Asrar-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم نے لِاَبِيْهِ : اپنے والد سے وَقَوْمِهٖٓ : اور اپنی قوم سے اِنَّنِيْ : بیشک میں بَرَآءٌ : بےزار ہوں مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ : اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اس کی قوم سے فرمایا کہ جن چیزوں کی عبادت تم کرتے ہو بیشک میں ان سے الگ ہوں
آیات 26 تا 35۔ اسرار ومعارف۔ اور انہیں باپ دادا ہی کی بات قبول تھی تو ابراہیم (علیہ السلام) کی بات قبول کرتے جنہوں نے باپ دادا کی رسومات قبول کرنے کے بجائے اللہ کی طرف سے عطا کردہ دین اپنایا اور انہیں صاف بتادیا کہ یہ جو کچھ رسومات تم کرتے ہو میں ان سے الگ اور بےزار ہوں بلکہ جس قادر مطلق نے مجھے پیدا فرمایا ہے وہ ہدایت کا راستہ بھی بتائے گا کہ وہ محض پیدا کرکے چھوڑ نہیں دے گا بلکہ انہوں نے نہ صرف پہلوں کے کفر وشرک کی تردید کی بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی حق اور توحید کی اس قدر تاکید فرماگئے کہ ان کے بعد صدیوں تک لوگ عقیدہ توحید پر قائم رہے اور آج تک یعنی بعثت نبوی تک بعض عرب اس پر قائم تھے اور بت پرستی کو براجانتے تھے یہاں یہ ثابت ہے کہ صرف اپنے عقیدے کی اصلاح کرلینا کافی نہیں بلکہ کافرانہ رسومات کی تردید اور خود ان سے برات کا اعلان بھی ضروری ہے نیز ان سے مقابلہ اور احقاق حق کے لیے اس قدر کوشش کی جائے کہ آئندہ نسلوں تک حق بات پہنچے اور اپنی اولاد اور نسل پر خاص توجہ دے۔ عقیدے اور عمل کا اعلان اور اولاد میں اس کا اہتمام۔ شیخ عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں کہ اولاد کی اصلاح کے لیے بہت ہی موثر طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے لیے بطورخاص دعا کی جائے مگر ان کے آباؤ اجداد نے ان کی بات چھوڑ دی اور پھر سے رسومات ایجاد کرلیں اور ہم نے انہیں مہلت دی مال واولاد بخشی اور یہ بجائے شکر ادا کرنے کے اسی میں منہمک ہوگئے حتی کہ پھر اپنے کرم و احسان سے ان کے پاس کا حق کا پیغام پہنچایا قرآن کریم نازل فرمایا اور نبی برحق کو مبعوث فرمایا یہ کس قدر احسان عظیم تھا مگر جب ان کے پاس پہنچا تو کہنے لگے یہ تو جادو ہے اور ہم اس پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ماننے سے انکار کرتے ہیں اور بطور دلیل یہ کہتے ہیں کہ اگر قرآن واقعی اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا تو مکہ اور طائف میں بڑے بڑے مالدار اور بااثر لوگ تھے جن کی بات مانی جاتی تھی اور ان پر کیوں نازل نہ ہوا۔ نبی کریم ﷺ تو مالدار بھی نہیں ہیں یہ بات اتنی بڑی جہالت ہے کہ وہ نبوت جیسی عظیم الشان نعمت کو اپنی رائے کے مطابق دینا چاہتے ہیں یعنی اللہ کی رحمت خاصہ کی تقسیم وہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اس سے بہت ہی کم تر درجہ کی نعمت جو مومن وکافر سب کو ملتی ہے یعنی معشیت وہ بھی ہم اپنی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں اور دنیا میں مختلف اوصاف میں لوگ مختلف حالات کے حامل ہیں کسی کو کچھ عطا ہوتا ہے تو دوسرے کو کچھ اور یوں لوگ ایکد وسرے سے کام لیتے ہیں اور انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ہے جب دنیا کی نعمتوں کا یہ حال ہے کہ از خود انسان تقسیم نہیں کرسکتا تو یہ رحمت خاصہ تو اس مال وزر سے جس کے جمع کرنے میں یہ پاگل ہو رہے ہیں بہت زیادہ اعلی وارفع ہے۔ اسلامی معیشت یا اسلام کا معاشی نظام۔ اسلام نے معاش کو انسانی اداروں کے سپرد نہیں کیا کہ وہ طے کریں کہ کس کی ضروریات کیا ہیں اور انہیں کیسے پورا کیا جائے یا وسائل پیداوار حکومت کے سپرد ہوں اور وہ سب کو برابر تقسیم کردے کہ عملا ایسا ممکن نہیں اسلام نے ہر آدمی کو اس کی استعداد کے مطابق اس کا حق دیا ہے اور جس کو جتنا حق دیا ہے اس پر اتنے فرائض بھی رکھے ہیں اس طرح انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے ایک ہنرمند مزدور کا محتاج ہے اور مزدور ہنر مند کا محتاج ہے کہ نقشہ توانجینئر نے ہی بنانا مگر اسے اینٹ گارے سے مکان کی شکل دینا مستری اور مزدور کا کام ہے پھر یہ سب مل کر اس مالدار یا مالک مکان کے محتاج ہیں جو سرمایہ مہیا کرے اب یہاں سب سے زیادہ بوجھ مزدور نے ڈھویا اس سے کم بوجھ مستری پر پڑا اور انجینئر نے محض کاغذ پہ لکیریں کھینچیں مگر اجرت انجیئنر کو زیادہ ملی مستری کو اس سے کم اور مزدور کو اس سے کم۔ اشتراکیت نے اسے غلط کہا مگر اسلام نے نجینئر کی عمر بھر کی تعلیم اور اس کی محنت کو شامل رکھ کر اس کی درجہ بندی کی ۔ مستری نے کام سیکھنے پہ جو مشقت اٹھائی وہ شمار کی اور ان کے مقابلے میں مزدور کی صرف وقتی قوت و محنت لگی لہذایہی حق ہے کہ جس پر جس قدر فرض اور ذمہ داری کا بوجھ ہے وہ اتنا پالے گا ، ہاں اگر اشتراکیت چاہے بھی تو تقسیم برابر نہیں کرسکتی کہ انسانی استعداد اس کی عقلی اور ذہنی رسائی اس کا کام کے ساتھ خلوص اور دیانت وامانت بھلا کیسے ماپاجاسکتا ہے ۔ نیز اس کے میلان طبعی کے خلاف اس سے کام لینا محال اور انسانی تقسیم ہر ایک کو اس کے میلان کے مطابق دینے سے قاصر جب کہ قدرتی تقسیم میں ہر فرد اپنی پسند سے اپنے میلان طبع کے مطابق کام اختیار کرتا ہے اور عجیب بات ہے کہ ہر کوئی خوش ہے سیاستدان اپنی جگہ دفتر کا بندہ اپنی جگہ اور کاشتکار اپنی مشقت پہ نازاں ہے اسی طرح اسلام نے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی رد کردیا اور ناجائز وسائل سے دولت جمع کرنے کو منع کردیا ذخیرہ اندوزی ہی ، جوا ، سٹہ ، اور سود ، وغیرہ کو حرام قرار دے کر جائز آمدنی پر بھی زکوۃ وعشر جیسے واجبات اور صدقات پر ثواب کا وعدہ دے کر مال کے ایک جگہ جمع ہونے کو روکا یوں دونوں کے درمیان ایک معتدل راستہ قائم کیا۔ اسلامی مساوات۔ اسلامی مساوات سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ ہر آدمی کو برابر سرمایہ ملے اور نہ یہ عملا ممکن ہے بلکہ اسلامی مساوات یہ ہے کہ جس کے ذمہ جتنے فرائض ہیں اتنے ہی اس کے حقوق ہیں وہ اپنے فرائض بھی پورے کرے اور اپنے حقوق حاصل کرنے میں بھی کسی کو کوئی دشواری نہ ہو ، یہ نہ ہو کہ کوئی امیر یابااثر تو اپناحق حاصل کرلے اور غریب یا مزدور ٹھوکریں کھاتا رہے اور حقوق وفرائض میں برابری ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی قدرت نے پیدا کی ہے۔ انسان کے علاوہ بھی مخلوق ہے جس کے فرائض کم تر ہیں تو حقوق بھی کم تر ہیں جیسے جانور کہ حرام حلال یا جائز ناجائز کے مکلف نہیں تو انسان ان سے استفادہ کرتا ہے سواری باربرداری یاذبح کرکے کھا بھی لیتا ہے تو یہ کوئی ظلم نہیں ہاں ان سے اگر خدمت لے گا توکھاناپینا بھی دے گا یا آزاد رہنے دے پھر اللہ کریم خود ان کا مالک ہے روزی دے گا ایسے ہی انسان کو استعداد بخشی تو اس پر فرائض کا بوجھ بھی رکھا اگر دیانت داری سے پورے نہ کرے تو آخرت کا محاسبہ بھی ہوگا اسی قدر ہر ایک کو حقوق بھی عطا فرمائے ج اور جس طرح فرائض کی ادائیگی میں سب برابر ہیں اسی طرح حقوق حاصل کرنے میں سب برابر ہیں۔ اور اس کا اہتمام حکومت کی ذمہ داری ٹھہرایا۔ ان نادانوں نے دولت دنیا کو اتنی اہمیت دی کہ اسے شرط نبوت ٹھہرایا حالانکہ ہمارے نزدیک وہ ایسی حقیر ہے کہ اگر انسانی مزاج میں حرص کے غلبہ کے باعث یہ بات نہ ہوتی کہ اکثر لوگوں کی گمراہی کا سبب بن جائے گا توہم کافروں کو اس قدر دولت دیتے کہ ان کے مکان چھتیں زینے دروازے کواڑ اور تخت سونے چاندی کے ہوتے اور پھر وہ حسرت سے اس سب دولت کو چھوڑ کرمرتے کہ یہ سب محض حیات دنیا کے لیے ہے اور آخرت تو تمہارے پروردگار کے پاس ہے ان لوگوں کے لیے جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور اللہ کے قرب کے طالب اور اس کے اطاعت گزار ہیں۔
Top