بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 1
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے پیشوا (اور) اللہ کے فرمانبردار تھے جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے
(رکوع نمبر 16) اسرارومعارف مشرکین عرب ہوں یا یہود ونصاری ان کا خود کو ابراہیم (علیہ السلام) کا متبع قرار دینا اور ان عقائد و اعمال کے ساتھ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ تو بلاشبہ ایک بہت عظیم پیشوا اور اللہ کریم کے اطاعت گذار بندے تھے ان کا تو کوئی عقیدہ یا عمل خود ساختہ نہ تھا جبکہ تمہارا سارا مذہب ایجاد بندہ ہے اور وہ تو ہرگز شرک نہیں کرتے تھے جس پر تمہارے مذاہب کی بنیاد ہے نیز وہ اللہ کے انعامات پر اس کا شکر ادا کرنے والے تھے اور اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے ، کہ ساری عمر معاشرے حکومت اور ہر طاغوت سے ٹکر لی مگر اللہ جل جلالہ کی اطاعت کا دامن نہ چھوڑا ، اولاد وازواج اور گھر بار کی محبت انہیں اللہ جل جلالہ کی راہ میں ہجرت سے مانع نہ ہوسکی ، اہلیہ اور لخت جگر کو ویران صحرا میں چھوڑ دیا تو اللہ جل جلالہ نے انہیں منتخب فرما کر ایک عالم کا پیشوا ومقتداء کردیا ، اور دار دنیا میں بہت بلند مقام بخشا جبکہ دار آخرت میں بھی وہ اللہ جل جلالہ کے پسندیدہ اور نیک بندوں میں ہوں گے ، پھر آپ ﷺ کو اے حبیب وحی فرمائی کہ آپ ﷺ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پہ کاربند ہوں یعنی اللہ جل جلالہ کی اطاعت اسی جذبے اور طریقے سے کریں کہ ان کا طریق اطاعت مثالی تھا کہ وہ بالکل سیدھے اور کھرے تھے اور ہرگز ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے جیسا کہ یہ لوگ مبتلا ہیں نہ وہ رسومات میں گرفتار تھے جس طرح ان لوگوں نے ایجاد کر رکھی ہیں اور یہ حلال و حرام یا دنوں کی تخصیص ابراہیم (علیہ السلام) پر لازم نہ تھی نہ وہ کرتے تھے جیسا کہ یہ لوگ کرتے ہیں ۔ (بغیر ارشاد نبوی ﷺ دنوں کو باعث برکت یا عہد بنا لینا ویسا ہی ہے جیسا حرام حلال اپنی طرف سے ایجاد کرنا اور یہ سخت جرم ہے) مثلا ہفتہ کی خاص تعظیم ہی کو لیں تو بھلا انہیں اس کا حکم کس نے دیا وہ تو انہیں خاص لوگوں کے ساتھ خاص تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا کسی نے مانا اور کسی سے نہ مانا یا حیلے حوالے کئے اور تباہ ہوگئے نیز اس کا حقیقی بدلہ تو قیامت کے روز پائیں گے اور سارے اختلافات کا فیصلہ ہوجائے گا تو ثابت ہوا کہ دنوں کی تخصیص یا عہد قرار دینا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا اپنی طرف سے چیزوں کو حلال یا حرام ٹھہرانا ہے ۔ آپ ﷺ کا کام دعوت الی اللہ ہے لہذا لوگوں کو بڑی حکمت سے اور نصیحت کرنے کے انداز میں اپنے رب کی طرف دعوت دیجئے ۔ (طریق دعوت) یہاں یہ بات طے ہوگئی کہ نبوت کا مقصد اصلی لوگوں کو اللہ جل جلالہ کی طرف بلانا ہے ، اسلامی ریاست کا قیام ، فوج ، اور جہاد ، عدلیہ اور انتظامیہ یہ سب کچھ صرف اس ایک کام کے حصول کی خاطر ہے ، لہذا جہاں یہ سب کچھ تو ہو مگر قوانین اللہ جل جلالہ کے رائج نہ ہوں اور ریاست و حکومت مذہب کو لوگوں کا ذاتی معاملہ کہہ کر الگ ہوجائے اور تمام کوششیں یعنی فوج اور سول سب محض چند افراد کے اقتدار کے تحفظ کی خاطر ہوں ایسی ریاست نہ اسلامی ہے نہ اسے اسلامی کہا جائے گا اور اسے اسلامی بنانا بقدر استطاعت ہر مسلمان کا پہلا فرض ہے کہ اصل کام دین کا احیاء بندوں کو اللہ جل جلالہ کے قریب کرنا اور صرف اس کی بندگی پہ لگانا ہے ، اب اس کے لیے اسلوب کیا ہوگا بہت حکمت اور دانشمندی سے دعوت دی جائے گی نیز موعظہ حسنہ یعنی بہترین نصیحت کے انداز میں کہ نصیحت کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ نصیحت کرنے والا جیسے نصیحت کر رہا ہے خود اس کی بہتری کی فکر میں ہے لہذا بات کرنے میں اسلوب ایسا ہو کہ سننے والا یہ سمجھ سکے کہ اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرنا خود میری ضرورت ہے اور میرے ہی بھلے کی بات ہے ، یہ شخص دین کے نام پر اپنے آپ کو میرے اوپر مسلط نہیں کر رہا ، تو دو باتیں دعوت کی جان ہیں ، اول حکمت یعنی ضرورت ، موقع اور حالات کا تقاضا دیکھ کر بات کی جائے اس میں یہ سب شامل ہے کہ لوگ کس طرح کی نافرمانی میں گرفتار میں وہ شرک ہے یا کفر ہے یا بدعات میں پھنسے ہیں ، پھر ان کی عملی استعداد کیا ہے ، کس انداز کی بات سمجھ سکیں گے ان کا دنیاوی مقام و مرتبہ کیسا ہے غرض مخاطب کی ضرورت اور حالت کا پورا لحاظ رکھا جائے گا ، اور بات موعظہ حسنہ میں کی جائے گی موعظہ خود نصیحت کا نام ہے جس میں مخاطب کی بہتری اور بھلائی مقدم ہو جبکہ اس پر حسنہ کا اضافہ بھی ہے کہ یہ کام بہت ہی خوبصورت اور مخلصانہ انداز میں کیا جائے ، اور تیسری بات مجادلہ یعنی بحث ومناظرہ ہے کہ مخاطب یا ان کا کوئی فرد اپنی بات کو سچا اور داعی کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث کرتا ہے ، یا مناظرہ کرتا ہے تو اس میں بھی بحث کے حسن کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے ، مباحثہ یا مناظرہ کا حسن یہ ہے کہ حق کو ثابت کرنے کے لیے سب کام ہو ، محض دوسرے فریق کو رسوا کرنے یا اپنا علمی مقام و مرتبہ منوانے کے لیے نہ ہو نیز بات کرنے میں پورا ادب واحترام رکھا جائے ، اور طعنہ زنی نہ کی جائے کتاب اللہ میں اس کی مثالیں موجود ہیں خصوصا فرعون جیسے ظالم اور قطعی کافر اور اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے جابر کو بھی دعوت دینے کے لیے موسیٰ وہارون (علیہم السلام) کو فرمایا بات مزیدار لہجے میں کیجئے گا ، لہذا اس سے بڑا بدبخت کون ہوگا جو اللہ جل جلالہ کے دین کو پہنچانے اللہ جل جلالہ کی عظمت کی بجائے اپنی بڑائی منوانا چاہئے اس میں علماء اور مقتدا یعنی پیران کرام کے لیے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ آپ ﷺ کا کام دعوت الی اللہ ہے اس کے بعد کون گمراہی اختیار کرتا ہے اور کون ہدایت کا راستہ اپناتا یہ سب اللہ کریم کے علم میں ہے ، اس راہ میں مشکلات کا آنا تو لازمی ہے کفار یا معاندین جسمانی ایذا پہنچانے سے بھی نہ چوکیں گے لہذا اگر ایسی صورت ہو تو آپ ﷺ کو بھی بدلہ لینا درست ہے مگر اسی حد تک کہ جب آپ قابو پائیں تو اتنی ہی ایذا کو دی جائے لیکن اگر اس حال پر صبر اختیار کیا جائے اور درگذر سے کام لیا جائے اور صبر کرنے والے کے لیے بھی بہت اعلی بات ہے اور جہاں تک آپ ﷺ کی ذات عالی کا تعلق ہے تو آپ کو تو صبر ہی زیبا ہے کہ اللہ جل جلالہ کی توفیق آپ کے ساتھ ہے کفار ومشرکین کی ایذاؤں پہ اور مؤمنین کے ساتھ ان کی زیادتیوں پہ قطعا دلگیر نہ ہوں کہ ان کی یہ حیلہ سازیاں آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی ، (معیت ذاتی) آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ سے فیض پانے والوں کو تو احسان یعنی کیفیات قلبی کے اعتبار سے نہایت خلوص کے ساتھ قرب الہی اور تقوی یعنی تعلق باللہ حاصل ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ کی ذاتی معیت حاصل ہوتی ہے جس کا حاصل یہ ہے دنیا داروں کی سازشیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔
Top