقات کی نسبت کوئی غیر معمولی چیز پائی جاتی ہے۔ اس کے اشرف ہونے کی تو ایک ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقاصدِ حیات کی بجاآوری اور اس کے لیے محنت اور قربانی کرنے میں سب سے عظیم واقع ہوا ہے۔ لیکن اگر وہ پست ترین مقاصد کا شکا رہوکر حیوانیت کی سطح پر اتر جاتا ہے تو وہ یقینا اپنی شرافت کھو دیتا ہے۔ جگر نے بالکل ٹھیک کہا : گرے اگر تو بس ایک مشت خاک ہے انساں بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے انسان جب راہ راست اختیار کرتا ہے تو وہ اقدارِ انسانی اور مکارمِ اخلاق کو اپنے عمل کی صورت میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ فرشتے اس کے دامن میں نماز پڑھنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ ظلم کا راستہ روکنے کے لیے بڑے سے بڑے ظالم سے ٹکرا جاتا ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ خود چیتھڑوں میں لپٹ کر دوسروں کی تن پوشی کا سامان کرتا ہے۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے سر کٹوانا اور خون بہانا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتا ہے۔ لیکن جب وہ بگڑتا ہے اور حیوانیت کی سطح پر اترتا ہے تو اس کا ظلم درندوں کی درندگی کو شکست دے دیتا ہے۔ اس کا دجل و فریب لومڑی کی مکاری کو ماند کردیتا ہے۔ بھیڑیا ظلم کی ایک مثال سمجھا جاتا ہے، لیکن آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ بھیڑیوں نے مل کر کوئی فوج تیار کی ہو تاکہ وہ انسانوں کی بستیاں اجاڑیں۔ چیتا بڑا ظالم جانور ہے لیکن اس کا ظلم ایک انسان کا خون پی کر اپنی نیند سو جاتا ہے۔ لیکن انسان جب درندگی پر اترتا ہے تو وہ ایسے تباہ کن آلات تیار کرتا ہے جن سے وہ ایک لمحے میں آباد اور بستے ہوئے شہروں کو جہنم میں تبدیل کردیتا ہے۔ انسان کا بنایا ہوا ایک بم ایک لمحے میں شہروں کو صفحہ ہستی سے غائب کرسکتا ہے۔ کل تک ہیروشیما اور ناگاسا کی ایسے ہی انسانی کمالات کی بولتی ہوئی مثالیں تھیں لیکن آج کے مہذب انسان کو اگر اس کے اصل روپ میں دیکھنا ہو تو عراق، افغانستان، چیچینیا، کشمیر اور فلسطین میں دیکھ لیجئے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جو لوگ اللہ کو اپنا خالق ومالک ماننے اور نبی کی دعوت پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں وہ صرف حیوان ہی نہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر ہیں “۔ شَرَّالدَّ وَآبِّ کی ایک مثال دوسری آیت کریمہ میں ایسے انسان جو حیوانوں سے بھی بدتر ہیں ان کی ایک مثال دی ہے۔ نام اگرچہ نہیں لیا گیا لیکن آنحضرت ﷺ کی معاصر تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس سے مراد مدینہ کے یہود اور گردوپیش کے وہ قبائل ہیں جن سے آنحضرت ﷺ نے بقائے باہمی کے معاہدے کیے تھے۔ آپ نے مدینہ طیبہ پہنچ کر مسلمانوں کی معاشرت کی ابتدا کرتے ہوئے ان میں مواخات قائم فرمائی اور مدینہ کے ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے آپ نے یہود اور باہر کے قبیلوں سے ایک معاہدہ کیا جسے ” میثاقِ مدینہ “ کہتے تھے۔ اس میثاق کی رو سے یہود اور پڑوسی قبائل اس بات کے پابند تھے کہ وہ مسلمانوں کے دشمن کی مدد نہ کریں اور مدینہ پر حملہ کی صورت میں مدینہ کے دفاع کے لیے مسلمانوں کی مدد کریں۔ لیکن ان کی حیوانیت کا عالم یہ ہے کہ جب بھی انھیں موقعہ ملتاتو وہ معاہدے کی پرواہ کیے بغیر قریش کی درپردہ مدد کرنے کی کوشش کرتے۔ قریش کو مسلمانوں کے حالات کے بارے میں اطلاعات دیتے رہتے بلکہ بنو نضیر کا سردار کعب بن اشرف تو وقتاً فوقتاً قریش کو اکساتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب قریش کو رسوا کن ہزیمت سے رسو اہونا پڑاتو قریش پر جو مصیبت گزری سو گزری کعب بن اشرف نے ان سے بڑھ کر محسوس کیا اور بےساختہ پکا راٹھا کہ ” اب زمین کی سطح سے زمین کا پیٹ ہمارے لیے بہتر ہے “ یعنی اب زندگی میں کوئی مزہ نہیں اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ چناچہ وہ اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر مکہ معظمہ گیا وہاں قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے اور ان کو اپنے مقتولین کا قصاص لینے کے لیے بہت شدت سے اکسایا۔ ان کی اس معاہدہ شکنی کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یوں تو تمام کافر بھی اپنے رویے کی وجہ سے بدترینِ خلائق ہیں لیکن خصوصاً یہود اور وہ قبائل جو عہد شکنی میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے وہ تو یقینا حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں کیونکہ کافروں میں بھی کچھ نہ کچھ اخلاقی اصول تھے۔ انھیں میں سے یہ بات عربوں میں ہمیشہ مسلّم رہی کہ وہ عہد شکنی کو بہت بڑا عیب سمجھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قبائل کی زندگی میں عہد کی پابندی ایک بہت بڑا سہارا ہے اور اگر یہ سہار اٹوٹ گیا تو اس کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کرتے ہوئے انھیں کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ اہل کتاب ہونے کے باجود نہ آخرت کا خوف تھا اور عرب میں رہنے کے باوجود نہ عہد شکنی کے انجام کی پرواہ تھی۔ ایسے لوگ ظاہر ہے اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے کوئی بھی رعایت کی جائے اس لیے تیسری آیت کریمہ میں ان کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہود کی تاریخ یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر سازشی قوم روئے زمین پر کوئی نہیں۔ کہیں بھی حق اور صداقت کے خلاف کوئی سازش ہو تحقیق سے معلوم ہوگا کہ اس کے پیچھے ڈور ہلانے والے یہود تھے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے فتنے اٹھے ہیں آپ تحقیق کرکے دیکھ لیجئے ہر جگہ آپ کو فتنے کا تانا بانا تیار کرنے والاہمیشہ یہودی ذہن نظر آئے گا۔ فتنے اٹھانا اور سازش کرنا اس میں کوئی قوم ان کی ہمسر نہیں لیکن جہاں تک میدان میں آکر جرأت اور بہادری سے مقابلہ کرنے کا تعلق ہے اس لحاظ سے وہ نہایت بزدل واقع ہوئے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا جارہا ہے کہ یہود خود کھل کر تمہارے مقابلے میں نہیں آئیں گے۔ البتہ ! یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے گروہ کے ساتھ مل کر یا اس کے پردے میں مسلمانوں سے دشمنی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ہو تو پھر آپ لوگوں کو بھی اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ آپ کے اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہے کیونکہ معاہدے کی پابندی اس وقت ضروری ہوتی ہے، جب دونوں فریق اس کی پابندی کریں اور اگر ایک فریق معاہدے کی پرواہ نہیں کرتا تو دوسرے فریق کو بھی اجازت ہے کہ وہ اس معاہدہ شکنی کی دوسرے فریق کو سزا دے۔ چناچہ یہاں یہی فرمایا جارہا ہے کہ اگر آپ یہود کے کچھ افراد کو دوسروں کی مدد کرتے ہوئے ان کی تائید میں لڑتا ہوا پالیں تو آپ ان کا وہ حشر کریں اور ایسی مار ماریں کہ نہ صرف ان کا دماغ درست ہوجائے بلکہ جو ان کے پشت پناہ ہیں اور پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلا رہے ہیں ان کے حواس بھی ٹھکانے لگ جائیں۔ یَذَّکَّرُوْنَ کے دو مفہوم لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ ان پر ایسا زور دار حملہ کیجئے اور ایسی کڑی سزا دیجئے کہ ان کے حواس درست ہوجائیں اور وہ آئندہ کے لیے عہد شکنی کی کبھی جرأت نہ کریں اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ممکن ہے وہ نصیحت قبول کرلیں۔ یعنی ایک طرف تو آپ ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں لیکن ساتھ ہی اگر کبھی ایسا موقعہ مل جائے کہ آپ انھیں نصیحت کرسکتے ہوں تو یہ سوچ کر نصیحت کرنے سے احتراز نہ کریں کہ یہ تو مسلمانوں کے چھپے دشمن ہیں اور ہمیشہ مسلمانوں کے درپے رہتے ہیں اس لیے انھیں نصیحت کرنے کا کیا فائدہ۔ دل و دماغ اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جس طرح بعض انسانوں کے برے اعمال اور حق دشمنی کے باعث ان کی حق سے محرومی کا فیصلہ کردیتا ہے۔ اسی طرح بدترین کافر بھی دین کی طرف رغبت کے باعث اللہ سے رحمت کی امید کرسکتا ہے اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایمان کا فیصلہ فرمادیں۔ اس لیے ایک داعی الی اللہ کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی تبلیغ اور سمجھانے بجھانے کے سلسلے کو کبھی ختم نہ کرے۔ نہ جانے کس وقت کس کی قسمت سنور جائے۔
Top