Ashraf-ul-Hawashi - An-Najm : 44
وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْ١ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ١ؕ وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب زَيَّنَ : خوشنما کردیا لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے کام وَقَالَ : اور کہا لَا غَالِبَ : کوئی غالب نہیں لَكُمُ : تمہارے لیے (تم پر) الْيَوْمَ : آج مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَاِنِّىْ : اور بیشک میں جَارٌ : رفیق لَّكُمْ : تمہارا فَلَمَّا : پھر جب تَرَآءَتِ : آمنے سامنے ہوئے الْفِئَتٰنِ : دونوں لشکر نَكَصَ : الٹا پھر گیا وہ عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیا وَقَالَ : اور بولا اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : جدا، لاتعلق مِّنْكُمْ : تم سے اِنِّىْٓ : میں بیشک اَرٰي : دیکھتا ہوں مَا : جو لَا تَرَوْنَ : تم نہیں دیکھتے اِنِّىْٓ : میں بیشک اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور (ائے پیغمبر وہ وقت یاد کر) جب شیطان ان کافروں کے کاموں کو ان کی نظر میں بھلا دکھلانے لگا اور کہنے لگا آج کے دن تو لوگوں میں ایسا کوئی نہیں جو تم پر غالب آئے اور میں تمہاری کمک پر ہوں5 جب دونوں فوجیں مسلمانوں کی اور قریش کے کافروں کی آمنے سامنے ہوئیں تو الٹے پاؤں چل دیا اور کہنے لگا میں تم سے الگ ہوں6 میں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے7 میں اللہ تعالیٰ سے درتا ہوں8 اور اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے
5 یعنی ان کے ذہنوں یہ غرور بھر دیا، فالقول مجاز عن الو سو ستہ ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ قریش اور بنو کنانہ میں سخت دشمنی تھی جب قریش مسلمانوں سے مقابلہ کے لیے نکلے تو انہیں ڈرہوا کہ کہیں پیچھے سے بنو کنا ہم پر حملہ نہ کردیں اس وقت شیطان بنو کنانہ کے ایک سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں ان کے ساتھ شریک ہوگیا اور اپنے ساتھ ایک جھنڈا اور شیطا نوں کا ایک لشکر بھی لے آیا۔ اسی وقت قریش سے اس نے وہ بات کہی جو اس آیت میں مذکور ہے ( ابن کثیر) واضح رہے کہ شیطان کا انسانی شکل میں آنان مستبعدا نہیں فالقول علی مضاۃ ا حقیقی۔ 7 یعنی سب کچھ بھول گیا اور بھاگ نکلا۔7 یعنی مجھے وہ فرشتے نظر آنے لگے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے ہیں اور تمہیں نظر نہیں آرہے،8 صرف اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے یہ بہانہ بنایا ورنہ اس مردود کو اللہ تعالیٰ کا ڈر کہاں تھا َ ؟ ( از وحیدی) حدیث میں ہے کہ عرنہ کے دن جب شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور بڑے بڑے گناہوں کی اس کی طرف سے معافی کو دیکھتا ہے تو اس کی ذات کی انتہا نہیں رہتی لیکن بدر کے دن جب اس نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ فرشتوں کی صفو کی تر تیب دے رہے ہیں تو عرفہ کے دن سے بھی زیادہ ذلیل نظر آنے لگا۔ ( مو طہ )
Top