Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 48
وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْ١ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ١ؕ وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب زَيَّنَ : خوشنما کردیا لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے کام وَقَالَ : اور کہا لَا غَالِبَ : کوئی غالب نہیں لَكُمُ : تمہارے لیے (تم پر) الْيَوْمَ : آج مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَاِنِّىْ : اور بیشک میں جَارٌ : رفیق لَّكُمْ : تمہارا فَلَمَّا : پھر جب تَرَآءَتِ : آمنے سامنے ہوئے الْفِئَتٰنِ : دونوں لشکر نَكَصَ : الٹا پھر گیا وہ عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیا وَقَالَ : اور بولا اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : جدا، لاتعلق مِّنْكُمْ : تم سے اِنِّىْٓ : میں بیشک اَرٰي : دیکھتا ہوں مَا : جو لَا تَرَوْنَ : تم نہیں دیکھتے اِنِّىْٓ : میں بیشک اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کو دکھائے اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہ ہوگا اور میں تمہارا رفیق ہوں (لیکن) جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل (صف آرا) ہوگئیں تو پسپا ہو کر چل دیا۔ اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں تو ایسی چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔ مجھے تو خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا سخت عذاب کرنیوالا ہے۔
واذزین لھم الشیطٰن اعمالھم (الآیة) ابن جریر نے حضرت عنداللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ جب قریش مکہ کا لشکر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے مکہ سے روانہ ہوا تو ان کے دلوں پر ایک خطرہ اس کا سوار تھا کہ ہمارے قریب میں قبیلہ بنو بکر بھی ہمارا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ ہم مسلمانوں کے مقابلہ میں جائیں اور یہ دشمن قبیلہ موقع پا کر ہمارے گھروں، عورتوں، بچوں پر چھاپہ مار دے تو اچانک شیطان سراقہ بن مالک کی صورت میں اس طرح سامنے آیا کہ اس کے ہاتھ میں جھنڈا اور اس کے ساتھ ایک دستہ بہادر فوج کا ہے سراقہ اس علاقہ اور قبیلہ کا بڑا سردار تھا جس سے حملہ کا خطرہ تھا، شیطان نے آگے بڑھ کر قریشی جوانوں کے لشکر سے خطاب کیا اور دو طرح سے فریب میں مبتلا کردیا اول لا غالب لکم الیوم من الناس یعنی آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اسلئے کہ مجھے دونوں فریقوں کی قوت کا اندازہ ہے، اس لئے تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم ہی غالب رہو گے اور دوسری یہ بات کہی کہ انی جارلکم، یعنی تم کو بنی بکر کی جانب سے جو خطرہ لاحق ہے میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ ایسے نہ ہوگا میں تمہارا حامی ہوں، شیطان نے اس ترکیب سے مشرکین مکہ کو ان کے مقتل کی طرف دھکیل دیا۔ غزوہ بدر میں چونکہ قریشی لشکر کی پشت پناہی کے لئے ایک شیطانی لشکر بھی آگیا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلہ میں فرشتوں کا ایک لشکر جبرئیل و مکائیل کی قیادت میں بھیج دیا، مگر جب شیطان نے جو سراقہ بن مالک کی شکل میں تھا، جبرئیل امین اور ان کے ساتھ فرشتوں کا لشکر دیکھا تو گھبرا اٹھا اس وقت اس کا ہاتھ ایک قریشی جوان حارث بن ہشام کے ہاتھ میں تھا فورًا اس سے ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہا حارث نے کہا یہ کیا کرتے ہو ؟ اس نے سینہ پر کار کر حارث کو گرادیا اور شیطانی لشکر کو لیکر بھاگ کھڑا ہوا، حارث نے اسے سراقہ سمجھتے ہوئے کہا کہ اے عرب کے سردار سراقہ ! تو نے تو کہا تھا کہ میں تمہارا حامی اور مددگار ہوں اور عین میدان جنگ میں یہ حرکت کر رہے ہو تو شیطان نے جواب دیا '' اِنی بری منکم اِنّی اری مالا ترون انی اخاف اللہ '' یعنی میں تمہارے معایدہ سے بری ہوں کیونکہ میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے (مراد فرشتوں کا لشکر تھا) شیطان کی پسپائی کے بعد مشرکین مکہ کا جو حشر ہونا تھا ہوگیا، جب باقی لوگ مکہ پہنچے تو ان میں سے کسی کی ملاقات سراقہ بن مالک سے ہوئی تو اس نے سراقہ کو ملامت کی کہ جنگ بدر میں ہماری شکست اور سارے نقصان کی ذمہ داری تجھ پر ہے تو نے عین میدان جنگ میں پسپا ہو کر ہمارے جوانوں کی ہمت توڑی اس نے کہا میں نہ تمہارے ساتھ گیا تھا اور نہ تمہارے کسی کام میں شریک ہوا (یہ سب روایتیں ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہیں) ۔
Top