Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بیشک اللہ کے نزدیک مخلوق میں بدترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور وہ ایمان نہیں لاتے ہیں۔
آیات : 55 تا 59 لغات القرآن۔ عاھدت۔ تو نے معاہدہ کیا۔ ینقضون۔ وہ توڑتے ہیں۔ لا یتقون۔ وہ ڈر نہیں رکھتے۔ تثقفنھم۔ تو ان کو پائے۔ الحرب۔ جنگ۔ شرد۔ تو بھگا دے۔ تو سزا دے ان کو ۔ خلفھم۔ ل جو ان کے پیچھے ہیں۔ تخافن۔ تجھے ڈر ہو۔ خوف ہو۔ خیانۃ۔ بےایمانی۔ بددیانتی۔ انبذ۔ پھینک دے۔ سواء۔ برابری۔ لا یحب۔ پسند نہیں کرتا۔ الخائنین۔ خیانت کرنے والے۔ لا یحسبب۔ وہ گمان نہ کریں۔ وہ نہ سمجھیں۔ سبقوا۔ وہ آگے بڑھ گئے۔ وہ بچ گئے۔ لا یعجزون۔ وہ عاجز و بےبس نہیں کرسکتے۔ تشریح : سورۃ الانفال میں نہ صرف ان اصولوں کو پیش کیا گیا ہے جو میدان جنگ میں لڑنے سے متعلق ہیں بلکہ ان اصولوں اور قوانین کو بھی بہت زور دار انداز میں پیش کیا گیا ہے جو چیزیں جنگ کو جنم دیتی ہیں یا جنگ کو روک دیتی ہیں۔ ہم دوسروں کے ساتھ، اللہ کے دشمنوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو لوگ عہد کرنے کے باوجود اس کو توڑ دیتے ہیں ان کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کریں ان باتوں کو ان آیتوں میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ (1) وہ لوگ اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ بدترین ہیں جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ (2) جو اہل ایمان سے معاہدہ کرنے کے بعد ہر مرتبہ توڑ دینے کے عادی ہیں اور وہ اس کے برے انجام سے نہیں ڈرتے۔ ان آیات میں مدینہ کے یہودی قبائل بنو قریظہ اور بنو نضیر سے متعلق پھر ارشاد ہے اور مکہ کے ان کفار کی طرف بھی واضح اشارہ ہے جنہوں نے معاہدہ کرکے اس کو توڑ دیا تھا۔ ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے یہودی قبائل سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اختلاف رائے کیوقت رسول اللہ ﷺ کیا فصلہ سب کے لئے واجب التعمیل ہوگا۔ اور حملہ کے وقت مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی کسی اعتبار سے بھی کوئی امداد نہ کریں گے۔ مگر ان یہودیوں نے غزوہ بدر کے موقع پر اور خاص طور پر غزوہ احد کے موقع پر نہ صرف اس معاہدہ کیخلاف ورزی کی بلکہبوض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف نے خود مکہ جا کر اور مشرکین مکہ کو جوش دلا کر اپنی حمایت کا یقین دلایا اور ان کو جنگ احد میں لا کھڑا کیا۔ ۔ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نیاہل ایمان کو قیامت تک ایسے لوگوں کے متعلق احکامات عنایت فرمائے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ چناچہ فرمایا گیا کہ۔ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا معاہدہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ دشمن کی مدد کرتی ہے یا اہل ایمان کے خلاف جنگ میں حصہ لیتی ہے تو ایسی قوم کے ساتھ بھی دشمنوں جیسا معاملہ کیا جائے ۔ اور اس کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ پھر وہ اپنی بد نیتی پر حسرت و افسوس ہی کرتی رہ جائے۔ (2) اگر کسی قوم سے معاہدہ ہے لیکن اس کے باوجود اس کے چند افراد دشمنوں کی مدد کرتے ہیں یا اہل ایمان کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے ہیں تو فرمایا کہ پھر ان چند افراد کی قوم کے خلاف نہیں بلکہ ان ہی افراد کے خلاف کاروائی کر کے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ (3) فرمایا گیا کہ اگر کسی قوم سے معاہدہ ہے اور اس کے طور، طریق دیکھ کر اہل ایمان کو خطرہ پیدا ہوجائے کہ یہ قوم معاہدہ کی پابندنہ رہے گی بلکہ عین وقت پر دغا دے جائے گی تو اہل ایمان کو حق حاصل ہے کہ پوری قوم کو پیشگی نوٹس دے کر اس کا معاہدہ واپس کردیں۔ لیکن معاہدہ واپس کرنے کے بعد ان کے خلاف کسی کاروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس بنیادی پر نبی کریم ﷺ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ کوئی قوم معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ” عہد کا بند “ نہ کھولے۔ اگر وہ خیانت پر اتر آئیں تو ان کو برابری کی بنیاد پر جواب دیا جائے۔ (4) اگر فریق ثانی اعلیٰ الاعلان معاہدہ توڑ چکا ہے اور مسلمانوں کے خلاف کاروائی کا مجرم ہے تو پھر اس کے خلاف بغیر کسی نوٹس کے بھی کاروائی کی جاسکتی ہے۔ یہ اشارہ قریش مکہ کی طرف ہے جنہوں نے معاہدہ کے باوجود مدینہ کے یہودیوں سے ساز باز کی اور صلح حدیبیہ کے معاہدوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ پھر اللہ نے مکہ مکرمہ کو فتح کرادیا۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ لوگ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو وہ کسی خوش گمانی میں نہ رہیں کیونکہ ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوسکتی ہے۔ اور واقعتا مکہ کے کفار کو معاہدہ کی خلاف ورزی بہت مہنگی پڑی اور انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنی موت کی دعوت دے ڈالی اور مکہ فتح ہو کردیا۔
Top