Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ
: بیشک
شَرَّ
: بدترین
الدَّوَآبِّ
: جانور (جمع)
عِنْدَ اللّٰهِ
: اللہ کے نزدیک
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
كَفَرُوْا
: کفر کیا
فَهُمْ
: سو وہ
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لاتے
بیشک سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کردیا پھر وہ کسی طرح ایمان نہیں لاتے۔
اِنَّ شَرَّالدَّ وَآبِّ عِنْدَاللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ۔ ج اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتَّ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّھُمْ لَایَتَّقُوْنَ ۔ فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِیْ الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ۔ ( الانفال : 55 تا 57) (بےشک سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کردیا پھر وہ کسی طرح ایمان نہیں لاتے۔ (خصوصاً ان میں سے وہ لوگ) جن سے آپ نے معاہدہ کیا ہے پھر وہ ہر مرتبہ اس معاہدے کو توڑ دیتے ہیں اور وہ بالکل نہیں ڈرتے۔ سو اگر آپ پائیں انھیں لڑائی میں تو انھیں ایسی مار ماریں کہ تتر بتر ہوجائیں وہ لوگ جو ان کے پیچھے ہیں امید ہے کہ وہ نصیحت حاصل کریں گے ) شَرَّالدَّ وَآبِّکامفہوم دَ وَآبٌّ، دابّۃٌ کی جمع ہے۔ اس کا لغوی معنی ” زمین پر چلنے پھرنے والا جاندار “ ہے۔ اس لحاظ سے اس میں حیوانات بھی شامل ہیں اور انسان بھی۔ لیکن بالعموم اس کا اطلاق حیوانات پر ہوتا ہے۔ اللہ کی مخلوق ہونے کے اعتبار سے تمام جاندار برابر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی صلاحیتوں اور ان کی زندگی کے مقاصد کے حوالے سے بعض مخلوقات کو دوسری مخلوقات پر فوقیت دی ہے۔ اس لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اسے سوچنے سمجھنے، غور وفکر کرنے اور اس کے نتیجے میں صحیح بات تک پہنچنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے جبکہ حیوانات اور حشرات الارض وغیرہ اس صلاحیت سے محروم ہیں۔ حیوانات کو جن مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے حواس کی راہنمائی کافی ہے۔ انھیں غور و فکر کرنے اور سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تمام حیوانات کو انسان کی تحویل میں دیا گیا ہے۔ وہ اپنی اپنی حیثیت میں انسان کی چاکری کر رہے ہیں اور اس چاکری کے لیے غور وفکر کی نہیں مکمل اطاعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہر حیوان کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ زود یابدیر اپنے مالک کی اطاعت کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ لیکن انسان کو جس قسم کی زندگی اور زندگی کے مقاصد عطا کیے گئے ہیں، ان کی قبولیت اور ادائیگی کے لیے انسان کو غور وفکر کی صلاحیت یعنی عقل اور ضمیر کا نور عطا کیا گیا ہے۔ حیوان سے اس کا مالک جو کام بھی لینا چاہتا ہے، وہ بالجبر اور طاقت کے زور سے لے لیتا ہے۔ لیکن انسان کوفی الجملہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے آزادی سے اور سوچ سمجھ کر کرے۔ اس لحاظ سے آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق سوچنے اور غور وفکر کرنے کا ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان اپنی زندگی کا مقصدکھانا، پینا اور اپنی خواہشات کو پورا کرنا بنالے اور انسانی اقدار اور انسانی مقاصد پر غور و فکر کرنے کے لیے کبھی تیا رنہ ہو تو اس میں اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ زندگی کی بقا کے لیے جس طرح کی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں یعنی اسے غذا چاہیے، آرام چاہیے، گھر کی چھت چاہیے اور اپنے ارادے کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت چاہیے۔ یہی بنیادی چیزیں کم وبیش معیار کے فرق کے ساتھ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں، موسم کی شدت سے بچتے ہیں، مکان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک بھٹ بنا لیتے ہیں۔ انسان اپنی ضرورتیں بہتر اور خوبصورت انداز میں پوری کرتا ہے اور حیوان نہائیت سادگی کے ساتھ۔ انسان ایک سادہ چیز کو اپنی ذہانت سے کچھ سے کچھ شکل دے لیتا ہے اور لطف ولذت میں اسے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ حیوان ان باتوں سے محروم ہے، لیکن بنیادی ضرورتیں وہ بھی بہرحال پوری کرتا ہے۔ اگر انسان اسی حد تک محدود رہتا تو یقینا حیوان میں اور اس میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ وہ انسانیت کی صف میں اس وقت شامل ہوتا ہے جب وہ اپنی عقل کو استعمال کرتا ہے اور عقل سے کام لے کر ان صداقتوں کو قبول کرلیتا ہے جن کا عقل سلیم مطالبہ کرتی ہے اور زندگی کی ان وادیوں میں جہاں عقل کام نہیں دیتی وہ وحی الہٰی کو قبول کرلیتا ہے کیونکہ اس کی عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ ہماری زندگی جن دوائر میں پھیلی ہوئی ہے ان کا تعلق صرف محسوسات اور معقولات تک ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ہماری زندگی کے رشتے مابعد الطبیعات سے بھی ہیں اور عالم غیب سے بھی۔ اس آیت میں پروردگار اس بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ کافر جب پیغمبر کی دعوت پر کان نہیں دھرتا جبکہ پیغمبر کی دعوت عقل کا تقاضا ہے اور اس کی دعوت کی ہر بات عقل اور فطرت کے ترازو میں تل کر نکلتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سوچنے سمجھتے اور غور و فکر کرنے سے انکار کردیا ہے اور یہ ایک ایسا رویہ ہے جو حیوان کا تو ہوسکتا ہے انسان کا نہیں ہوسکتا۔ اگر معاملہ یہیں تک ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ایک قدم آگے ہے۔ حیوان کا مالک انسان ہے اور جس انسان کے تصرف میں جس حیوان کو بھی دیا گیا ہے، آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اس حیوان نے اپنے مالک کو پہچاننے میں غلطی کی ہو یا اس کی اطاعت کرنے سے اس نے انکار کیا ہو۔ باربرداری کے جانور اپنے مالک کے لیے باربرداری کا فرض انجام دیتے ہیں۔ سواری کے جانور اپنے مالک کا بوجھ اٹھانے سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ ہل جوتنے والے اور فصل کاشت کرنے والے بیل کبھی اس خدمت سے پہلو تہی نہیں کرتے۔ لیکن انسان کو جن مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے، ان مقاصد سے اس کا انحراف جب خطرناک حدود کو چھونے لگتا ہے تو تب اللہ کے نبی تشریف لاتے ہیں اور اللہ کی جانب سے کتابیں اترتی ہیں۔ لیکن جو شخص اللہ کے نبی کی بات کو سننے اور اللہ کی کتاب کو پڑھنے سے انکار کردے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حیوانیت کی سطح سے بھی گرگیا ہے کیونکہ اگر اس میں حیوانیت بھی بدرجہ کمال ہوتی تو وہ اپنے مالک، محسن اور مربی کی پہچان میں کبھی غلطی نہ کرتا۔ وہ اپنے رزق دینے والے کو ضرور پہچانتا اور یہی بنیادی باتیں اسے اللہ کے نبی کے دین کو قبول کرنے پر آمادہ کردیتیں۔ لیکن جو شخص ان باتوں کو قبول کرنا تو دور کی بات ہے اللہ کے نبی کی دشمنی پر تل جاتا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس کی دعوت کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ایسا شخص بدترینِ خلائق ہے کیونکہ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا اس سبب سے نہیں ہے کہ اسے کوئی سرخاب کے پر لگے ہیں یا وہ بڑی سے بڑی مخلوق سے زیادہ طاقتور ہے یا اس کے جسم میں دوسری مخلوقات کی نسبت کوئی غیر معمولی چیز پائی جاتی ہے۔ اس کے اشرف ہونے کی تو ایک ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقاصدِ حیات کی بجاآوری اور اس کے لیے محنت اور قربانی کرنے میں سب سے عظیم واقع ہوا ہے۔ لیکن اگر وہ پست ترین مقاصد کا شکا رہوکر حیوانیت کی سطح پر اتر جاتا ہے تو وہ یقینا اپنی شرافت کھو دیتا ہے۔ جگر نے بالکل ٹھیک کہا : گرے اگر تو بس ایک مشت خاک ہے انساں بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے انسان جب راہ راست اختیار کرتا ہے تو وہ اقدارِ انسانی اور مکارمِ اخلاق کو اپنے عمل کی صورت میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ فرشتے اس کے دامن میں نماز پڑھنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ ظلم کا راستہ روکنے کے لیے بڑے سے بڑے ظالم سے ٹکرا جاتا ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ خود چیتھڑوں میں لپٹ کر دوسروں کی تن پوشی کا سامان کرتا ہے۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے سر کٹوانا اور خون بہانا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتا ہے۔ لیکن جب وہ بگڑتا ہے اور حیوانیت کی سطح پر اترتا ہے تو اس کا ظلم درندوں کی درندگی کو شکست دے دیتا ہے۔ اس کا دجل و فریب لومڑی کی مکاری کو ماند کردیتا ہے۔ بھیڑیا ظلم کی ایک مثال سمجھا جاتا ہے، لیکن آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ بھیڑیوں نے مل کر کوئی فوج تیار کی ہو تاکہ وہ انسانوں کی بستیاں اجاڑیں۔ چیتا بڑا ظالم جانور ہے لیکن اس کا ظلم ایک انسان کا خون پی کر اپنی نیند سو جاتا ہے۔ لیکن انسان جب درندگی پر اترتا ہے تو وہ ایسے تباہ کن آلات تیار کرتا ہے جن سے وہ ایک لمحے میں آباد اور بستے ہوئے شہروں کو جہنم میں تبدیل کردیتا ہے۔ انسان کا بنایا ہوا ایک بم ایک لمحے میں شہروں کو صفحہ ہستی سے غائب کرسکتا ہے۔ کل تک ہیروشیما اور ناگاسا کی ایسے ہی انسانی کمالات کی بولتی ہوئی مثالیں تھیں لیکن آج کے مہذب انسان کو اگر اس کے اصل روپ میں دیکھنا ہو تو عراق، افغانستان، چیچینیا، کشمیر اور فلسطین میں دیکھ لیجئے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جو لوگ اللہ کو اپنا خالق ومالک ماننے اور نبی کی دعوت پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں وہ صرف حیوان ہی نہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر ہیں “۔ شَرَّالدَّ وَآبِّ کی ایک مثال دوسری آیت کریمہ میں ایسے انسان جو حیوانوں سے بھی بدتر ہیں ان کی ایک مثال دی ہے۔ نام اگرچہ نہیں لیا گیا لیکن آنحضرت ﷺ کی معاصر تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس سے مراد مدینہ کے یہود اور گردوپیش کے وہ قبائل ہیں جن سے آنحضرت ﷺ نے بقائے باہمی کے معاہدے کیے تھے۔ آپ نے مدینہ طیبہ پہنچ کر مسلمانوں کی معاشرت کی ابتدا کرتے ہوئے ان میں مواخات قائم فرمائی اور مدینہ کے ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے آپ نے یہود اور باہر کے قبیلوں سے ایک معاہدہ کیا جسے ” میثاقِ مدینہ “ کہتے تھے۔ اس میثاق کی رو سے یہود اور پڑوسی قبائل اس بات کے پابند تھے کہ وہ مسلمانوں کے دشمن کی مدد نہ کریں اور مدینہ پر حملہ کی صورت میں مدینہ کے دفاع کے لیے مسلمانوں کی مدد کریں۔ لیکن ان کی حیوانیت کا عالم یہ ہے کہ جب بھی انھیں موقعہ ملتاتو وہ معاہدے کی پرواہ کیے بغیر قریش کی درپردہ مدد کرنے کی کوشش کرتے۔ قریش کو مسلمانوں کے حالات کے بارے میں اطلاعات دیتے رہتے بلکہ بنو نضیر کا سردار کعب بن اشرف تو وقتاً فوقتاً قریش کو اکساتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب قریش کو رسوا کن ہزیمت سے رسو اہونا پڑاتو قریش پر جو مصیبت گزری سو گزری کعب بن اشرف نے ان سے بڑھ کر محسوس کیا اور بےساختہ پکا راٹھا کہ ” اب زمین کی سطح سے زمین کا پیٹ ہمارے لیے بہتر ہے “ یعنی اب زندگی میں کوئی مزہ نہیں اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ چناچہ وہ اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر مکہ معظمہ گیا وہاں قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے اور ان کو اپنے مقتولین کا قصاص لینے کے لیے بہت شدت سے اکسایا۔ ان کی اس معاہدہ شکنی کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یوں تو تمام کافر بھی اپنے رویے کی وجہ سے بدترینِ خلائق ہیں لیکن خصوصاً یہود اور وہ قبائل جو عہد شکنی میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے وہ تو یقینا حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں کیونکہ کافروں میں بھی کچھ نہ کچھ اخلاقی اصول تھے۔ انھیں میں سے یہ بات عربوں میں ہمیشہ مسلّم رہی کہ وہ عہد شکنی کو بہت بڑا عیب سمجھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قبائل کی زندگی میں عہد کی پابندی ایک بہت بڑا سہارا ہے اور اگر یہ سہار اٹوٹ گیا تو اس کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کرتے ہوئے انھیں کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ اہل کتاب ہونے کے باجود نہ آخرت کا خوف تھا اور عرب میں رہنے کے باوجود نہ عہد شکنی کے انجام کی پرواہ تھی۔ ایسے لوگ ظاہر ہے اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے کوئی بھی رعایت کی جائے اس لیے تیسری آیت کریمہ میں ان کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہود کی تاریخ یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر سازشی قوم روئے زمین پر کوئی نہیں۔ کہیں بھی حق اور صداقت کے خلاف کوئی سازش ہو تحقیق سے معلوم ہوگا کہ اس کے پیچھے ڈور ہلانے والے یہود تھے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے فتنے اٹھے ہیں آپ تحقیق کرکے دیکھ لیجئے ہر جگہ آپ کو فتنے کا تانا بانا تیار کرنے والاہمیشہ یہودی ذہن نظر آئے گا۔ فتنے اٹھانا اور سازش کرنا اس میں کوئی قوم ان کی ہمسر نہیں لیکن جہاں تک میدان میں آکر جرأت اور بہادری سے مقابلہ کرنے کا تعلق ہے اس لحاظ سے وہ نہایت بزدل واقع ہوئے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا جارہا ہے کہ یہود خود کھل کر تمہارے مقابلے میں نہیں آئیں گے۔ البتہ ! یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے گروہ کے ساتھ مل کر یا اس کے پردے میں مسلمانوں سے دشمنی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ہو تو پھر آپ لوگوں کو بھی اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ آپ کے اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہے کیونکہ معاہدے کی پابندی اس وقت ضروری ہوتی ہے، جب دونوں فریق اس کی پابندی کریں اور اگر ایک فریق معاہدے کی پرواہ نہیں کرتا تو دوسرے فریق کو بھی اجازت ہے کہ وہ اس معاہدہ شکنی کی دوسرے فریق کو سزا دے۔ چناچہ یہاں یہی فرمایا جارہا ہے کہ اگر آپ یہود کے کچھ افراد کو دوسروں کی مدد کرتے ہوئے ان کی تائید میں لڑتا ہوا پالیں تو آپ ان کا وہ حشر کریں اور ایسی مار ماریں کہ نہ صرف ان کا دماغ درست ہوجائے بلکہ جو ان کے پشت پناہ ہیں اور پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلا رہے ہیں ان کے حواس بھی ٹھکانے لگ جائیں۔ یَذَّکَّرُوْنَ کے دو مفہوم لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ ان پر ایسا زور دار حملہ کیجئے اور ایسی کڑی سزا دیجئے کہ ان کے حواس درست ہوجائیں اور وہ آئندہ کے لیے عہد شکنی کی کبھی جرأت نہ کریں اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ممکن ہے وہ نصیحت قبول کرلیں۔ یعنی ایک طرف تو آپ ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں لیکن ساتھ ہی اگر کبھی ایسا موقعہ مل جائے کہ آپ انھیں نصیحت کرسکتے ہوں تو یہ سوچ کر نصیحت کرنے سے احتراز نہ کریں کہ یہ تو مسلمانوں کے چھپے دشمن ہیں اور ہمیشہ مسلمانوں کے درپے رہتے ہیں اس لیے انھیں نصیحت کرنے کا کیا فائدہ۔ دل و دماغ اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جس طرح بعض انسانوں کے برے اعمال اور حق دشمنی کے باعث ان کی حق سے محرومی کا فیصلہ کردیتا ہے۔ اسی طرح بدترین کافر بھی دین کی طرف رغبت کے باعث اللہ سے رحمت کی امید کرسکتا ہے اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایمان کا فیصلہ فرمادیں۔ اس لیے ایک داعی الی اللہ کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی تبلیغ اور سمجھانے بجھانے کے سلسلے کو کبھی ختم نہ کرے۔ نہ جانے کس وقت کس کی قسمت سنور جائے۔
Top