Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ : جبرئیل کے دشمن فَاِنَّهُ : تو بیشک اس نے نَزَّلَهُ ۔ عَلٰى قَلْبِکَ : یہ نازل کیا۔ آپ کے دل پر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَهُدًى : اور ہدایت وَبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لئے
آپ کہہ دیجئے کہ جو کوئی جبرائیل (علیہ السلام) سے دشمنی رکھے تو یقینا اس نے آپ کے قلب (اطہر) پر اللہ کے حکم سے اس (قرآن) کو پہنچایا جو تصدیق کرتا ہے اپنے سے پہلی (کتابوں) کی اور راہنمائی کرتا ہے اور ایمان والوں کو خوشخبری دیتا ہے
آیات 97- 103 اسرارومعارف جب علمائے بنی اسرائیل عقل ونقل میں عاجز ہوئے تو صورت ایک مباہلہ کی بنی ، جب وہاں بھی ناکام ہوئے تو اب سوائے تسلیم کے چارہ نہ تھا اور راہ وہ اختیار نہ کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ایک اور عذر لنگ تراشا کہ نبی تو برحق ہیں اور ہم مان بھی ضرور لیتے مگر یہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) مجھ پر وحی لاتے ہیں اور یہ وہ فرشتہ ہے جو بارہا ہم پر بربادی لایا اور ہمارے آبائو اجداد سے سختیاں کیں۔ اگر کوئی اور فرشتہ مثلاً میکائیل ہی وحی لاتا تو ضرور ہم بھی تسلیم کرتے مگر جبرائیل کے ساتھ ہماری بنتی نہیں ہے اس وجہ سے ہم نبوت محمدی ﷺ کا اتباع نہیں کرسکتے۔ یہ ساری بات انہوں نے جہلاء کو بہلانے کے لئے گھڑی ، مگر اللہ کریم نے یہاں بھی ان کے جھوٹ کا پول کھول دیا اور فرمایا ان جبرائیل کے دشمنوں سے فرمائیے کہ تمہیں فرشتوں سے برادری گانٹھنی ہے یا اس پیغام کو قبول کرنا ہے جو وہ اللہ کے حکم سے آپ ﷺ کے قلب اطہر پہ لاتے ہیں۔ یہاں باذن اللہ کہہ کر یہ ظاہر فرمایا کہ اللہ کریم کا کلام ذاتی ہے اور فرشتہ تو صرف لانے پر مامور ہے اس کا مہبط آپ ﷺ کا قلب اطہر ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لی جائے کہ انسان جس قدر علوم حاصل کرتا ہے ان کا خزانہ تو دماغ ہے پھر یہ نزول علم دل پر کیسا ؟ تو یہ جان لینا چاہیے کہ علم کی اقسام وہ ہیں مادی اور روحانی علوم مادیہ یا مادی کمالات کو سیکھنا ، محفوظ رکھنا اور ان کو عمل میں لانا دماغ کا کام ہے۔ دماغ اور دل کی صلاحیتوں میں فرق : جسم مادی ہے اس کی ضروریات مادی ہیں ، دماغ بھی ایک مادی جسم ہے جس کا کام جسم کی ضروریات کو جاننا اور ان کی تکمیل کی راہیں تلاش کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ مادی کمالات کے لئے ایمان ضروری نہیں ، کافر بھی ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر وغیرہ بن سکتا ہے۔ دوسرا علم روحانی ہے روح کا تعلق عام امر سے ہے وہاں کے علوم جاننا دماغ کے بس کی بات نہیں بلکہ دل کا کام ہے۔ وہ دل جو اس گوشت کے لوتھڑے میں اللہ نے رکھ دیا ہے جو حقیقتاً عالم امر ہی کا ایک لطیفہ ہے اللہ کی ذاتی عظمت کا شعور اس کی صفات کا ادراک آسمان سے بالا کی باتیں ، ارواح ، برزخ ، آخرت ، موت یا بعدالموت ، حشرونشر ، ثواب و عذاب ، جنت ، دوزخ یہ سب وہ حقائق ہیں جن کو روحانی علوم کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے جن کا مہبط دل ہے۔ اگر دماغ میں صلاحیت ہوتی تو ساری کائنات میں سب سے افضل دماغ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے آپ ﷺ کے دماغ کو خطاب فرمایا جاتا یا ان علوم کی تعلیم دی جاتی گر نہیں ، یہاں بسط سی قلب اطہر ہے۔ لہٰذا اس علم سے مستفید ہونے کے لئے روزن دل دا کرنا ہوگا تو فرمایا فرشتہ اللہ کا ذاتی کلام لایا جو براہ راست قلب اطہر نازل ہوا یہ بھی کلام کی عظمت کا انکار ہے کہ دماغ کی رسائی ہی سے بالا تر ہے بلکہ خود دماغ کی اصلاح کرنے والا ہے۔ یہ کہ کسی کا دماغ اس کی اصلاح کرنے لگ جائے۔ قرآن کے مصداق ہونے کا مفہوم : اپنے سے پہلے اس کلام کی جو کسی زمانے میں بھی اللہ کی طرف سے نازل ہوا تصدیق کرتا ہے یہ تصدیق بھی دو قسم کی ہے ایک تو مضمون اخبار میں پہلے کی تصدیق کرتا ہے ، مثلاً ذات وصفات باری ، حشرونشر ، حساب کتاب یا جنت دوزخ کے جو حقائق پہلی منزل من اللہ کتاب نے بیان کئے وہی یہ بیان کرتا ہے اور دوسری تصدیق حالاً ہے کہ ان سب کتابوں میں نبی آخرالزماں ﷺ اور اللہ کی آخری کتاب کے آنے کی پیشگوئی موجود ہے سو اس نبی ﷺ اور کلام نے آکر عملاً ان کی پیشگوئی سچی ثابت کردی۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی کتاب نازل نہ ہوگی اگر ایسا ہوتا تو قرآن صرف اپنے سے پہلے کی وحی کا مصدق ہی نہ ہوتا بلکہ بعد والے کلام کی پیشگی تصدیق فرمایا مگر ایسا نہیں ، پہلے کی بات کرتا ہے اپنے بعد کا کوئی امکان ہی نہیں رکھتا اس کے بعد کوئی شخص بھی اگر نزول وحی کا دعویٰ کرے گا تو کذاب ہوگا۔ وھدی اور راہ دکھاتا ہے یعنی بہترین رہنمائی کرتا ہے کہ جس قدر اصلو حیات یا طریق زندگی لوگوں نے بنائے ہیں ان میں رکھ کر دیکھ لو ، سب سے بہترین طرز حیات وہی ہے جو یہ کلام سکھاتا ہے اور یہ واحد طرز حیات یا ہدایت ہے جو پیدائش سے لے کر آخرت تک رہنمائی فرماتا ہے ورنہ باقی سب طریق حیات کم از کم موت سے آگے تو خاموش ہیں۔ وبشریٰ للمومنین ، اپنے ماننے والوں میں ایک ایسی روحانی خوشی اور خوشخبری تقسیم کرتا ہے جو انہیں آخرت کی لذتوں سے آشنا کردیتی ہے اور ایک ایسا سکون عطا فرماتا ہے جس کی لذت کو دنیاوی آلام بھی کم نہیں کرسکتے۔ ؎ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے یہ جملہ اس کلام کے اعجاز ہیں اور تمہیں اس کلام کو ماننا تھا ، مگر کیسے مانتے کہ جب تمہارا اصل مرض تو کفر ہے اور اللہ سے دشمنی تو فرمایا جو اللہ کا دشمن ہو اور اس کے فرشتوں اور پیغمبروں کا اور جبرائیل ومیکائیل کا ، اللہ تو خوددشمن ہے کافروں کا یعنی یہ جبرائیل سے دشمنی میکائیل سے دوستی نہیں بن سکتی بلکہ اس کا اصل سبب ہی اللہ سے دشمنی ہے تو جب اللہ ہی سے دشمنی ہے تو پھر سب فرشتوں تمام انبیاء سے دشمنی کا سبب ہے۔ اسی طرح جو بھی مقبولان بارگاہ الٰہی کا یا ان میں سے بعض کا دشمن ہوگا تو حقیقتاً وہ سب کا دشمن ہوگا بلکہ خود اللہ کا دشمن ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ میرے دو وزیر آسمانوں میں اور دو زمین میں ہیں آسمانوں میں جبرائیل ومیکائیل اور زمین پر ابوبکر وعمر ؓ الی آخر الحدیث ۔ تو گویا شیخین ؓ کا یا ان میں سے کسی ایک کا دشمن بھی اسی وعید کا مستحق ہوگا اور سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فان اللہ عدو للکفرین۔ کو خدا خود کفار کا بوجھ ان کے کفر کے دشمن ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ غضب الٰہی کا شکار ہو کر اللہ کے مقبول بندوں یا اس کے رسولوں اور فرشتوں کی عداوت میں مبتلا ہوں گے۔ چوں خدا خواید کہ پردہ کس درد میش اندر طعنہ نیکاں کند اور اسی طرح بالعکس جب راضی ہوتا ہے تو اسے اپنے مقبول بندوں کی محبت عطا فرماتا ہے اور ان کی مجلس میں پہنچاتا ہے یعنی نیک ہم نشین عطا فرماتا ہے پھر واضح اور بین دلیلیں اور روشن نشانیاں نازل فرمائیں ، کلام اللہ خود بہت بڑا معجزہ ہے علاوہ ازیں معجزات نبوی ظاہر و باہر اور بیشمار ہیں ان سے انکار کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں کر رہے بلکہ ہر مصیبت ان کی بداعمالیوں کی لائی ہوئی ہے کہ بدکاری نے دل کو اقرار کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے۔ اور یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ یہ تو نسلاً بعد نسل بدعہدی کرتے چلے آرہے ہیں جب بھی اللہ نے کوئی وعدہ لیا ان میں سے کسی نہ کسی فریق نے ضرور عہد شکنی کی بلکہ اکثر نے کی اور عملاً کم ہی لوگ ہوئے جو حق پر رہے۔ وہی حال آج ہے کہ آپ ﷺ پر ایمان لانے کا عہد بھی تورات میں موجود مگر ایمان لانے والے کم اور عہد شکنی کرنے والے زیادہ ہیں۔ ولما جاء ھم رسول ھن عنداللہ……کانھم لا یعلمون۔ جب ان کے پاس اللہ کا عظیم الشان رسول تشریف لایا جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا بھی ہے کہ اگر اس کا انکار کریں تو اس پیشگوئی کا کیا کریں گے جو ان کی کتاب میں موجود ہے اور جس کی حقانیت کے مدعی بھی ہیں۔ اور خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اس ساری بات کو ، آپ ﷺ کی ذات کو ، آپ ﷺ کے اوصاف و کمالات کو حتیٰ کو حلیہ مبارک تک سب جانتے ہیں ، مگر دیکھ لو کس طرح کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال رہے ہیں گویا کچھ جانتے ہی نہیں اور بجائے اتباع نبوت کرنے کے ان علوم کے اکتساب میں لگے ہوئے ہیں جو عہد حضرت سلیمان (علیہ السلام) میں شیطین پڑھا کرتے تھے۔ واقمومواما تتلو الشیطین علی ملک سسلینس………لوکانو یعطون۔ ہر اصل کے ساتھ نقل کا وجود ہے یہاں تک کہ اللہ کے مقابلے میں خدائی کے جھوٹے دعویدار موجود انبیاء کے مقابلے میں کذاب اور اولیا کے مقابلے میں نقال ہمیشہ رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بابرکت حکومت نے جو جن وانس ہی کو نہیں بلکہ درندہ پرند اور ہوا تک کو محیط تھی ، جذبہ نقالی کو ہوا دی اور کئی ایسے شوقین پیدا ہوئے جن کو جنات کی تسخیر کرنے کا خبط سمایا۔ شیاطین نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور بعض کفر یہ کلمات لوگوں کو تعلیم کئے جو کوئی ان الفاظ …………کو دہراتا۔ امکانی حد تک شیاطین اس کی مدد کرتے تاکہ یہ کفر سازی قائم رہے۔ سحرکی اصل اور تاثیر : سہی سحر کی اصل بنی جو آج تک مروج ہے اس کی اصل میں دو طرح کا کفر اور زندقہ پایا جاتا ہے یا تو الفاظ کفر یہ ہوتے ہیں اور اگر الفاظ قرآنی ہوں گے تو لکھنے کا طریقہ غلط ، مثلاً دم مسفوح سے لکھے جائیں گے نیز ساحر ہمیشہ گندے اور ناپاک رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ شیطان اسی حال کو پسند کرتا ہے جس طر ح سحر کرنے کے دو طریقے ہیں اسی طرح اس کی تاثیرات بھی دو قسم کی ہیں ایک تو یہ کہ آدمی کی نظر یاقوت متخیلہ متاثر ہو کر اس کے سامنے مختلف صورتیں متشکل کردیتی ہے واقعتا ایسا نہیں ہوتا جیسے فرعونی ساحروں کے بارے میں ارشاد ہے سحروا العین الناس اور بخیل الیہ من سحر ھم انھا تسعیٰ کہ لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا یا ان کے سحر کے اثر سے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال آتا کہ رسیوں کے سانپ بن کر دوڑ رہے ہیں ، گویا واقعی کچھ نہ تھا۔ رسیاں ویسی کی ویسی ہی تھیں مگر قوت متخیلہ متاثر ہو کر سانپ سمجھنے لگ گئی اور دوسری تاثیر یہ کہ جادو کے ذریعے کسی چیز کی حقیت ہی بدل جائے ، جیسے انسان کو پتھر یا کسی جانور کے قالب میں تبدیل کردیا جائے اس میں بات بہت طویل ہے کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں۔ اکثر کے نزدیک قلب ماہیت محال ہے واللہ اعلم۔ غرضیکہ ان لوگوں یعنی بنی اسرائیل نے کتب سماوی کو چھوڑ کر شیطانی تعلیمات کو اپنایا۔ یہاں تک کہ اللہ نے بائبل کے مقام پر دو فرشتے نازل فرمائے کہ جو جادو اور کلام اللہ میں فرق بیان کریں اور جادو کو خرابی سے لوگوں کو مطلع کریں۔ اجمالاً تو جادو کا غلط ہونا تعلیمات انبیاء نے واضح کردیا تھا مگر جادو کی قسمیں اور باریکیاں اور اس کے مروج الفاظ سے بحث انبیاء کا منصب ہی نہ تھا اور فرشتے جو کارخانہ تکوین میں ہر کام بجا لاتے ہیں۔ اللہ نے ان کو مقرر فرمایا کہ انسیاء صرف تشریعی امور بجا لاتے اور مظہرہدایت ہوتے مثلاً حضور ﷺ نے یہ تو فرمایا کہ جوا حرام ہے اور اس کی وجہ بھی ارشاد ہوئی کہ نقصان یقینی اور نفع موہوم ہو تو یہ جوا ہوگا۔ مگر کس طرح ، تاش کے پتوں پہ یا کسی اور چیز سے کھیلا جاتا ہے ان جزئیات سے بحث کرنا گویا جوئے کے مختلف طریقے بیان کرنا ہے جن کو سن کر کوئی بدباطن جوا شروع کرسکتا ہے کہ طریقہ تو اس نے سن ہی لیا۔ سو یہ بات نبی کی شان کے لائق نہیں اسی طرح جادو کی جزئیات بیان کرنا بھی کسی نبی کو زیب نہیں دیتا تھا۔ اس لئے یہ کام اللہ نے فرشتوں سے لیا اور ہاروت وماروت دو فرشتے نازل فرمائے جن کے فرشتہ ہونے پر دلائل قائم کردیئے گئے جیسے نبی کی نبوت کے اثبات کے لئے معجزات ، اور انہوں نے اپنا کام شروع کردیا کہ یہ علم نہ سلیمان (علیہ السلام) کا ہے اور نہ انبیاء کو زیب دیتا ہے یہ سب شیطانی جادو ہیں اور ان سے بچو۔ نیز جادو کی جزئیات بھی بیان کیں کہ کیا کرنے ہے کیا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے جو اشتباہ اور التباس معجزات اور شعبدہ میں پیدا ہوچلا تھا اسے بھی ظاہر فرمایا کہ جادو اور سحر کسی جن یا شیطین یا اسی طرح کی مخلوق کا عمل ہوتا ہے۔ معجزہ اور شعبدہ میں فرق : فرق یہ ہے کہ اس کا سبب عام نظر سے اوجھل ہوتا ہے مگر معجزہ اسباب سے بالاتر ہوتا ہے اور براہ راست فعل باری۔ یہ بھی ایک لطیف بات ہے اور عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر۔ اس سے بھی آسان فرق ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ معجزہ دین کی تائید نبوت کے اثبات اور احکام الٰہی کے قیام کے لئے ہوتا ہے۔ برخلاف اس شعبدہ بازیا جادو گر ہمیشہ اپنی عظمت منوانے کے لئے کوشاں رہتا ہے اسی طرح کرامت بھی وہی ہوگی جو احیائے دین کے لئے ظاہر ہو اور ایسی عجیب بات کا اظہار ، جو محض اپنی ذات کا لوہا منوانے کے لئے ہو شعبدہ ہوگا۔ نیز ایک صاف پاک ، طیب و طاہر قول سے متعلق ہوگا جبکہ دوسرا قول وفعل کی قباحت پر استوار ہوگا۔ رحمت باری دیکھو کہ فرشتوں کو تعلیم پر مقرر فرمایا اور جب تک چاہا زمین پر رکھا مگر ان کی کج فہمی اور بدمزاجی ملاحظہ ہو کہ باوجود اس کے کہ وہ فرشتے جزئیات سحر بیان کرنے سے پیشتر تاکید کرتے اور ہر فرد کو آگاہ کرتے جو بھی ان کے پاس جاتا اسے کہتے کہ میاں یہ جادو نرا کفر ہے اور ہمارا وجودبھی تمہارے لئے ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ جادو کی باریکیاں سیکھ کر جادو ہی میں مبتلا ہوجائو ، اور اسی طرح کا فر نہ بن جانا یعنی فلا تکفر۔ مگر یہ ایسی باتیں سیکھتے جن کے ذریعے سے مرد اور اس کی بیوی میں تفریق ہوسکے یعنی پرائی عورتوں کو پھانستے پھرتے اور وہی کاروبار یہود اب تک یعنی آپ ﷺ کے عہد مبارک تک کرتے چلے آرہے ہیں۔ افسوس ! آج یہ سارا کاروبار یہود سے بڑھ کر مسلمانوں میں بھی پھیل چکا ہے اور اکثریت کے ایمانوں کو ضائع کرتا چلا جارہا ہے ۔ مگر ایک بات یاد رہے وما ھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ کہ جادو گر جو چاہے کرے یہ ممکن نہیں اور نہ اس خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت۔ یہ تو کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے مگر ہاں جب اللہ ہی اجازت دے دے۔ یعنی جب کسی سے حفاظت الٰہیہ ہی اٹھ جائے تو اسے تو یہ گیند بنالیتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کا ایمان و عقیدہ درست ہو اور اللہ کی اطاعت کرنے والا ہو تو اس کی حفاظت الٰہی حاصل ہوتی ہے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ جیسے عاصم بن بعید یہودی نے حضور اکرم ﷺ پر جادو کیا تو اللہ نے ساری حرکت سے حضور ﷺ کو مطلع فرما دیا اور کنگھی ، بال اور کفجور وغیرہ نکال لی گئی یا وہ کنواں جس میں یہ پھینکی گئی تھیں صاف کردیا گیا۔ جادو کی تاثیر : اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جادو کی تاثیر ہوتی ہے اور انبیاء بھی متاثر ہوسکتے ہیں جیسے بھوک یا پیاس وغیرہ امور طبعی سے متاثر ہوتے ہیں مگر ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا الٹا منہ کی کھاتا ہے۔ اسی طرح عاملوں کی ساری عمر کا عمل کامل کی ایک نگاہ سے زائل ہوجاتا ہے ۔ مگر یہاں جو بدنصیب خدا کو چھوڑ بیٹھتے ہیں ان پر حکومت جادوگروں ہی کی ہوتی ہے جیسے ہندو کہ کبھی پنڈتوں کے چکر سے نہیں نکل سکتے یا بدعتی اور گمراہ فرقے کو ہمیشہ ٹونے ٹوٹکے والوں کے اسیر رہتے ہیں۔ یہ بدعتی ایسے علوم کی تحصیل میں عمریں کھپا دیتے ہیں جو اگرچہ وقتی طور پر عارضی فوائد ، دنیا یا جاہ کا سبب تو ہیں مگر نتیجتاً ہمیشہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں کہ ابدی ذلت میں مبتلا کرتے ہیں اور جن سے کسی بھی طرح کا حقیقی فائدہ نہیں۔ ولقد علموا یہ بات بھی خوب جانتے ہیں کہ جس کسی نے کتاب اللہ کی بجائے عمر تحصیل سحر کی نذر کردی اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ، اور وہ ہمیشہ ذلت میں گرفتار ہوا اور کس قدر عظیم مصیبت ہے جو یہ اپنی جانوں کے لئے مول لے رہے ہیں یعنی محنت ومشقت اور طرح طرح کی چلہ کشیاں کرکے حاصل کیا ہوگا جہنم کتنا گھاٹے کا سودا ہے کتنا ہی اچھا ہوتا کہ یہ اس بات کو سمجھ پاتے اور ٹونے ٹوٹکے اور جادو کی جگہ آپ کی مبارک تعلیمات کو اپنا کر ولوانھم امنو یعنی آپ ﷺ کی تعلیمات کو قبول کرتے واتقوا اور ان پر عمل پیرا ہوتے نیکی اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کریم کے ہاں بہت بہتر بدلہ اور اجر پاتے۔ کاش ان میں اس قدر عقل ہوتی اور اتنا علم رکھتے کہ حق و باطل میں تمیز کرسکتے۔ یہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خلاف سنت زندگی گزارنے والا شخص بےعلم اور بیوقوف بھی ہے خواہ فی زمانہ اسے دانشور ہی کا خطاب کیوں نہ ملا رہے ساری دانش ساری بینش کا خلاصہ اتباع نبوی ہے۔
Top