Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طا لب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں انکی حق تلفی نہیں کی جاتی۔
15۔ انس بن مالک ؓ اور حسن بصری کی روایت سے اگرچہ یہ آیت کافروں کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن مجاہد بن جبیر نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے یہ کہا ہے کہ آیت کا حکم ریا کاروں کو بھی شامل ہے اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہیں کہ کافر اور منافق یا مسلمان ریا کار جو کچھ عمل نیک دنیا میں کرتے ہیں اس کا بدلہ ان کو یہیں دنیا میں مل جاوے گا اور آخر میں ان کو بلا عمل جانا اور عذاب بھگتنا پڑے گا۔ مجاہد نے تیس دفعہ سارا قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے تفسیر سیکھنے کی غرض سے پڑہا اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا جو مرتبہ تفسیر کے باب میں ہے وہ کئی جگہ اوپر بیان ہوچکا ہے اس واسطے مجاہد کا قول جو اس آیت کی تفسیر اور شان نزول ہے وہ زیادہ معتبر ہے بلکہ سفیان ثوری نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تفسیر کے باب میں جب مجاہد کا قول آجاوے تو دوسرے کسی کی روایت کی پھر ضرورت نہیں اس واسطے امام بخاری نے بخاری کی کتاب التفسیر میں جس قدر مجاہد کے قول پر بھروسہ کیا ہے مجاہد کے ہم عصر اور لوگوں کی روایت پر نہیں کیا غرض بعضے مفسروں نے مجاہد کے قول کو اپنی تفسیروں میں ضعیف قول کی طرح جو نقل کیا ہے یا مجاہد کے قول کو نقل کر کے اس پر اعتراض جو کیا ہے وہ خود ایک ضعیف بات ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں محمود بن لبید ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا مسلمان ریا کاروں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرماوے گا کہ جن لوگوں کے دکھانے کے لئے تم نے دنیا میں نیک کام کئے تھے وہی تم کو ان کاموں کا بدلہ دیویں گے 1 ؎ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایسے عمل بالکل بیکار ہیں اس حدیث سے مجاہد کی روایت کی پوری تائید ہوتی ہے اس لئے کہ جن لوگوں کا ذکر آیت میں ہے ان لوگوں کی شان میں آگے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کے نیک عمل بیکار ہیں حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ان لوگوں میں ریا کار مسلمان بھی داخل ہیں اور یہی مطلب مجاہد کی روایت کا ہے۔ اب دونوں آیتوں اور حدیث کو ملا کر حاصل مطلب یہ ہوا کہ کافر اور منافق تو عقبے کی سزا و جزا کے منکر ہیں اور مسلمان ریا کار اگرچہ عقبیٰ کی سزا و جزا کے قائل ہیں لیکن ان کے بعضے نیک عمل عقبیٰ کی جزا کے خیال سے نہیں بلکہ دنیا کے دکھاوے کے خیال سے ہوتے ہیں اس لئے کافر اور منافقوں کے سب نیک عمل اور ریا کار مسلمانوں کے فقط دنیا کے دکھاوے کے عمل عقبیٰ کی جزا کے حساب سے یہ سب بیکار ہیں منافقوں سے مقصود یہاں اعتقادی منافق ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ظاہری مسلمان اور باطنی کافر تھے۔ عملی منافق مثلاً نماز میں سستی کرنے والے یا لڑائی جھگڑے کے وقت گالی منہ سے نکالنے والے آیتوں کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 456 باب الریاء والسمعۃ۔
Top