بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Humaza : 1
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ
وَيْلٌ : خرابی لِّكُلِّ : واسطے، ہر هُمَزَةٍ : طعنہ زن لُّمَزَةِۨ : عیب جو
ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے
طعن وتشنیع وعیب جوئی وحب مال موجب ہلاکت و باعث نار جہنم ہے : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” ویل لکل ھمزۃ لمزۃ ....... الی ..... فی عمدممددۃ “۔ (ربط) گزشتہ سورة والعصر میں انسان کو اسے ایسے اصول کی ہدایت فرمائی گئی جن کے ذریعہ وہ اپنی زندگی کو ضائع ہونے سے بچا سکے اور انسانی حیات جس فوز و فلاح کے لئے عطا کی گئی اس کو حاصل کرنے خسران و محرومی سے محفوظ رہے، اب اس سورت میں ان بعض ناپاک اور بیہودہ خصلتوں کا بیان ہے جن سے انسان اپنی انسانیت ہی کو برباد کر ڈالتا ہے وہ طعن وتشنیع جیسی مذموم خصلتوں، لوگوں میں عیب تلاش کرنا، ان پر طنز کرنا ان کی تحقیر وتذلیل کے در پے ہوجانا ہے ان مذموم خصلتوں کا حامل انسان اپنی انسانیت ہی برباد کرتا ہے تو پہلے عمر ضائع کرنے پر وعید تھی اور اس سے تحفظ کے اصول اربعہ کا بیان تھا، تو اب اصل انسانیت ہی کو تباہ کرنے والی خصلتوں کا بیان ہے تاکہ انسان ایسے ناپاک خصلتوں سے بچنے کی کوشش کرے، پھر یہ فرمایا جارہا ہے کہ جہاں ایک طرف ان خصائل سے انسانیت کو گندگی سے آلودہ کرنا لازم آتا ہے اسی طرح مال کی محبت اور اس پر فریفتہ ہوجانا بھی انسانیت کو تباہ کرنے والی خصلت ہے مال و دولت کی حرص انسان کو ہر خیر و فلاح سے محروم کرنے والی چیز ہے اور ساتھ ہی معاشرہ میں ہر نوع کی خرابی پیدا کرنے کا باعث ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ ناپاک خصائل ان معاصی اور گناہوں کا موجب ہیں جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں گناہوں میں حقوق اللہ کا برباد کرنا بھی بیشک بڑا گناہ ہے لیکن ان کی معانی کا امکان ہے، اس کے برعکس حقوق العباد کی معافی ممکن نہیں، ان خصلتوں سے انسان جماعتوں اور قوموں میں تفرقہ ڈالتا ہے جو بدترین جرم ہے، غیبت جیسی بدترین خصلت کا مرتکب ہوتا ہے جس کو قرآن کریم نے اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے برابر قرار دیا، اور زنا سے بھی زنا سے بھی زیادہ قبیح فرمایا، تو ان عادات وخصائل سے انسان کی ونائت وذلت کی کوئی حد باقی نہیں رہتی تو ان پر وعید فرمائی گئی ہے اور آخرت کے عذاب کا بھی ذکر فرمایا گیا تاکہ انسان ان باتوں سے پرہیزکرے، ارشاد ہے۔ بڑی ہی ہلاکت وتباہی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو پس پشت طعنہ دینے والا اور عیب۔ 1 حاشیہ 1 (ہمزہ اور ہمزہ کی صفت کے ساتھ اس شخص کی مزید یہ خصلت بیان کرنا کہ (آیت) ” الذی جمع مالا وعددہ “۔ یا تو اس امر کے پیش نظر ہے کہ بدگوئی اور عیب جوئی کی مذموم صفت تکبر سے پیدا ہوتی ہے جس کا منشاء مال و دولت کی کثرت ہے جس کی یہ نوبت ہے کہ (آیت) ” جمع مالا وعددہ “۔ یا یہ کہ جس طرح جسمانی امراض میں ایک مرض دوسرے مرض سے وابستہ ہوتا ہے اسی طرح بدگوئی اور عیب جوئی کی بیماری بخل اور حرص مال سے پیدا ہوتی ہے۔ 12) جوئی کرنے والا ہو جو اپنے اس خبث اور کمینہ خصلت کے ساتھ اس قدر حریص اور لالچی ہے کہ مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے، خیر اور نیکی کے کام میں خرچ کرنے کی تو کیا توفیق ہوتی۔ زکوٰۃ و خیرات اور صلہ رحمی یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا تو کیا تصور کیا جاسکتا ہے وہ تو مال کی حرص اور بخل میں اس حد تک پہنچا ہے کہ گن گن کر رکھتا ہے، کہیں کوئی پیسہ نکل کر بھاگ نہ جائے کوشش یہی ہوتی ہے اس میں سے ایک پیشہ خرچ نہ ہونے دیا جائے ہر طرف سے مال سمیٹنے اور بار بار گننے ہی میں اس کو مزہ آتا ہے۔ ، کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ باقی رکھے گا نہ موت آئے گی اور نہ آسمانی حوادث ومصائب کا شکار بنے گا، اور نہ قیامت میں حاضرہوکر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو کا جو کہ اس کے بخل حرص مال اور غرور ونخوت سے ظاہر ہورہا ہے۔ خبردار ہرگز ایسا نہیں اس انسان کا یہ خیال قطعا غلط ہے، ضرور بالضرور وہ پھینکا جائے گا حطمہ میں، اور اے مخاطب تجھے معلوم بھی ہے کہ کیا ہے وہ حطمہ اور روندنے والی چیز اس کی شناخت ومعرفت انسانی عقول و افکار سے بالاتر ہے وہ تو ایک آگ ہے دہکتی ہوئی جو بدن کو جلا کر ابھرتی ہے دلوں پر جب کہ دنیا کی کوئی آگ بھی بدن کو جلا کر دل تک نہیں پہنچتی، اور نہ ہی اس کی نوبت آتی ہے کہ آگ انسان کے بدن کو جلا دلوں کے اوپر اس کے شعلے ظاہر ہوں بلکہ وہ اس سے قبل ہی نزع روح کا باعث بن جاتی ہے، مگر یہ آگ ان مجرمین کے بدنوں کو جلاتی ہوئی دلوں پر ظاہر ہوگی اور اس کے شعلے دلوں کے اوپر بھڑکتے ہوں گے وہ آگ ان پر پاٹ دی جائے گی، جیسے کہ سرپوش میں کوئی چیز ڈھانک دی جائے جس کے بعد آگ کا ان پر ہر طرف سے احاطہ ہوگا نہ اندر کا گرم سانس باہر نکل سکے گا اور نہ باہر کی کوئی سرد ہوا ان تک اندر پہنچ سکے گی اور نہ ہی یہ ممکن ہوگا یہ جہنمی تڑپ کر یا پھڑک کر باہر نکل جائیں بلکہ وہ گھرے ہوں گے جکڑے ہوئے ہونگے بڑے بڑے آتشی ستونوں میں کہ نہ تو ان ستونوں کو اکھاڑا جاسکے گا اور نہ ہی یہ مجرمین ان ستونوں سے کھل کر کہیں بھاگ سکیں گے، یا یہ پٹی ہوئی آگ۔ 2 حاشیہ۔ 2 (یہ کلمات اس امر کی طرف اشارہ ہیں کہ (آیت) ” فی عمد ممددہ “۔ ہوسکتا ہے کہ (آیت) ” انھا علیھم “ میں لفظ علیہم سے متعلق ہو اور (آیت) ” لینبذن فی الحطمۃ “۔ میں جن لوگوں کو روندنے والی جہنم میں ڈالنے کی وعید بیان فرمائی گئی ان کے واسطے (آیت) ” فی عمدممددۃ “۔ ظرف ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ” انہا “ یعنی نار جہنم کی صفت ہو کہ وہ آگ ایسے ستونوں کی شکل میں ہوگی اور اس کے بلند شعلے ایسے نظر آتے ہوں گے، جیسے کہ بلند کئے ہوئے اور پھیلائے ہوئے ستوں ہوں۔ 12) ایسے ستونوں کی شکل میں ہوگی جو بڑے ہی دراز کیے ہوئے اور پھیلائے ہوئے ہوں۔ ھمزہ اور لمزہ کی تفسیر : لفط ھمزہ اور لمزہ اصول عربیت کی رو سے فعلہ کے وزن پر ہے جو مبالغہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسے ضح کہ اس شخص کو کہتے ہیں جو زیادہ ہنستا ہو، اور مبالغہ کا صیغہ کسی بھی صفت کے بیان کرنے کے لئے اس جگہ لایا جاتا ہے، جہاں اس صفت یافعل کو بطور عادت بیان کرنا مقصود ہو، ان کی تفسیر میں متعدد اقوال منقول ہیں، ابوعبیدہ (رح) کہتے ہیں، دونوں کے معنی ایک ہی ہیں غیبت وبدگوئی کرنے والا، ابوالعالیہ (رح) حسن (رح)، مجاہد (رح) اور عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ ہمزہ وہ ہے جو رو در روبدگوئی کرے اور لمزہ وہ جو پس پشت برائی کرے، قتادہ (رح) نے اس کے برعکس بیان کیا ہے۔ بعض ائمہ لغت سے نقل کیا گیا کہ ہمزہ وہ ہے جو کسی کے نسب میں طعن کرے، مثلا فلاں کمینہ ہے اس کی ماں ایسی ہے یا باپ ایسا تھا، اس کی قوم شریف نہیں وغیرہ وغیرہ اور لمزہ وہ ہے ہاتھ پاؤں کے اشاروں اور حرکتوں سے تحقیر وتوہین کرے حافظ ابن کثیر (رح) نے فرمایا ہمزہ وہ جو کسی کی زبان سے برائی کرے اور لمزہ وہ جو افعال کے ذریعے کسی کی دل آزاری کرے۔ بہرکیف یہ متعدد اقوال ائمہ مفسرین نے نقل کئے ہیں۔ زیادہ مناسب دونوں کے ترجمہ میں وہی ہے جو اختیار کیا گیا کہ ہمزہ طعن اور عیب لگانے والا اور لمزہ ” عیب جوئی کرنیوالا یا چغل خوری کرنے والا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ دونوں خصلتیں انتہائی ذلیل خصلتیں ہیں، (آیت) ” ولا تنابزوا بالالقاب “۔ میں وضاحب سے تفسیر گذر چکی، آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ مسلمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ طعن وتشنیع اور لعنت ملامت کرنے والا ہو۔ ایک روایت میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہلاکت و بربادی ہے اس شخص کے لئے جو لوگوں کو ہنساتا ہے جھوٹی بات کہہ کر، ہلاکت ہے ہلاکت ہے۔ حاشہ (مسند امام احمد بن حنبل (رح) عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ حضرت نجات کا راستہ کیا ہے فرمایا اپنی زبان قابو میں رکھو یعنی ہر بری بات سے زبان کو روکو۔ اور گھر میں بیٹھو، اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔ 1 حاشہ۔ 1 (جامع ترمذی ابوداؤد ) ایک روایت میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم جانتے بھی ہو کہ غیبت کیا ہے لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسو ہی خوب جانتا ہے، فرمایا کسی شخص کا اپنے بھائی کی ایسی بات ذکر کرنا جو اس کو بری معلوم ہو، کسی نے اس پر عرض کیا یا رسول اللہ اگر وہ بات اس میں ہو تو کیا پھر بھی غیبت ہے، آپ نے فرمایا ہاں اسی کا نام غیبت ہے اور اگر ایسی بات یا عیب لگاؤ جو اس میں نہیں تو پھر یہ تو بہتان ہے۔ 2 حاشیہ۔ 2 (صحیح مسلم ) بالعموم ایسے خبیث امور یا عادات کا سبب کبر و تعلی ہوتا ہے اس بنا پر وہ دوسروں کی تحقیر کے یہ اسباب ہوتے ہیں حسن و جمال، شرافت، نسب، وحسب، علم وہنر اور مال و دولت جس کا نشہ انسان کو اندھا بنا دیتا ہے تو اس وجہ سے ان امور خبیثہ کے ساتھ اس کا یہ وصف بھی بیان کردیا گیا۔ (آیت) ” الذی جمع مالا وعدددہ “۔ تم بحمد اللہ تفسیر سورة الہمزۃ :
Top