Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ : جبرئیل کے دشمن فَاِنَّهُ : تو بیشک اس نے نَزَّلَهُ ۔ عَلٰى قَلْبِکَ : یہ نازل کیا۔ آپ کے دل پر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَهُدًى : اور ہدایت وَبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لئے
آپ کہہ دیجئے جو شخص جبرائیل (علیہ السلام) کا دشمن ہے۔ پس بیشک یہ (قرآن پاک) اسی نے آپ کے دل پر نازل کیا۔ اللہ کے حکم سے۔ یہ تصدیق کرنے والا ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے ہیں۔ اور یہ اہل ایمان کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے
شان نزول : یہودیوں کی خرابیوں کا تذکرہ تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے۔ آیات زیر درس کے شان نزول کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 349 ، تفسیر طبری ج 1 ص 431 ، ابن کثیر ج 1 ص 129) کہ حضرت نبی (علیہ السلام) کی ہجرت مدینہ کے وقت مدینہ کے گردو نواح میں بہت سے یہودی آباد تھے۔ یہودی علماء میں سے صرف ایک عالم حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ ایمان لائے باقی سب محروم ہی رہے ان میں سے ابن صوریا یک چشم تھا ۔ وہ بعض دوسرے یہودیوں کے ہمراہ حضور نبی کریم ﷺ کا امتحان لینے کے لیے آیا۔ اور آپ سے مختلف سوال کیے۔ اس نے کہا آخری نبی کے خواب سے متعلق ہماری کتابوں میں بعض نشانیاں موجود ہیں۔ آپ اپنے خواب کی کیفیت بیان فرمائیں۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا “ ان عینی تنامان ولا ینام قلبی ” یعنی میری آنکھیں تو بیشک سوتی ہیں۔ مگر دل کبھی نہیں سوتا۔ اس کی اس نے تصدیق کی کہ آپ ٹھیک فرماتے ہیں۔ ہماری کتابوں میں بھی نبی آخر الزمان کی یہی نشانی بتائی گئی ہے۔ اس شخص نے دوسرا سوال کیا۔ کہ رحم مادر میں جنس کی تفریق کیسے ہوتی ہے۔ یعنی بچے اور بچی کی پیدائش میں کون سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مرد کا مادہ منویہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔ اور عورت کے رحم کی رطوبت زردرنگ کی ہوتی ہے۔ فرمایا مباشرت کے وقت جس مادہ کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ بچے کی شکل و صورت اس کے موافق ہوتی ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ غلبے سے کیا مراد ہے۔ مقدار میں غلبہ ہوتا ہے۔ یا خروج میں سبقت ہوتی ہے یا کسی صفت میں غلبہ ہوتا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ تاہم حضور ﷺ نے ہی بتایا کہ مرد اور عورت میں سے جس کے مادہ میں غلبہ ہوتا ہے۔ وہ مشابہت میں بچے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ یہودیوں نے کہا کہ یہ بھی آپ نے درست جواب دیا۔ ہماری کتابوں میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ حضور ﷺ نے ان یہودیوں سے فرمایا کہ جب تم میرے جوابات سے مطمئن ہو تو پھر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ کہنے لگے ہم ایک اور سوال پوچھیں گے ۔ حضرت ! یہ فرمائیے۔ کہ جو لوگ بہشت میں داخل ہوں گے انہیں سب سے پہلئ کونسی خوراک پیش کی جائیگی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔ کہ جنتیوں کی اولین خوراک مچھلی کے جگر کا زائد حصہ ہوگا۔ اور پھر دوسرے نمبر پر ان کو بیل کا گوشت پیش کیا جائے گا۔ جو جنت کے اطراف میں چرتا ہے یہودیوں نے کہا کہ یہ بھی آپ نے درست فرمایا ہے۔ اب حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نے آخری نبی کی تمام علامتیں پہچان لی ہیں تو پھر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ انہوں نے کہا کہ اچھا ایک بات اور بتائیے۔ کہ آپ کے پاس وحی کون لاتا ہے۔ آپ نے فرمایا ، مجھ پر جبریل (علیہ السلام) وحی لاتے ہیں۔ وہ کہنے لگے جبرائیل تو ہمارا دشمن ہے۔ اگر وہ وحی لاتا ہے تو ہم اس کو نہیں مانتے۔ ہاں اگر میکائیل (علیہ السلام) وحی لاتا تو ہم مان لیتے۔ کہنے لگے جبرائیل کو دو وجوہات کی بنا پر ہم تسلیم نہیں کرتے ۔ اول یہ کہ یہ قوموں پر عذاب لاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے ہمارے دشمن بخت نصر کی حمایت کی تھی۔ اس کی تفصیل انہوں نے یوں بیان کی۔ کہ ہمارے پیغمبروں نے ہمیں بتایا تھا۔ کہ بخت نصر نامی بادشاہ تمہیں تباہ و برباد کرے گا۔ لہٰذا اسے بچپن میں ہی قتل کردینا۔ پیغمبروں نے اس کی نشانیاں بتائیں اور یہ بھی بتایا کہ وہ اوائل عمر میں فلاں جگہ پر ملے گا۔ اور فلاں کام کرتا ہوگا۔ چناچہ ہمارے سرداروں نے بخت نصر کی تلاش میں چاروں طرف آدمی بھیج دے۔ اور انہوں نے شہر بابل میں انہی نشانیوں کے ساتھ بخت نصر کو تلاش کرلیا۔ جب اسے ہلاک کرنے لگے تو جبرائیل (علیہ السلام) سامنے آکھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم اس کو کیوں مارتے ہو۔ ہم نے کہا کہ یہ ہمارا قاتل ہے۔ اور ہماری تباہی کا باعث بنے گا۔ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر یہ واقعی قاتل ہے۔ تو تم اسے ہلاک نہیں کر سکوگے۔ اور اگر یہ تمہارا قاتل نہیں ہے تو خواہ مخواہ خون ناحق کے مرتکب ہوتے ہو۔ اس طرح جبرائیل (علیہ السلام) نے بخت نصر کو ہلاک ہونے سے بچا لیا۔ وہی بخت نصر جب بڑا ہوا تو اس نے شام اور فلسطین کے علاقوں میں بڑی تباہی مچائی اور بہت المقدس کو گرا دیا۔ توراۃ کو جلایا یہودیوں کو قتل کیا اور ان کو غلام اور لونڈیاں بنایا۔ چناچہ یہ لوگ سو سال تک غلامی میں مبتلا رہے اور بڑی ذلت و رسوائی اٹھائی۔ یہودیوں نے کہا کہ جبرائیل (علیہ السلام) پر ہمارا اور اعتراض یہ ہے کہ یہ آپ کے پاس ہماری چغلیاں کھاتا ہے۔ ہماری ساری باتیں آپ کو بتا دیتا ہے۔ لہٰذا اس کے ذریعے نازل ہونے والی وحی کو ہم ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہودیوں کے ان اعتراضات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں اور ان کی گندی ذہنیت کا رد فرمایا۔ اور بتایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں۔ وہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں۔ لہٰذا انکے ساتھ دشمنی رکھنا کفر کے مترادف ہے۔ جبر ، میک ، سراف ان تینوں لفظوں کا معنی عبد ، بندہ یا مرد خدا ہے ۔ اور ایل عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ گویا دونوں لفظ مل کر عبد اللہ کا معنی دیتے ہیں۔ اس طرح جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کا معنی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 354 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 230) ان میں عزرائیل کا نام شامل نہیں ہے۔ بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ عزرائیل ملک الموت کا لقب ہے۔ الغرض ! جب یہودیوں نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنا دشمن قرار دیا تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ قل من کان عدوا لجبریل ” کہ کہہ دیجئے جو کوئی جبرائیل (علیہ السلام) کا دشمن ہے۔ “ فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ ” اس نے تو قرآن پاک آپ کے قلب مبارک پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اتارا ہے۔ اس کے ساتھ کسی کی دشمنی کا کیا جواز ہے۔ نزول وحی کی مختلف صورتیں : نزول وحی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ عام صورت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام حضور نبی کریم ﷺ کے قلب مبارک پر نازل کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے تھے۔ تو حضور ﷺ کے قلب کے ساتھ رابطہ قائم ہوجاتا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج کل ٹیلیفون کا کنکشن مل جاتا ہے یہ خاص قسم کی رو ہوتی تھی جس کے فدیعے پیغمبر (علیہ السلام) اپنے کانوں سے اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے تھے۔ اور اسے خوب سمجھتے تھے اور اس کے الفاظ کو جانتے تھے۔ اور بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ کوئی بات آنحضرت ﷺ کو بذریعہ خواب بتا دی جاتی تھی یا بعض دفعہ فرشتہ کسی شکل میں متشکل ہو کر آتا تھا۔ اور کلام الٰہی پیش کرتا تھا تاہم عام طور پر پہلی صورت میں یعنی قلب مبارک سے رابطہ قائم ہوتا تھا۔ ایک دفعہ حضور ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 2 ص 691) کہ ہم آپ کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ آپ کثرت سے کیوں نہیں آتے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا “ ما نتنزل الا بامر ربک ” ہم تو صرف آپ کے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے ہم حاضر ہوجاتے ہیں ہم اپنی مرضی سے نہیں آسکتے۔ مقرب فرشتے : حدیث شریف میں آتا ہے (2 ۔ زجاجۃ المصابیح ج 1 ص 207 ، مشکوۃ ص 71 تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 359) کہ ایک دفعہ جبرائیل (علیہ السلام) حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو بتایا کہ اب کی دفعہ میں اللہ تعالیٰ کے بہت ہی قریب پہنچ گیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ جبرائیل یہ تو بتاؤ کہ تم اللہ تعالیٰ کے کس قدر قریب پہنچ گئے عرض کیا۔ کہ میرے اور اللہ کے درمیان صرف ستر ہزار پردوں کا حجاب رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب پہنچ گیا اسی لیے ان کو اللہ تعالیٰ کے مقربین فرشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے (3 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 359) کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل (علیہ السلام) کو ہر روز اجازت ہوتی ہے کہ جنت کی نہر کوثر میں غوطہ لگائیں۔ چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) ہر روز ایسا ہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے غیر محدود روحانیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ کے مختلف القاب میں ناموس اعظم ، روح اعظم ، روح القدس اور روح الامین وغیرہ شامل ہیں۔ جبرائیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سب سے مقرب فرشتے ہیں۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) پر وحی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے توسط سے ہی آتی رہی ہے۔ میکائل (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دوسری تکوینی امور کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ جیسے نبی نوع انسان کی روزی رسانی اور بارش کا نزول وغیرہ اسی طرح حضرت اسرافیل (علیہ السلام) عالم کے فنا کے لیے بگل بجانے کی تیاری کر رہے ہیں اور عزرائیل (علیہ السلام) جن کا لقب ملک الموت ہے وہ جانداروں کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں “ قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم ” اسی بات کی طرف اشارہ ہے شاہ رفیع الدین محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (4 ۔ مجموعہ رسائل حضرت اہ رفیع الدین ص 31) کہ حدیث میں جن چار حاملین عرش فرشتوں کا ذکر ہے۔ وہ یہی فرشتے ہیں۔ قیامت کے دن عر الٰہی کو تھامنے والے آٹھ فرشتے ہوں گے۔ ان چار کے ساتھ چار اور معاون ہوجائیں گے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے دشمنی : الغرض فرمایا اے بنی اسرائیل ، جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ تمہاری دشمنی بلاوجہ ہے۔ “ قل من کان عدو الجبریل ” آپ فرما دیجئے جو جبرائیل (علیہ السلام) کا دشمن ہے ۔ “ فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ ” اس نے تو یہ کلام الہی تمہارے قلب مبارک پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل کیا ہے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم بجالاتا ہے۔ خواہ وہ چیز تمہاری موافقت میں جائے یا مخالفت میں جائے۔ اور پھر یہ کلام بھی ایسا ہے۔ جو قطعا تمہاری مخالفت نہیں کرتا۔ بلکہ یہ تو “ مصدقالما بین یدیہ ” اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس لحاظ سے یہ سابقہ کتب کی تعلیمات کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ دوسرے مقام پر “ مھیمنا ” کا لفظ آتا ہے۔ قرآن پاک سابقہ کتب کا محافظ ہے۔ ان کا نچوڑ اس آخری کتاب میں آگیا ہے۔ اسی طرح پہلی کتابوں میں جو ملاوٹ ہوچکی ہے۔ ان کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ لہٰذا ایسی پاک کتاب کا انکار اور اس کے لانے والے سے دشمنی رکھنا کیسے جائز ہے۔ بلکہ یہ تو نہایت ہی قبیح فعل ہے۔ یہ تو ایسی عظیم الشان کتاب لاتا ہے۔ جس کے لیے نوع انسان ہمیشہ دعاگو رہی ہے۔ کہ “ اھدنا الصراط المستقیم ” اے اللہ ! ہم کو راہ راست دکھا دے اور اس پر چلا دے۔ اہل ایمان کے لیے بشارت : فرمایا کلام ایسا ہے جو کہ “ وھدی وبری للمؤمنین ” ہے اس کے ذریعے اللہ نوع انسان کو ہدایت بخشتا ہے۔ اور پھر اس ہدایت کی روشنی میں جو لوگ ایمان قبول کرلیتے ہیں۔ ان کے لیے دائمی کامیابی کی بشارت بھی سناتا ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے ۔ “ بشر الذین امنوا وعملوا الصلحت ” اہل ایمان اور اعمال صالحہ کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں۔ کن کن نعمتوں کی خوشخبری اس کا ذکر قرآن پاک نے بار بار کیا ہے۔ کہیں فرمایا “ ان لھم جنت تجری من تحتھا الانھر ” ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہوں گی۔ کہیں فرمایا “ فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر ” وہ اللہ رب العزت کی بیٹھک یعنی اس کے حضور میں بیٹھے ہوں گے ، دوسری جگہ بشارت اس طرح ہے۔ “ فان تطیعوا یؤتکم اللہ اجرا حسنا ” اگر اطاعت کروگے تو اللہ تعالیٰ بہترین اجر عطا فرمائیں گے۔ بہرحال اہل ایمان کو اصلاح اور کامیابی کی بشارت سنائی گئی ہے۔ اب بتاؤ ایسا پاک کلام لانے والے جبرائیل (علیہ السلام) سے دشمنی کا کیا معنی ہے۔ فرشتوں سے دشمنی اللہ تعالیٰ سے دشمنی ہے : فرمایا “ من کان عدوا للہ وملکئکۃ ورسلہ وجبریل ومیکل فان اللہ عدو للکفرین ” یعنی اے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں جبرائیل ، میکائل وغیرہ سے دشمنی رکھنا تو خود اللہ تعالیٰ سے دشمنی ہے۔ گویا یہ لوگ فرشتوں کے دشمن نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے دشمن ہیں فرمایا اگر ایسی بات ہے تو پھر سن لو “ فان اللہ عدو للکفرین ” اللہ تعالیٰ بھی کافروں کا دشمن ہے۔ ظاہر ہے کہ ملائکہ یا انبیاء (علیہم السلام) تو عالم بالا یعنی خطیرۃ القدس کے ترجمان ہیں۔ ان کے ساتھ دشمنی بڑی مہنگی پڑے گی۔ کیونکہ یہ خدا تعالیٰ سے دشمنی کے مترادف ہے۔ لفظ ملائکہ ملو کہ یا الو کہ سے مشتق ہے۔ اور ملوک عربی میں پیغام کو کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت عرب کے قدیم شاعر عدی بن زید عبادی کے کلام سے ملتا ہے۔ اسے نعمان شاہ عراق نے کسی بات پر خفا ہو کر قید میں ڈال دیا بادشاہ اس کا رشتہ دار بھی تھا۔ بہرحال اس نے اپنے شعروں میں نعمان کو پیغام بھیجا تھا۔ ؎ ابلغ النعمان عنی مالکا انہ قد طال حبسی وابتغاری نعمان کو میرا پیغام پہنچا دو ۔ اس نے بلاوجہ مجھے لمبی قید میں ڈال رکھا ہے۔ میں اس کے حکم کا منتظر ہوں کہ کب رہائی ملتی ہے۔ یہ کافی لمبا قصیدہ ہے۔ عرب کے ایک شاعر کے کلام میں بھی ایسا ہی ملتا ہے۔ یہ عربوں میں بہت مشہور تھا۔ اور اسے عربوں کا باحا کہا جاتا تھا۔ اس کی زبان سے نکلا ہوا شعر بہت شہرت حاصل کرتا تھا۔ اور پورے عرب میں فوراً پھیل جاتا تھا۔ اس نے حضور ﷺ کا زمانہ پایا ہے۔ وہ شخص ایمان لانے کے لئے حضور ﷺ کی خدمت میں آرہا تھا کہ کفار نے سازش کے ذریعے اسے راستے میں ہی روک لیا۔ وہ اپنے گاؤں میں بھی واپس نہ پہنچ سکا۔ بلکہ دوران سفر ہی اونٹ سے گر کر ہلاک ہوگیا۔ وہ بھی کہتا ہے۔ ؎ ابلغ یزید بنی شیبان مالکۃ ابا ثبیب اما تنفک تاتکل یزید بن شیبان سردار قبیلہ تک میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اے ابو ثبیب کیا تو ہمیشہ غلط بیانی ہی کرتا رہے گا۔ مطلب یہ کہ مالکا یا ملو کہ یا الو کہ کا معنی پیغام ہے۔ اور ملائکہ بھی اسی سے مشتق ہے جس کا معنی پیغام لانے والے کے ہیں۔ مقربین کا عنادی لعنتی ہے : الغرض ! جو کوئی اللہ تعالیٰ کے فرشتوں اور اس کے رسولوں سے دشمنی رکھتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ سے دشمنی مول لیتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے مقربین سے عناد رکھنے والا لعنتی ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص 56) کہ مقربین الٰہی اور صالحین سے عداوت رکھنے والا شخص ہمیشہ نجاست میں مبتلا رہتا ہے۔ گویا وہ ہمیشہ خیانت کی سی حالت میں ہے اور یہ چیز موجب لعنت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (2 ۔ مستدرک حاکم ج 4 ص 228) “ من عادی لی ولیا ” جو میرے کسی ولی یا دوست سے دشمنی رکھتا ہے۔ اسے میرا چیلنج ہے کہ وہ میرے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کون جنگ کرسکتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ایسا شخص ملعون ہے۔ واضح نشانیاں : جس وقت حضور ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو اس زمانے میں مدینے کے قرب و جوار میں یہودیوں کے دس بڑے عالم تھے حضور ﷺ نے فرمایا (3 ۔ بخاری ج 1 ص 562 ، مسلم) کہ اگر یہ عالم ایمان لے آئیں تو کوئی یہودی باقی نہ رہے۔ سب ایمان لے آئیں۔ ان میں سے صرف عبد اللہ بن سلام ؓ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے۔ باقی سب بےایمان ہی رہے۔ انہی میں ایک عالم ابن صوریا تھا۔ اس نے حضور ﷺ سے کہا کہ آپ آخر الزمان ہونے کے دعویدار ہیں۔ اس دعوے کے ثبوت میں آپ ہمیں کوئی واضح نشانی بتائیں جسے ہم پہچانتے ہوں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ ولقد انزلنا الیک ایت بینت ” یعنی ہم نے آپ کی طرف واضح نشانیاں نازل کی ہیں جس شخص میں ذرہ بھر بھی انصاف ہوگا۔ وہ ان نشانیوں کا انکار نہیں کرسکے گا فرمایا “ وما یکفر منھا الا الفسقون ” ان کھلی نشانیوں کا انکار صرف نافرمان لوگ ہی کریں گے۔ کتاب اللہ سے روگردانی : فرمایا ان کمبختوں کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے کہ “ اوکلھا عھدوا عھدا ” ان میں سے جب بھی کسی نے کوئی عہد کیا “ نبذہ فریق منھم ” ان میں سے ایک فریق نے اس عہد کو توڑ دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ “ بل اکثرھم لا یؤمنون ” ان کی اکثریت ایمان لانے سے قاصر رہی ہے۔ حتیٰ کہ “ ولما جآءھم رسول من عند اللہ ” جب ان کے پاس رسول اعظم ، خاتم النبین ﷺ تشریف لے آئے۔ “ مصدق لما معھم ” جو اس چیز کی تصدیق کرنے والے ہیں جو ان کے پاس ہے یعنی زبور ، توراۃ ، انجیل۔ دیگر تمام صحف سماویہ۔ شرائع الٰہیہ وغیرہ۔ تو پھر یہ ہوا کہ “ نبذ فریق من الذین اوتوا الکتب ” اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے پھینک دیا۔ “ کتب اللہ ” اللہ کی کتاب کو “ ورآء ظھہورھم ” پس پشت یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب توراۃ سے روگردانی اختیار کرلی۔ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو کسی درجے میں بھی تسلیم کرتے تو خاتم النبین ﷺ کی تصدیق کرتے اور قرآن پاک کو بھی مان لیتے۔ مگر انہوں نے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا یعنی اس میں تحریف کے مرتکب ہوئے۔ اس کے الفاظ کو تبدیل کردیا۔ یا الفاظ کے معنی الٹ دے اور یہ سب کچھ انہوں نے اس طرح کیا “ کانھم لا یعلمون ” گویا وہ جانتے ہیں نہیں کہ کتاب اللہ میں کیا پیش گوئیاں ہیں۔ اور کون سی علامتیں بتائی گئی ہیں۔ جن کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور آکری رسول (علیہ السلام) کی پہچان ہو سکتی ہے۔ اگر ان میں کوئی بھی منصف مزاج آدمی ہوتا ! تو وہ دونوں چیزوں کو بلاشک وشبہ پہچان لیتے۔ اس کے بعد یہودیوں کے سحر وغیرہ کا ذکر آئیگا۔
Top