Asrar-ut-Tanzil - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور آپ اس کتاب میں مریم (علیہا السلام) کا بھی ذکر فرمائیے جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرقی میں ایک مکان میں گئیں
(رکوع نمبر 2) اسرارومعارف اور اے حبیب ﷺ اس سے عجیب تر اور فکر انگیز واقعہ ایسی کتاب اللہ میں سنا دیجئے جو حضرت مریم (علیہا السلام) کا ہے اور جس کے متعلق یہود اور نصاری نے اپنے اپنے نظریات گھڑ رکھے ہیں کہ اس کی حقیقی اور واقعی صورت کیا ہے یہ بات تب شروع ہوتی ہے جب حضرت مریم (علیہا السلام) اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر غسل وغیرہ کرنے کے لیے پردہ میں چلی گئیں تو وہاں ان کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا جس نے انسانی شکل میں ظاہر ہو کر ان سے بات کرنا چاہی ، یاد رہے حضرت مریم (علیہا السلام) کا ذکر آل عمران میں گذر چکا ہے ۔ (اولیاء اللہ سے فرشتہ کا ہمکلام ہونا) کہ ان کی والدہ نے منت مانی تھی لہذا وہ بیت المقدس کی خادمہ کے طور پر مسجد کو دی گئیں ، اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جو ان کے بہنوئی بھی تھے ان کی کفالت کرتے تھے جنہوں نے ان سے بہت سی کرامات کا مشاہدہ فرمایا جن کا ذکر کتاب اللہ میں گزر چکا آپ بہت عابدہ زاہدہ اور نیک تھیں لہذا جیسے انسان نظر پڑا تو پکار اٹھیں کہ میں تجھ سے اللہ جو رحمن ہے کی پناہ چاہتی ہوں اگر تجھے کچھ اللہ جل جلالہ کا خوف بھی ہے تو انہوں نے فورا خود کو ظاہر کیا ۔ (اللہ کو پکارا جائے کہ گناہ سے حفاظت فرمائے) گویا اگر ایسی بھی صورت بن جائے کہ کسی سے گناہ پر مجبور کرنے کا اندیشہ ہو اور بچنے کی سبیل نظر نہ آئے تو بھی اللہ کریم کو ضرور پکارا جائے کہ ذکر الہی بھی حصول رحمت کا باعث ہے اور رحمت الہی گناہ کے سامنے ڈھال بن جاتی ہے ، چناچہ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے عرض کیا میں تیرے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں کہ اللہ کریم تجھے فرزند عطا فرمانا چاہتا ہے اور میری پھونک کو اس کا سبب بنا دیا ۔ (اسباب اختیار کرنا ضروری ہے اور ترک ہرگز توکل نہیں بلکہ خلاف سنت الہیہ ہے) ویسے تو اولاد کے لیے مرد وعورت کا اختلاط ضروری ہے یہ قانون ہے اور وہ جیسے چاہے پیدا کرے یہ اس کی قدرت یہاں اس قانون کے خلاف صرف ماں سے پیدا فرمایا مگر عالم اسباب میں سبب کا ہونا ترک نہ فرمایا اور جبریل (علیہ السلام) کے دم اور پھونک کو سبب بنا دیا یہ بھی ثابت ہوا کہ دم اور پھونک میں یقینا اثر ہے ۔ (دم اور پھونک میں یقینا اثر ہے) منع تب ہوگا جب کوئی ناجائز کلمات پڑھے جائیں یا ناجائز مقصد کے لیے کیا جائے ورنہ اللہ کا کلام پڑھ کر پھونکنا بھی حصول رحمت کا سبب ہے اگر پڑھ کر پھونکنے والے میں وہ اوصاف ملکوتی موجود ہوں جن کے باعث اثر پیدا ہوتا ہے کہ یہاں فرشتے کی پھونک کا تذکرہ ہے ، تو انہوں نے پوچھا بھلا میری اولاد کیسے ہوگی نہ میں نے شادی کی اور نہ کبھی گناہ کا سوچا ہے تو فرمایا یہ تیرے پروردگار کی قدرت سے ہوگی جو فرماتا ہے کہ میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں نیز یہ عام بچہ نہ ہوگا بلکہ ایک طرف میری قدرت کاملہ کا نشان اور اظہار کا سبب ہوگا تو دوسری طرف میری رحمت کے بٹنے کا ذریعہ ۔ (رحمت باری) اور مخلوق کی ہدایت کا سبب یعنی رحمت باری یہ ہے کہ انسان کو ہدایت نصیب ہوجائے اور یہ معاملہ طے ہوچکا ہے ایسا ضرور ہوگا ، اور اب آپ کے گھبرانے سے بات ٹل نہ سکے گی ، چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) کے پھونک مارنے سے انہیں حمل رہ گیا مگر انسانی فطرت تو اپنی جگہ قائم رہتی ہے جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو بدنامی کے خوف سے آبادی سے باہر تشریف لے گئیں کہ انہیں تو حقیقت کا علم تھا مگر لوگوں کے منہ میں تو اپنی زبان ہوتی ہے ، چناچہ جب درد زہ شروع ہوا تو ایک کھجور کے تنے کا سہارا لیا اور گھبرا کر فرمایا کاش میں اس سے پہلے ہی مر چکی ہوتی ۔ (فطرت انسانی قائم رہتی ہے اور اسباب اختیار کرنا ضروری ہے) اور میری یاد تک لوگوں کو بھول چکی ہوتی ، یہاں بدنامی کے سبب لوگوں کا دین سے اعتماد اٹھنے اور کفار تک کو طعن کرنے کا موقع ملنے کا خطرہ تھا لہذا دینی نقصان سے بچنے کے لیے موتی کی آرزو بھی درست تھی ۔ (موت کی طلب) مگر اللہ کریم کو اور منظور تھا لہذا جبرائیل (علیہ السلام) نے پردہ سے آواز دی کہ حیا کے سبب ایسی حالت میں سامنے نہ آئے کہ آپ پریشان نہ ہوں ، اللہ کریم نے آپ کے لیے بہترین پانی کا چشمہ پیدا کردیا ہے اور اسی خشک اور ویران تنے کو ہلائیں تو مزیدار پکی ہوئی کھجوریں گریں گی ، کیسی عجیب بات ہے قادر مطلق نے صحرا میں چشمہ جاری فرما دیا اور خشک درخت سے پکا پھل عطا فرمایا مگر اپنے جاری کردہ فطری قوانین کا کس قدر لحاظ رکھا کہ معجزاتی طور پر بھی پانی اور کھجور عطا فرمائے ۔ (علاج اور دوا) جو ولادت کے وقت بہترین علاج بھی ہے اگر عورت کو پانی میں بھگو کر کھجور کھلائی جائے تو بچہ آسانی سے پیدا ہوجاتا ہے نیز سوکھے تنے کو ہلانے کا حکم دے کر ثابت فرمایا کہ حصول رزق کے لیے نرے وظائف نہ پڑھے جائیں ممکن حد تک کوشش اور محنت بھی ضروری ہے چناچہ چاند سا بیٹا عطا ہوا اور ارشاد ہوا کہ آپ کے پاس غذا ایسی ہے جو دوا بھی ہے کھائیں پئیں اور بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں ، خوش ہوں اور اللہ کریم کا شکر ادا کریں آخر آپ کو لوگوں میں ہی تو جانا ہے جو آپ کی بات نہ سمجھ پائیں گے لہذا اشارہ سے بتا دیں کہ میرا تو بات نہ کرنے کا روزہ ہے جو شریعت سابقہ میں تھا اسلام نے اس سے منع فرما کر فحش کلامی اور غیر ضروری باتوں سے منع فرما دیا لہذا آپ اسی بچے سے پوچھ لیں یہ کون ہے اور کیسے پیدا ہوا ، چناچہ انہیں اللہ کے حکم سے واپس قوم کے سامنے آنا پڑا ۔ (اہل اللہ کو لوگوں کے طعن سننے پڑتے ہیں) جب کہ بغیر شادی کے ایک نومولود کو بھی اٹھا رکھا تھا گویا اللہ جل جلالہ کی راہ میں کام کرنے کام کرنے والوں کو جہاں بہت سی جانی ومالی اور ذاتی آرام وغیرہ کی قربانی دینا پڑتی ہے وہاں لوگوں کے طعن بھی سننا پڑتے ہیں کہ رب جلیل دوستی کو خالص اور محض اپنی ذات کے لیے پسند فرماتے ہیں دنیا کی راحتیں تو وہ ساری مخلوق پہ بانٹا کرتے ہیں اس کا حساب الگ سے ہوگا اہل اللہ کو بھی دولت دنیا اور اقتدارومنصب بھی ضرور نصیب ہوتا ہے مگر اس وقت جب ان کے قلوب سے اس کی طلب اٹھ جاتی ہے اور محبت الہی سے دل لبریز ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو تمام دنیاوی نعمتیں اللہ جل جلالہ کے نام پر قربان کرنا پڑیں اور پھر جب آپ ﷺ کی صحبت میں کندن بنے تو سارا جہاں قدموں میں تھا ایسے ہی یہاں بغیر شادی کے حمل پھر جنگل میں اکیلے رہ کر بچے کی پیدائش کے عمل سے گزرنا اور پھر نومولود کو لیکر قوم کے پاس واپس جانے کیلئے الگ حوصلہ چاہیئے تھا مگر اس سب مشکل سے گزر کر ان کا نام نامی ہمیشہ کے لیے روشن اور کتاب اللہ کی زینت بنا ، آپ جب بچے کو لے کر آئیں تو لوگوں نے منہ میں انگلیاں داب لیں مریم ؟ یہ کیا ہے اتنا بڑا حادثہ اے ہارون کی بہن تم سے تو یہ امید نہ تھی کہ تمہارا تو پورا خاندان عرصۃ دراز سے نیکی میں معروف تھا اور یہ موسیٰ وہارون (علیہما السلام) کا خاندان تھا اور پھر تمہارے والدین تو بہت نیک تھے تمہارے والد کس قدر پیارے انسان تھے اور تمہاری ماں بھی تو بہت نیک تھیں تم نے یہ کیا گل کھلایا تو انہوں نے بچے کی طرف اشارہ کردیا ، والدہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح انہوں نے بھی ذاتی الہام پر عمل کیا ، (کشف والہام پر عمل) اور محققین کے نزدیک نبی کا کشف والہام حتی کہ خواب بھی وحی الہی ہوتا ہے اور ساری امت کے لیے اس پر عمل ضروری اور ولی کے لیے اگر اس کا کشف والہام نبی کے ارشاد کے خلاف نہ ہو تو خود اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ہاں البتہ دوسروں کے لیے حجت نہیں ہوتا ، تو لوگوں نے کہا یہ کیا مذاق ہے بھلا اس گود کے بچے سے ہم کیا بات کریں گے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو ماں کی گود میں تھے پکار کر کہا میں اللہ جل جلالہ کا بندہ ہوں جس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبوت عطا کی ہے یہاں سوال تو ان کی ولادت اور نسب کے بارے میں تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ اللہ جل جلالہ نے مجھے نبوت عطا کی ہے ۔ (نبوت وولایت کے لیے صحیح النسب لوگ منتخب کئے جاتے ہیں اور نبی کے والدین غیر مسلم تو ہو سکتے ہیں مگر بدکار نہیں ہوتے) گویا نبی ہونا صحیح النسب ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ (اسی طرح نبی کی بیوی اگرچہ ایمان نہ بھی لائے بدکار نہیں ہوتی) کہ جس انسان کا نسب ہی درست نہ ہو وہ بےموسم اور بےمحل پودے کی مانند ہوتا ہے جس پر کبھی پھل نہیں آتا ، لہذا جن لوگوں کا نسب ہی درست نہ ہو انہیں ولایت بھی نصیب نہیں ہوتی اور نہ وہ خلق خدا کی رہنمائی کی اہلیت رکھتے ہیں یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کی بیوی بھی بدکار نہیں ہوسکتی اور نہ والدین بدکار ہوتے ہیں ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اگرچہ بعد میں عطا ہوئی مگر اعلان اسی وقت فرما دیا کہ نبی منتخب شدہ ہوتے ہیں اور نبوت وہبی دولت ہے جس کا فیصلہ ازل میں ہی کردیا گیا ، لہذا نبی عالم امر میں پشت پدر میں ، شکم مادر میں ، دنیا اور برزخ میں ہر جگہ نبی ہی ہوتا ہے اور نبوت اس کی ذات کا وصف بن جاتی ہے اگرچہ بعثت کا وقت خاص ہوتا ہے ، چناچہ فرمایا اللہ جل جلالہ نے میرجے وجود کو برکات سے بھر دیا ہے ، میں جہاں بھی جس عالم اور جس حالت میں ہوں گا مجھ سے اللہ جل جلالہ کی برکات کا ظہور ہوگا اور مجھے دار دنیا میں ہمیشہ عبادت گذاری اور مالی اور بدنی قربانی کا حکم ہے اور اپنی ماں کا حد درجہ احترام واکرام کرنے کا نیز اللہ نے مجھے نہ تو سخت گیر پیدا فرمایا ہے اور نہ بدبخت ، یہاں صرف والدہ کا ذکر فرما کر یہ ثابت کردیا گیا کہ والد کے بغیر پیدا ہوئے مگر سب سے پہلے کلمے میں یہ بھی بتا دیا کہ اگرچہ میری پیدائش بہت عجیب واقعہ ہے مگر میں اللہ جل جلالہ کا بندہ ہوں خود قابل پرستش نہیں بلکہ اللہ جل جلالہ کی عبادت کرنے والا ہوں ، اور اللہ جل جلالہ کا اس درجہ مقرب ہوں کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے مجھ پر سلامتی ہے جس روز میں پیدا ہوا جب مروں گا اور پھر جب دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا ۔ یہ عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) کے بارے حق اور کھری بات ہے جس میں لوگوں نے افسانے تراش لیے کہ یہود نے آپ کو یوسف نجار کی ناجائز اولاد ہونے کی تہمت لگائی جسے مرزا قادیانی صاحب نے بھی اپنے دعوؤں میں دہرایا ہے ، اگرچہ انہوں نے یوسف کو جائز باپ کہا ہے اور عیسائیوں نے اللہ جل جلالہ کا بیٹا قرار دیا جو سب باطل ہے اور قول حق اللہ جل جلالہ کا بیان کردہ ہے ، اللہ کی شان سے بعید ہے اس کی اولاد ہو کہ اولاد بھی تو باپ کی صفات کی حامل ہوتی ہے اور اس کی ذات تو بےمثل وبے مثال ، واحد ویکتا ہے اور اپنے ثانی یا شریک سے پاک وہ ایسا قادر ہے کہ جب چاہے اور جو چاہے اسی کو حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے سبحان اللہ موجود کی تو بات ہی کیا اور وہ معدوم کو بھی حکم دیتا ہے اور سب سے فرما دیجئے کہ اے لوگو ! بیشک اللہ جل جلالہ ہی میرا پروردگار ہے اور تمہارا بھی لہذا صرف اسی کی عبادت کرو اور دردر جبہ سائی چھوڑ دو کہ یہی سیدھا راستہ ہے اور اس پر واضح دلائل ہونے کے باوجود لوگوں نے مختلف عقیدے ایجاد کرلیے لہذا گمراہوں اور کفر اختیار کرنے والوں کو حشر کے روز جو بہت بڑا اور حساب کتاب کا دن ہے بہت بڑی خرابی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آج جو غلط فہمیاں یہ پیدا کر رہے ہیں سب ختم ہوجائیں گی اور سب کے سب خوب اچھی طرح دیکھتے بھی ہوں گے اور سنیں گے بھی اگرچہ اب دار دنیا میں یہ ان حقائق سے منہ موڑ کر گمراہ ہوچکے ہیں انہیں اس حسرت کے دن کا خوف دلائیے جب اعمال کا فیصلہ ہوگا تو کفار کو سخت حسرت ہوگی ، کاش ایمان لائے ہوتے اور یہ تو ظاہر ہے مگر یوم حسرۃ سے مراد ہے کہ مومن بھی حسرت کریں گے ۔ (یوم الحسرۃ) حسرت کریں گے جیسا کہ حضرت معاذ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل جنت کو بھی ان لمحات پر حسرت ہوگی جو بغیر ذکر کے گزر گئے ” او کما قال “۔ ” معارف “ آج یہ اس روز کو بھول رہے ہیں لہذا ایمان نہیں لاتے ، بیشک زمین وزمان اور جو کچھ ان میں ہے سب ہمارے ہیں اور کسی کو کتنی فرصت بھی عطا کردی جائے اسے اور سب کو پلٹ کر ہماری بارگاہ میں ہی آنا ہے ۔
Top