Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ : جبرئیل کے دشمن فَاِنَّهُ : تو بیشک اس نے نَزَّلَهُ ۔ عَلٰى قَلْبِکَ : یہ نازل کیا۔ آپ کے دل پر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَهُدًى : اور ہدایت وَبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لئے
آپ کہہ دیجئے جو کوئی جبرائیل کا مخالف ہے،339 ۔ تو انہوں نے اس (قرآن) کو آپ کے قلب پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے،340 (وہ) تصدیق کرنے والا ہے اس (کلام) کا جو اس کے قبل سے ہے اور ہدایت ہے اور ایمان والوں کے لیے خوشخبری ہے،341 ۔
339 ۔ (آیت) ” جبیریل “ اسلامی اصطلاح میں ایک فرشتہ اعظم کا نام ہے۔ ان کے سپرد ایک اہم خدمت انبیاء کرام تک وحی کے پہنچانے کی ہے۔ انسان، بڑے سے بڑا مقبول انسان بھی بہرحال بشر ہی ہوتا ہے، اور جسم خاکی ہی رکھتا ہے، اس کے محدود اور کثیف خاکی قوی علی العموم اتنا تحمل نہیں رکھتے کہ براہ راست تجلیات لاہوتی کی شعاعوں کو قبول کرسکیں۔ اس غرض کے لیے عموما لطیف الجسم، نور کے بنے ہوئے فرشتوں سے، سفارت وتوسط کا کام لیا جاتا ہے، یہود بھی وجود ملائکہ کے قائل تھے، بلکہ خود حضرت جبرئیل کو بھی ایک فرشتہ اعظم مانتے تھے، اور ان کا ذکر توریت میں آج تک موجود ہے، لیکن اپنی نادانی سے خیال یہ جمالیا تھا کہ وہ ایک فرشتہ عذاب ہیں، ان کا کام وحی لانا نہیں، عذاب لانا ہے۔ اور وحی لانا تو کام ایک دوسرے فرشتہ حضرت میکائیل کا ہے۔ اپنے ان مفروضہ مقدمات ومسلمات کے بعد وہ رسول ﷺ پر معترض ہوتے تھے کہ یہ نئے مدعی نبوت اپنی وحی کے سلسلہ میں نام حضرت جبرائیل کا کیوں لاتے ہیں، یہاں تعرض یہود کی اسی غلط اندیشی سے کیا جارہا ہے۔ موجودہ توریت میں بار بار ذکر ایک ایسے فرشتہ کا آتا ہے جو لوگوں کو مارتا تھا۔ “ (2 ۔ سموئیل۔ 44: 16، 17) اور علمائے یہود نے اس سے مراد فرشتہ جبرئیل ہی سے رکھی تھی، آج بھی یہود حضرت جبرئیل کو حضرت میکائیل کا ہمسر وہم پلہ نہیں، ان سے کمتر ہی سمجھتے ہیں۔ (جیوش انسائیکلو پیڈیا، جلد 5 صفحہ 54 1) 340 ۔ (پھر ان سے مخالفت وعداوت وبدگمانی کے کیا معنی ؟ ) یہاں یہود کے جہل کو رفع کیا گیا، اور بتایا گیا کہ حضرت جبرئیل کے نام سے چڑنا کیا معنی، وہ تو خدا کے ایک معتمد سفیر ہیں ، ، اور خدمت سفارت پر مامور۔ (آیت) ” باذن اللہ “۔ اذن کے معنی لغت میں علاوہ لغت میں علاوہ اجازت کے حکم یا ارشاد کے بھی ہیں، ویکون باذنہ اے بامرہ (لسان) ویکون الامر اذنا (تاج) چناچہ یہاں بھی (آیت) ” اذن اللہ “ سے مراد اللہ کا حکم یا ارشاد ہی ہے، اے باذن اللہ (معالم) فالاظہر بامر اللہ (کبیر) اے بامرہ (بیضاوی) 341 ۔ یہاں کلام مجید نے اپنے تین وصفت متعین طور پر بیان کیے :۔ ایک یہ کہ وہ گزشتہ انبیاء اور سابق صحیفوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کا پیام کوئی نرالا اور انوکھا نہیں، وہی توحید کا پرانا سبق ہے جو سارے سلسلہ وحی میں مشترک رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ فی نفسہ ایک ہدایت نامہ ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ اہل ایمان کے حق میں مایہ بشارت ہے۔
Top