نام اور کوائف
اس سورة کا نام سورة الھمزۃ ہے۔ اس کی پہلی آیت میں ہمزہ کا لفظ آیا ہے اور اسی سے سورة کا نام اخذ کیا گیا ہے۔ یہ سورة مکی زندگی میں نازل ہوئی ، اس کی نو آیات ہیں۔ یہ سورة تینتیس الفاظ اور چھیانوے حروف پر مشتمل ہے۔
سابقہ اور آئندہ سورتوں کا خلاصہ
اس سے پہلی سورة میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی کامیابی کے چار اصول بیان فرمائے تھے۔ اس سورة میں افراد اور جماعت کی اس بیماری کا تذکرہ فرمایا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے صحیح پروگرام پر عمل نہیں کرتے یہ زرپرستی یا سرکایہ داری کی بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے یہ سورة اسی کے رد میں نازل فرمائی ہے۔
اس سے اگلی سورة میں اللہ تعالیٰ نے ملوکیت اور شہنشاہیت کا رد کیا ہے۔ یہ بھی انسانی پروگرام کے خلاف ہیں۔ اس سے اگلی سورة میں قومیت پرستی یعنی نیشنلز کا رد ہے اس سے اگلی سورة میں جھوٹی مذہبیت کا رد فرمایا ہے کہ وہ بھی کام نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد والی چھوٹی سی سورة میں اللہ تعالیٰ نے چار اہم باتیں بیان فرمائی ہیں۔ اس سے اگلی سورة میں یہ بات فرمائی ہے کہ رجعت پسند کفا رکے ساتھ صلح نہیں ہو سکتی۔ ان کے ساتھ لامحالہ جنگ ہوگی اور اگر اہل ایمان صحیح راستے پر قائم رہیں گے ، تو انہیں فتح حاصل ہوگی۔ سورة فتح میں یہ اشارہ ہے۔ پھر محض سیاسی فتح کارگر نہیں ہوتی جب تک اس کے ساتھ اخلاقی ، اقتصادی اور مادی فتح حاصل نہ ہو۔ سورة لھب کا موضوع یہ ہے۔ اس کے بعد سورة اخلاص میں اسلام کے بنیادی نظریات یا آئیڈلوجی (Idiology) کا بیان ہے جس کے گرد ساری شریعت اور دین حرکتک رتے ہیں۔ اس سے مراد توحید خداوندی ہے۔
آخری دو سورتوں میں سے سورة فلق میں انسانیت کا کائنات کے ساتھ ربط بتلایا گیا ہے اور آخری سورة ” والناس “ میں انسانیت کا ربط خدا تعالیٰ کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ پھر اس کے بعد ربط سورة فاتحہ کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ جہاں سے قرآن پکا کی ابتداء ہوئی تھی۔ یہ ان سورتوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ جو میں نے عرض کردیا۔
ھمزہ اور لمزہ
جیسا کہ عرض کیا ہے۔ اس سورة ھمزہ میں افراد اور جماعت کی زرپرستی جیسی بیماری کا رد کیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ویل لکل ھمزۃ لمزۃ ہلاکت اور بربادی ہے پس پشت غیبت کرنے والے اور روبرو طعن دینے والے کے لئے ۔ دراصل یہاں پر تین باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ یعنی ہمزہ ، لمزہ اور زرپرستی ، اول الذکر دو باتیں تیسری بات کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں۔ جب کسی فرد یا جماعت میں زرپرستی کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ تو اس کے ساتھ ہمزہ اور لمزہ شامل ہوتی ہیں۔
جہاں تک لفظ ویل کا تعلق ہے۔ قرآن پاک میں یہ لفظ شدت اور عذاب کے موقع پر استعمال کیا گیا ہے۔ جس طرح عربی زبان میں ویج کا لفظ افسوس اور ترحم کے لئے آتا ہے۔ اسی طرح ویل کا لفظ تباہی ، بربادی یا ہلاکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمزہ لمزہ کے معنی میں مفسرین کرام نے اختلاف کیا ہے۔ بعض فرماتے ہیں 1 ؎ کہ ہمزہ پس پشت غیبت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ غیبت گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” ولایغتب بضکم بعضاً ط “ تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ یہ حرام ہے اور لمزہ سے مراد کسی کو سامنے طعن دینا ہے۔ بعض 2 ؎ فرماتے ہیں کہ زبانی طعن کے ساتھ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے کرنا بھی لمز میں داخل ہے کیونکہ لوگ ہاتھ اور آنکھ کے ساتھ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے کرنا بھی لمز میں داخل ہے کیونکہ لوگ ہاتھ اور آنکھ کے اشارے سے بھی عیب جوئی کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے 3 ؎ کہ المشاء و ن بالنمیہ یعنی غیبت کرنے والے شرار عباد اللہ مخلوق میں سب سے برے لوگ ہیں۔ ایسے لوگ الباغون البرآء العنت بری لوگوں کی عیب جوئی کرتے ہیں۔ یعنی بےگناہ لوگوں کی برائی کرتے ہیں الغرض ہمز کا معنی غیبت کرنا اور لمز کا معنی سامنے طعن دینا ہے۔ مگر یہ دونوں چیزیں انسانیت اور اخلاق سے گری ہوئی چیزیں ہیں۔ ایسے لوگ انسانوں کے گروہ سے نکل کر حیوانوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔
ارتکاز دولت
اب اس بیماری کا ذکر ہے جس کی بناء پر ہمزہ اور لمزہ قابل مذمت ہیں فرمایا ہلاکت اور بربادی ہے اس عیب جو اور طعن باز کے لئے الذی جمع مالا وعددہ جس نے مال اکٹھا کر رکھا ہے اور اسے گنتا رہتا ہے وہ دولت سے پیار اس لئے کرتا ہے کہ وہ اسے ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے ، جو لوگ دولت سے محروم ہیں۔ ان کی عیب جوئی کرتا ہے۔ حتی کہ نیکو کار ، ہدایت کا راستہ بتانے والے اور مصلح کی عیب جوئی سے بھی باز نہیں آتا۔ اس دور میں علماء کرام خاص طور پر ایسے لوگوں کے طعن کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان مولویوں کے پاس روپیہ پیسہ تو ہے نہیں ، یہ کیسے نظام حکومت چلا سکتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے مفتی محمود کی ذات پر رکیک حملے کئے تھے کہ یہ کیا حکومت چلائے گا۔ اس سے پہلے ایک صدر نے مفتی محمد شفیع مرحوم کو کہا کہ میں تم
1 ؎ روح المعانی ص 230/ج 30 ، ابن کثیر 548/ج 4 ، در منشور ص 392/ج 6 ، 2 ؎ درمنشور ص 392/ج 6 معالم التنزیل ص 251/ ج 4 ، 3 ؎ مسند احمد ص 226/ج 4
سے زیادہ دین کو سمجھتا ہوں۔ حالانکہ مفتی صاحب مرحوم نے صدر کی توجہ عائلی قوانین کے غیر اسلامی ہونے ک طرف دلائی تھی۔ تو انہیں یہ جواب ملا تھا۔ اس قسم کی ذہنیت سرمایہ پرستی کی وجہ سیپ یدا ہوتی ہے۔ اس قماش کے لوگ دوسروں میں نقص نکالیں گے۔ عیبج وئی کریں گے ، وجہ یہ ہے کہ وہ مال و دولت کو ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ مال جمع کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
الذی جمع میں جمع بھی پڑھا گیا ہے اور جمع بھی 1 ؎ اس سے پہلے انتیسویں پارے میں گذر چکا ہے ” وجمع فاوعی “ جس نے مال جمع کیا اور سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جمع کا معنی ہے کہ وہ حلال و حرام کی تمیز کے بغیر مال اکٹھا کرتا ہے اور ادعیٰ کا معنی ہے کہ اسے سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کنجوس بھی واقع ہوا ہے۔ اس میں بخل کا مادہ پایا جاتا ہے۔ ضرورت کے موقع پر خرچ نہیں کرتا۔
زرپرست کی خام خیالی
ایسے زرپرست اور سرمایہ دار کی حالت یہ ہے کہ یحسب ان مالا اخلدہ اس کا گمان ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ رکھے گا یعنی احتساب سے بچائے رکھے گا۔ اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ بکلہ اس کا سرمایہ ہر مقام پر اس کی مدد کرے گا۔ حالانکہا ی سے شخص کو سمجھ لینا چائے کہ صرف سرمایء کو کامیابی کا مدار نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ تو محض ایک ظاہری ذریعہ ہے۔ اس سے مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ کامیابی اور فلاح کا اصل ذریعہ تو دین اور اخلاق ہے اگر یہ نہیں ہوں گے تو سمجھل ینا چاہئے کہ آخرت میں مکمل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ وہاں ایسے لوگوں کا بہت برا حشر ہوگا۔
سرمایہ دار کا حشر
فرمایا سرمایہ دارانہ ذہنیت کے لوگوں کا قیامت کو یہ حال ہوگا کہ کلا لینبذن فی الحطمۃ ایسے شخص کو چور چور کردینے ، روند دینوالی یا پامال کر دنیے والی میں ڈالا جائے گا۔ پھر خود ہی استفہامیہ انداز میں فرمایا۔ ومآ ادرئک ما الحطمۃ آپ کو کس نے بتلایا کہ وہ چور چور کردینے والی کیا چیز ہے۔ فرمایا وہ نار اللہ الموقدۃ اللہ کی جلائی ہوئی
1 ؎ تفسیر کشاف ص 795/ج 4 تفسیر بیضاوی ص 439/ج 2
آگ ہے۔ یعنی حطمہ دوزخ کی آگ ہے۔ جس میں عیب جو ، طعنہ باز ، سرمایہ پرست کو دھکیل دیا جائے گا۔ اسے اس وقت معلوم ہوگا کہ جس سرمایہ پر وہ دنیا میں فخر کرتا تھا۔ دوسروں کو حقیر سمجھتا تھا۔ آج اس کے کسی کام نہیں آیا۔ بلکہ وہی سرمایہ اس کی رسوائی کا سبب بن گیا۔ وجہ یہی ہے کہ ایسے شخص کی فکر صحیح نہیں تھی۔ دینداری کی بجائے سرمایہ داری اور خدا پرستی کی بجائے سرپرستی اس کا مذہب تھا۔
دوزخ کی آگ
آگ مختلف عناصر سے وجود میں آجاتی ہے۔ قدرتی آگ سورج کی ہے۔ مصنوعی طور پر لکڑی یا کوئلہ وغیرہ جلا کر آگ حاصل کی جاتی ہے۔ مگر یہاں جس آگ کو نار اللہ یعنی اللہ کی آگ کہا گیا ہے۔ وہ مذکورہ میں سے نہیں ہے بلکہ ا س کا مادہ انسان کے اپنے اندر موجود گناہ اور معاصی ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ آگ بھڑکتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ کسی گرم ملک میں دوپہر کے وقت سخت تپش ہو اور اگر کوئی شخص خود بھی بخار میں مبتلا ہو یعنی اس کے اپنے جسم کے اندر بھی گرمی ہو۔ تو اس پر دوپہر کا وقت کیسے گزرے گا۔ اس کے اندر کی گرمی باہر کی گرمی سے مل کر اس کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ اسی طرح سرمایہ دار اور زرپرست نے باہر کی گرمی سے مل کر اس کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ اسی طرح سرمایہ دار اور زرپرست نے اپنے معاصی کا ایندھن جمع کر رکھا ہے جب وہ دوزخ کی آگ کی لپیٹ میں آء یگا تو اس کی کیا حالت ہوگی ، لہٰذا دوزخ کی اس آگ کو نار اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ کو جلایا۔ یہ ہزار برس تک جلتی رہی ، تو اس کا رنگ سرخ ہوگیا۔ مزید ایک ہزار سال تک جلتی رہی تو سفید ہوگئی۔ اس کے بعد ایک ہزار سال اور جلایا گیا تو اس کا رنگ سیاہ ہوگیا۔ اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔ گنہگاروں کو اسی تاریک دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
آگ کا اثر دل پر
یہ آگ ایسی ہے التی تطلع علی الافدہ جو دلوں پر چڑھ جاتی ہے۔ اس دنیا کی آگ کی خاصیت یہ ہے کہ پہلے جسم کو جلاتی ہے اور پھر اس کا اثر اندر دل تک پہنچتا ہے مگر دوزخ کی آگ کی خاصیت یہ ہے کہ جب وہ جسم سے ٹکرائے گی ، تو اس کا اثر سب
1 ؎ ترمذی ص 371
سے پہلے دل پر ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ دل مرکز اخلاق ہے۔ اس نے اس مرکز کو خراب کیا۔ حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ ہے کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے۔ اگر درست ہو تو سارا جسم درست ہے۔ اور اگر وہ لوتھڑا خراب ہے تو سارا جسم خراب ہے۔ فرمایا الاوھی القلب یہ لوتھڑا دل ہے۔ محبت یا نفرت کے تمام عزائم اسی دل میں پیدا ہوتے ہیں اس شخص نے مرکز اخلاق کو تباہ کیا۔ اس لئے جہنم کی آگ کا اثر سب سے پہلے قلب پر ہوگا۔ اس شخص نے مرکز اخلاق کو تباہ کیا۔ اس لئے جہنم کی آگ کا اثر سب سے پہلے قلب پر ہوگا۔ اس شخص نے لوگوں کے دل دکھائے ، لوگوں پر ظلم کئے۔ یہ شخص ” وتحبون المال حبا جماً “ مال کو سمیٹ سمیٹ کر رکھتا رہا۔ یتیموں اور مسکینوں کا حق کھاتا رہا۔ اس نے حلال و حرام کی تمیز نہیں کی۔ حدود کی پابندی نہیں کی۔ دین اور اخلاق کی پروا نہیں کی۔ مکروہ اور مباح کا خیال نہیں کیا۔ اسی چیز کے متعلق فرمایا ” وتاکلون الثرات اکلاً لماً “ دوسروں کی وراثت بھی کھا جاتے ہیں۔ بہن اور پھوپھی کا حق بھی کھا جاتے ہیں۔ یہ لوگ جب دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو آگ کا اثر پہلے دل پر ہوگا۔
دوزخ کی تلخی
اس آگ کی کیفیت کو مزید اس طرح بیان فرمایا انھا علیھم موصدۃ یہ آگ ایسے لوگوں پر بند کی ہوئی ہوگی کہاں فی عمد ممددۃ مطلب یہ ہے کہ آگ کے لمبے لمبے ستونوں میں مجرمین کو بند کر کے اوپر سے ڈھکنا دے دیا جائے گا۔ تاکہ وہ کسی طرف حرکت بھی نہ کرسکیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تکلیف کے وقت اگر آدمی تھوڑی بہت حرکت کرے تو قدرے تخفیف محسوس ہوتی ہے۔ مگر جہنم کی آگ میں معمولی حرکت کی بھی گنجائش نہیں ہوگی۔ کیونکہ دوزخی آگ کے ستونوں میں بند کردیئے جائیں گے اور پھر وہ جگہ بھی ایسی ہے۔ جہاں کسی کی آہ و بکا کچھ فائدہ نہ دے گی۔ کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ کیونکہ ان لوگوں کی بیماری ہی اس قسم کی تھی۔ جس کا خمیازہ اسی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ یہ ان کے انکار خدا زرپرستی ، ایذائے خلق ، ظلم و زیادتی ، عیب جوئی ، طعنہ زنی اور سرمایہ پرستی کا نتیجہ ہے۔ انسان کو غور کرنا چاہئے کہ یہ کتنی سخت سزا ہے۔ جس میں یہ لوگ گرفتار ہوں گے۔