بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Ar-Ra'd : 1
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
الٓمٓر۔ یہ کتاب (الٰہی) کی آیات ہیں اور جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے بالکل سچ ہے و لیکن بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے
سورة الرعد : رکوع نمبر 1 : اسرارومعارف : (آیت) ” الم ، تلک ایت الکتب۔ 1 تا 7 ۔ یہ سورة مبارکہ بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے اور سورة یوسف کے آخر کا مضمون یعنی توحید باری کا ثبوت اور نبوت کی حقانیت ہی کے دلائل کا تسلسل ہے کہ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ مضامین ایک بےمثال کتاب میں ہیں جو اللہ کا ذاتی کلام ہے اور جو بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا انسانی بس میں نہیں اور جو کچھ اس میں فرمایا گیا ہے ، انسان کبھی اسے غلط ثابت نہیں کرسکتا اگرچہ اس میں دنیاوی امور کے بارے افزائش کے مسائل اور صورتیں سیاسیات ، اخلاقیات اور معاشیات تک بیان کی گئی ہیں واقعات عالم کے بارے پیشگویاں جو پوری اتری ہیں تو اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو الہیات اور آخرت کے بارے اس کے ارشادات کو نہ ماننے کوئی وجہ نہیں یہ تو خود اللہ کا ذاتی کلام ہے ۔ (حدیث رسول ﷺ بھی منزل من اللہ ہوتی ہے) آپ جو کچھ بھی دین کے بارے یا ذات صفات باری کے متعلق یا آخرت اور عذاب وثواب کی بات ارشاد فرماتے ہیں وہ بھی آپ اپنی رائے سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے چیلنج نہیں کرسکتا ، نہ ان میں کبھی کوئی بات غلط ثابت کرسکتا ہے تو اس سے ثابت ہے کہ حدیث رسول ﷺ بھی اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے اور اس پر ایمان ایسا ہی ضروری ہے جیسا قرآن حکیم پر فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اس لیے اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور حدیث میں معانی اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں مگر الفاظ رسول اللہ ﷺ کے لہذا اس کی تلاوت نماز وغیرہ میں نہیں کی جاتی لہذا آپ ﷺ کے ارشادات بھی منزل من اللہ ہونے کے باعث حق ہیں لیکن لوگوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس کے باوجود اکثریت انکار کئے بیٹھی ہے اور دولت ایمان سے محروم ہے ۔ اگر اللہ نبی ارسال نہ فرماتا اور کتاب بھی نازل نہ ہوتی تو بھی اس قدر دلائل نظام عالم میں موجود تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پر ایمان لانا انسان کا فریضہ ثابت ہوتا ہے ، اے انسان ذرا دیکھ اس کی قدرت کاملہ کو کہ جس آسمان کو تو دیکھتا ہے اسے اللہ جل جلالہ نے بغیر کسی ستون ، دیوار یا مدد کے تمام سیاروں کے گرد قائم فرما دیا ہے ۔ (فلاسفہ کے اقوال آسمان کے بارے) فلاسفہ کا خیال ہے کہ یہ نیلگوں نظر آنے والا آسمان نہیں بلکہ فضا میں جہاں انسانی نگاہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہاں اسے نیلگوں سی روشنی نظر آتی ہے مگر اس بات سے فلاسفہ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ شاید اس روشنی میں آسمان کی جھلک بھی موجود ہو اور اس کا رنگ بھی ایسا ہی نظر آتا ہو ، یہاں ارشاد ہے یہ آسمان ہے جیسے تم دیکھتے ہو اور پھر اس نے عرش کو تخت سلطنت اور نظام عالم کے چلانے کا مرکز قرار دے دیا یہ خیال کہ اللہ عرش پر تشریف فرما ہے درست نہیں اس کی ذات حدود سے بالاتر ہے اور اگر عرش پر بیٹھنا مانا جائے تو ایک حد تو مقرر ہوگئی جو ناجائز ہے ہاں اپنی شان کے مطابق وہاں جلوہ فگن ہے کہ تمام نظام عالم کو چلانے کا مرکز عرش کو قرار دے دیا ہے پھر اسی نے سورج چاند یعنی نظام شمسی کو ایک فریضہ ادا کرنے پر پابند کردیا کہ اربوں ، کھربوں سالوں سے ایک خاص رفتار پر ایک خاص راستے پر ایک مقررہ انداز سے چل کر خدمت انجام دے رہے ہیں اور پورا نظام عالم ان سے اثر پذیر ہے ، اگر ان کی رفتار یا روشنی اور قوت کی مقدار میں عدم توازن آجائے ، انسانی زندگی اور نسل تک متاثر ہو مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ (تقدیر اور تدبیر) وہی ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے انسان اگرچہ اسباب کو اختیار کرنے کا مکلف ہے اور ناجائز ذرائع کے مقابل جائز اور حلال ذرائع اختیار کرنا ہی اسے زیب دیتا ہے مگر یہ اسباب وذرائع موثر بالذات نہیں ہوتے بلکہ ان میں اثر پیدا کرنا اور ان سے نتیجہ برآمد کرنا یہ اللہ جل جلالہ کا کام ہے اور ہی نظام عالم کے تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے اور بیشمار دلائل نظام عالم میں بھی اس نے نہایت تفصیل کے ساتھ سمو دیئے ہیں کہ ان سب سے سبق حاصل کرکے انسان یہ یقین کرسکے کہ اسے اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے کہ جب نظام عالم کے ہر کام کا ایک انجام ہے تو حیات انسانی کا باقی یقینا نیک انجام ہوگا اس کی قدرت کاملہ کو دیکھو کے زمین کو بچھا دیا اگرچہ کرہ ہے مگر ہر جگہ سے ہر طرف سے بچھونا بنی ہوئی ہے پھر اس پر بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کردیے جو زمین کے توازن قائم رکھنے کی خدمت کے ساتھ اپنی اپنی چوٹیوں پر برف کی صورت میں پانی کا شفاف سمندر لیے کھڑے ہیں اور یوں ان سے دریا ندیاں اور چشمے پھوٹتے ہیں جو زمین سے طرح طرح کی روئیدگی اور بہترین پھلوں کے پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں اور اس نے ہر ہر پھل میں رنگارنگی پیدا کردی ایک ہی شاخ پر لگنے والا پھل کھٹا بھی ہے اور میٹھا بھی نیز پھلوں کی اس قدر اقسام پیدا فرما دیں کہ شمار ناممکن انسانی بس میں نہیں کہ صرف گن ہی لے اور ان میں نرومادہ پیدا فرما دیے کہ نر کے اجزاء مادہ پودے تھا پہنچیں تو پھل دیتا اور ایسا قادر ہے کہ دن کے اجالوں پر رات کی سیاہ چادر ڈال دیتا ہے دن کے باعث الگ نعمتیں تقسیم ہوتی ہیں اور شب کا آنا دوسری طرح کے انعامات بٹنے کا باعث بنتا ہے ان سب امور میں ایسے لوگوں کے لیے جنہوں غور وفکر نصیب ہو بیشمار نشانیاں ہیں ایک ہی قطعہ زمین پر مختلف اور متصل ٹکروں میں الگ الگ قسم کے پھل پھول بہار دے رہے ہیں زمین ایک ہے پانی ایک جیسا دیا جاتا ہے مگر ہر تنکے کے ہاتھ میں الگ قسم کا پھول ہے رنگ الگ بو جدا ذائقہ علیحدہ اور تاثیر اپنی رکھتا ہے یہی حال پھلوں اور اجناس کا ہے کہ ایک ایک کھیت میں ایک ہی پانی سے کس قدر مختلف النواع کھیتاں پیدا فرماتا ہے اور ایک ایک باغ میں کس قدر مختلف النواع پھل کہیں انگوروں کی بہار ہے تو دوسری جگہ کھجور جیسے تناور درخت کھڑے ہیں اور ہر ہر پھل ہر ہر غلے کی تاثیر جدا رکھ دی ہے اگر عقل سلامت ہو تو اللہ جل جلالہ کی عظمت اور قدرت کاملہ کے یہ بہترین گواہ اور اس کی تخلیق کے شاہکار ہیں ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر کفار یہ کہنا کہ بھلا جب ہم مر جائیں گے اور ہمارے ابدان گل سڑ کر مٹی بن جائیں گے تو پھر دوبارہ ہم نئے سرے سے کیسے بنائے جاسکیں گے سب سے عجیب تر یہ ہے کہ ہر آن کائنات میں کس قدر چیزیں فنا ہوتی ہیں اور پھر دوبارہ نئی بن رہی ہیں اس کا شمار ناممکن خود انسانی وجود کی تخلیق میں جو مادہ غذا کے طور پر جسم بنانے کا کام آتا ہے اس کے ذرات دنیا میں دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ کہ ان سب کو یکجا کرکے ایک بدن کی تعمیر پر صرف اسی کی قدرت کاملہ سے ممکن ہے تو مرکر تو بدن کے اجزا اس قدر منتشر بھی نہیں ہو سکتے بھلا جس خالق نے پہلے بنایا اس کے لیے دوبارہ بنانا کیسے دشوار ہو سکتا ہے اور اس بات سے انکار کتنا عجیب ہے ، دراصل یہ اپنے بنانے والے اور اپنے پالنے والے پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور ان کا یہی کفر ان کے گلے کا طوق بنا ہوا ہے ایسے ہی لوگ دوزخ میں رہیں گے اور کفر ایسی مصیبت ہے کہ کافر کو ہمیشہ دوزخ میں رہنا پڑے گا ۔ ذرا ان کی دانشمندی دیکھیں کہ آپ سے ہدایت حاصل کرنے اور استفادہ کرنے سے پہلے عذاب طلب کرتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ رسول برحق ہیں تو جس عذاب سے آپ ﷺ ڈراتے ہیں وہ ہم پر واقع ہوجائے پھر مانیں گے ، بھلا یہ دانشمندی ہے کہ جب عذاب واقع ہوگا تو تمہیں ماننے کی فرصت ہوگی ؟ اور اس کے نمونے پہلے بہت گزر چکے جن میں تباہ شدہ قوموں کے کھنڈر ابھی تک گواہی دینے کے لیے موجود ہیں کہ نبی سے جھگڑا کرنے پر عذاب آتا ہے اور تباہی ہوجاتی ہے پھر اصلاح کا موقع نہیں ملتا ، اور آپ کا رب کتنا کریم ہے کہ لوگ گناہ اور ظلم کرتے رہتے ہیں اور مسلسل معاف فرماتا اور درگذر کرتا ہی رہتا ہے گناہ اور ظلم پر بھی فوری پکڑ نہیں کرتا لیکن ایک حد سے اگر کوئی اس تک جا پہنچے تو پھر اس کے عذاب بھی بڑے سخت اور اس کی گرفت تباہ کن ہوتی ہے ۔ بیشمار معجزات اور معجزانہ کلام اور آپ ﷺ کے عالی اوصاف سب کچھ انہیں قائل کرنے کو کافی نہیں کہ کہتے ہیں بھلا وہ خاص معجزہ جو ہم مانگتے ہیں وہ ان پر کیوں نہیں نازل ہوتا ، حالانکہ آپ ﷺ کی دعوت اللہ جل جلالہ کی طرف ہے اور آپ ﷺ اسی کا قادر مطلق ہونا منواتے ہیں آپ تو اپنی ذات کے بارے یہ دعوی ہی نہیں رکھتے کہ میں جو چاہوں کروں تو پھر یہ مطالبہ آپ سے کیسے درست ہو سکتا ہے آپ جس بات کا دعوی کرتے ہیں اور جو حق ہے وہ یہ ہے کہ آپ اعمال کے ان نتائج سے جو موت کے بعد پیش آئیں گے جب اصلاح کا وقت نہ ہوگا آج آگاہ فرماتے ہیں جب اصلاح کا وقت ہے ۔ (معجزہ اور کرامات) معجزہ تو اللہ جل جلالہ کا فعل ہے اور جب وہ چاہتا ہے اپنی نبی کے ہاتھ پہ ظاہر فرماتا ہے نیز یہی معجزہ جب نبی کا کامل اتباع کرنے والے ولی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے تو کرامت کہلاتا ہے یہ اللہ جل جلالہ کا فعل ہوتا ہے اور نبی کی صداقت کی دلیل بنتا ہے اور ہر ہر قوم میں اللہ جل جلالہ نے ہادی پیدا فرمائے کبھی نبی ورسول اور کبھی ان کے متبعین سے ان کا پیغام پہنچانے کا کام لیا یعنی ہر قوم میں ہدایت کے سامان کے طور پر ایسے افراد ضرور پیدا فرمائے ، جو حق کی طرف بلانے والے تھے نبی یا ان کے ماننے والے تو گویا ہر ہر آبادی میں نبی کا پیدا ہونا ضروری نہیں ، ہاں ہر دور میں اور ہر جگہ کسی نہ کسی طور دعوت الی اللہ کے پہنچانے کا اہتمام ہوتا رہا ۔
Top