Asrar-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 94
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖ١ۚ وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ
فَمَنْ : پس جو يَّعْمَلْ : کرے مِنَ : کچھ الصّٰلِحٰتِ : نیک کام وَهُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : ایمان والا فَلَا كُفْرَانَ : تو ناقدری (اکارت) نہیں لِسَعْيِهٖ : اس کی کوشش وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے كٰتِبُوْنَ : لکھ لینے والے
پس جو نیک کام کرے گا اور ایمان والا بھی ہوگا سو اس کی محنت ضائع جانے والی نہیں اور بیشک ہم اس کو لکھ لیتے ہیں
(رکوع نمبر 7) اسرارومعارف اور آخرت میں تو وہ ایماندار لوگ ہی نام پائیں گے جنہوں نے نیک کام کئے ہوں گے کہ ان کا کوئی عمل رائیگاں نہ جائے گا کہ اللہ کریم کے لکھنے والے ہر ہر عمل کو لکھ لیتے ہیں یعنی آخرت کے اجر کی بنیاد عقیدہ ہے کہ درست ہو اور صرف عقیدہ ہی نہ رہے اس کے ساتھ عمل صالح یعنی نبی (علیہ السلام) کے ارشاد کے مطابق عمل بھی ہو تو ہر چھوٹا بڑا عمل انعام اور اجر پائے گا مگر جو لوگ ایمان ہی قبول نہیں کرتے وہ عمل تو کر ہی نہیں سکتے اور پھر عذاب الہی سے تباہ ہوجاتے ہیں تو آنکھ کھلتی ہے مگر ان کے لیے پھر سے عمل کے لیے دنیا میں واپس آنا ہرگز ممکن نہیں ، یہاں تک کہ دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی یاجوج ماجوج کی رکاوٹ یعنی سد سکندری ختم ہوجائے گی اور ہر پہاڑ ہر ٹیلے پر سے گذرتے ہر شے کو تباہ کرتے چلے آرہے ہوں گے یہاں ان کا ذکر قیامت کی بہت بڑی نشانی کے طور پر ہوا ہے اور پر اللہ جل جلالہ کا کھرا اور سچا وعدہ بہت قریب آچکا ہوگا ، جب کفار کی آنکھیں پتھرا جائیں گی جب قیامت قائم ہوگی ہر شے تباہی کی نذر ہوگی تو انہیں خبر ہوگی کہ وائے بدبختی ہم تو اس سے غفلت ہی کا شکار رہے ، بھلا کوئی اتنے بڑے حادثے سے بھی بیخبر رہ سکتا ہے یہ تو ہم ہی ظالم تھے کہ آخرت کا انکار کرتے رہے تو ارشاد ہوگا کہ اب مزہ چکھو نہ صرف تم بلکہ تمہارے وہ سب بت یا وہ مخلوق جو اپنی پوجا کروانے پہ خوش تھی ، جن ہوں یا انسان اب سب مل کر دوزخ کا ایندھن بنو گے اور تمہیں ثابت ہوجائے گا کہ یہ ہرگز عبادت کے لاحق نہ تھے ورنہ خود تو دوزخ میں نہ جلتے اور یوں یہ سب لوگ کافر بھی اور ان کے معبودان باطل بھی ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ، شجر وحجر جو پوجے جاتے تھے ان کا عاجز ہونا بھی معلوم ہوگا اور اپنے پوجنے والوں کو جلانے کے لیے ایندھن کا کام بھی کریں گے اور جن یا انسان جو اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں اپنی رائے منواتے تھے اور اپنی پوجا کرواتے تھے ان کا عجز بھی ظاہر ہوگا اور خود وہ بھی سزا بھگتیں گے نیز اس قدر چیخیں اور چلائیں گے کہ کوئی کسی کی سن نہیں رہا ہوگا ، کوئی انہیں ملامت بھی کیا کرے گا سب اپنی اپنی مصیبت میں چلا رہے ہوں گے اور اللہ کے مقرب بندے جو ہمیشہ اللہ جل جلالہ کی عبادت کی دعوت دیتے رہے مگر لوگوں نے گمراہ ہو کر انہی کو پوجنا شروع کردیا جیسے عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہودی عزیر (علیہ السلام) کو اللہ جل جلالہ کا بیٹا ماننے لگے تو اس میں ان انبیاء کرام (علیہ السلام) صلحا یا فرشتوں کا دخل نہیں ، لوگ اپنی گمراہی کے باعث اللہ جل جلالہ سے بھی شرک کرتے اور ان کی بات کے خلاف بھی کرتے تھے لہذا ایسے لوگوں کے لیے تو اللہ جل جلالہ کی طرف سے بہت ہی نیک اور اعلی انعام کا وعدہ ہوچکا وہ تو جہنم کی آہٹ اور ہلکے سے ہلکے اثر سے بھی کوسوں دور ہوں گے بلکہ وہ تو اپنے مزے میں ہوں جنت میں جہاں جو چاہیں گے پائیں گے اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جب آپ ﷺ نے معبودان باطل کو بھی جہنم میں جانے کی وعید سنائی تو مشرکین مشتعل ہوئے اور یہود کے علماء کے پاس گئے اور کہا ہمارے بتوں کی بہت توہین کی گئی ہے جبکہ ہم انہیں خدا مانتے ہیں تو انہوں نے کہا تم کہہ دو کہ اگر جن کی عبادت ہوتی ہے سب جہنم میں جائیں گے تو نبی فرشتہ اور ولی بھی شامل ہوں گے کہ لوگ تو انہیں بھی پوجتے ہیں ، اس مندرجہ بالا آیت میں جواب ارشاد ہوا کہ لوگوں نے گمراہی اختیار کی وہ خود بھگتیں گے اور اللہ کے مقرب بندے نہ صرف دوزخ سے دور اور جنت میں مقیم ہوں گے بلکہ قیامت کی سختیاں اور نفخہ صور جس سے ارض وسما پھٹ رہے ہوں گے ان کو ذرہ پریشان نہ کرے گا نہ صرف اللہ جل جلالہ انہیں اس سے محفوظ رکھے گا بلکہ اکراما فرشتے انہیں لینے کو آئیں گے اور انہیں مبارک باد دیں گے کہ یہی تو وہ لمحہ ہے اور یہی وہ دن ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا اور دنیا کے امتحان میں ثابت قدم رہنے کے انعامات کی گھڑی ہے یہ دن نافرمانوں کے لیے بہت سخت اور اسی لمحے اطاعت گذاروں کے لیے باعث رحمت ہوگا ۔ ورنہ تو وہ روز اس قدر سخت ہوگا کہ زمین تو زمین آسمان تک بوسیدہ کاغذ کی طرح لپٹے ہوئے دست قدرت میں ہونگے اور تمام نظام عالم تباہ وبرباد ہو کر کچھ نہ بچے گا پھر قدرت باری سے ایسے ہی بنایا جائے گا جیسا کہ پہلے بنایا گیا ، یہ ہمارا وعدہ ہے جو ضرور پورا کیا جائے گا اور جس پر ہر حال میں عمل ہوگا ، یہ بات ہم نے تمام آسمانی کتب میں ارشاد فرما دی کہ ہماری زمین یعنی جنت ایسا ملک جس پر عارضی ملکیت کا دعوی بھی کسی کا نہیں ہمارے نیک بندوں کی وراثت ہے ، ان ہی کا ہے جیسے وراثت وارث ہی کو پہنچتی ہے یہ انہیں کو ملے گا نیز ان سب باتوں میں اور مذکورہ حقائق میں ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی اطاعت کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں بہت بڑی نصیحت موجود ہے کہ ابھی وارعمل میں ہیں توبہ کرسکتے ہیں اور اعمال کا افرادی نتیجہ نیز دنیا پر گذرنے والے احوال بھی بتادیئے گئے تو اپنی اصلاح کرسکتے ہیں لیکن جو اپنی اصلاح کرنا ہی نہ چاہے تو اسے کیا حاصل ۔ ّ (رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ صرف یہ کہ کتاب ہدایت عطا فرمائی آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات کو تو ہم نے سب جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنایا ہے اور آپ کی ہر ادا رحمت الہی کا ایک روپ ہے ، آپ کی ہر سنت انعامات باری کا سبب ہے اور آپ کا وجود مسعود ہی انوار و تجلیات کا برستا ہوا بادل ہے ، جہاں جہاں کوئی کرشمہ رحمت الہی کا ہے اس کا ذریعہ آپ ﷺ کی ذات گرامی جو اس سے محروم ہے اس کا سبب اس کی آپ ﷺ کی ذات سے دوری ہی تو ہے ۔ اللہ جل جلالہ کا یہ کرم کہ انسانوں کو یہ شرف بخشا کہ آپ ﷺ فخر انسانیت ہیں سارے جہان سے ممتاز کر رہا ہے پھر بھی جو آپ ﷺ کی برکات سے محروم ہیں ان سا بدنصیب کون ہوگا ، اب بھلا آپ ﷺ کے بعد وہ کسے چاہیں گے ، ایسا محبوب کہاں سے لائیں گے جو ظاہر باطن کے ہر کمال میں صرف اور صرف اللہ کے بعد سب سے اعلی اور مخلوق میں بےمثل ہو۔ ّ (ذکر کی اہمیت مفتی صاحب کی نظر میں) یہاں وہ پیراگراف ہو بہو لکھنے کو جی چاہتا ہے جو مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے اپنی معرکۃ الآرا تفسیر معارف القرآن میں لکھا ہے ، اللہ ان پر کروڑوں کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین ، تو لیجئے ” عالمین عالم کی جمع ہے جس میں ساری مخلوقات انسان جن حیوانات نباتات جمادات سبھی داخل ہیں ، رسول اللہ ﷺ کا ان سب چیزوں کے لیے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کائنات کی حقیقی روح اللہ جل جلالہ کا ذکر اور اس کی عبادت ہے یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائے گی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو ان سب چیزوں کو موت یعنی قیامت آجائیگی اور جب ذکر اللہ و عبادت کا ان سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ کا ان سب چیزوں کے لیے رحمت ہونا خود بخود ظاہر ہوگیا کیونکہ اس دنیا میں قیامت تک ذکر اللہ اور عبادت آپ ہی کے دم قدم اور تعلیمات سے قائم ہے اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ” انا رحمۃ مھداۃ “ میں اللہ جل جلالہ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت ہوں (اخرجہ ابن عساکر عن ابی ہریرہ) اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انا رحمۃ مھداۃ برفع قوم وخفض اخرین “ یعنی میں اللہ جل جلالہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں تاکہ (اللہ جل جلالہ کے حکم ماننے والی) ایک قوم کو سربلند کر دوں اور دوسری قوم (جو اللہ جل جلالہ کا حکم ماننے والی نہیں ان کو) پست کر دوں ۔ (ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کفر شرک مٹانے کے لیے کفار کو پست کرنا اور ان کے مقابلے میں جہاد کرنا بھی عین رحمت ہے جس کے ذریعے سرکشوں کو ہوش آکر ایمان اور عمل صالح کا پابند ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے ” واللہ وسبحانہ وتعالی اعلم “ معارف القرآن جلد ششم صفحہ 322۔ ان سے کہہ دیجئے کہ میں اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتا بلکہ اللہ جل جلالہ جو فرماتا اور وحی سے جو حاصل ہوتا وہی تم کو پہنچاتا ہوں جس کا حاصل یہ ہے کہ صرف اللہ جل جلالہ ہی عبادت کا مستحق ہے ، واحد اور اکیلا تو کیا تم یہ بھی قبول نہیں کرو گے ، اگر تم نے نہ ماننے کا ہی فیصلہ کرلیا تو میں نے تمہیں دونوں طرف کی بات بتا دی اور عقیدے کا اثر بھی بتا دیا ، اعمال کا نتیجہ بھی اب یہ میرے فرائض میں نہیں کہ قیامت کے وقت کا تعین بھی کروں ، یہ تمہارا اور تمہارے رب کا معاملہ ہے وہ جلدی قائم کردے یا دیر سے اس کی مرضی کہ وہ تمہارے ہر ظاہر قول وعمل سے بھی باخبر ہے اور جو چھپا کر کرتے ہو اسے بھی جانتا ہے ، مجھے اس سے سروکار نہیں کہ شاید دنیا میں مہلت دے کر تمہیں اور آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتا ہے یا اس کی کیا مصلحت ہے اور میری تو دعا ہے کہ اے اللہ اے پروردگار عالم انصاف کا فیصلہ صادر فرما دے ، رہی وہ ایذا جو تمہاری طرف سے ہے تو ہمارا پروردگار ہی اس بارے میں بہترین مددگار ہے کہ وہ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے ۔
Top