Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الرَّسُوْلُ
: رسول
بَلِّغْ
: پہنچا دو
مَآ اُنْزِلَ
: جو نازل کیا گیا
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف (تم پر
مِنْ
: سے
رَّبِّكَ
: تمہارا رب
وَ
: اور
اِنْ
: اگر
لَّمْ تَفْعَلْ
: یہ نہ کیا
فَمَا
: تو نہیں
بَلَّغْتَ
: آپ نے پہنچایا
رِسَالَتَهٗ
: آپ نے پہنچایا
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْصِمُكَ
: آپ کو بچالے گا
مِنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَا يَهْدِي
: ہدایت نہیں دیتا
الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ
: قوم کفار
اے پیغمبر ! جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے اور اگر ایسا نہ کیا تو آپ پیغمبری کا پیغام پہنچانے سے قاصر رہے۔ اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائیں گے یقینا اللہ کفر کرنے والوں کو ہدایت نہیں فرماتے
رکوع نمبر 10 ۔ آیات 67 تا 77 ۔ اسرار و معارف : یہ بیان ایک عجیب تر بات سے شروع ہوتا ہے اور یہ دلیل نبوت بھی ہے اور آپ ﷺ کا معجزہ بھی کہ اللہ کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے کہ اے رسول ! یعنی خطاب ہی ایسے اسم گرامی سے ہے فرض منصبی کی نشاندہی کرتا ہے کہ رسول کا فرض ہی اللہ کے بندوں تک اللہ کی بات کا پہنچانا ہے سو یہاں یہود کی سازشوں ، اہل مکہ کے حملوں اور کفار کی دوسری مخالفانہ کوششوں کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے۔ آپ پر اللہ کریم کی طرف سے جو نازل ہوتا ہے وہ پہنچانا ہی اس کی رسالت کا فریضہ ہے اب یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے پر زور لگا رہے ہیں ادھر مشرکین عرب کے لاتعداد خدا اسلام کی توحید پرستی کی زد پر ہیں پھر اقوام عالم میں کہیں آگ کی پوجا ہے کہیں سورج کی پرستش کہیں بتوں کی خدائی اور کہیں خود انسانوں ہی کو پوجا جا رہا ہے ایسی حالت میں کس کس سے بگاڑی جائے اور کس کو بعد میں اور کس کو پہلے رکھا جائے یہ بہت نازک فیصلہ تھا اسلام کی ایک چھوٹی سی ریاست منصہ شہود پہ آ رہی تھی ادھر مکہ مکرمہ والوں سے دشمنی ہے تو کیا ایسی بات نہ کی جائے جس سے یہود و نصاری خفا ہوتے ہوں یا ان سب کی پرواہ تو نہ کی جائے مگر قیصر و کسری کے مذاہب یا مذہب کے نام پر جاری رسومات کو تو فی الحال نہ چھیڑا جائے۔ مبادا اس چھوٹی سی سلطنت پہ وہ چڑھ دوڑیں تو ارشاد ہوا میرے حبیب ! یہ فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے کہ کس وقت کیا کہنا ہے اور کیا بات کرنی چاہئے یا کس چیز کا اعلان کیا جائے آپ اس کا غم نہ کریں ہاں جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہو وہ لوگوں تک پہنچا دیں کہ اس میں سے اگر تھوڑی سی بات بھی رہ گئی تو سارا پیغام بےمعنی ہو کر رہ جائے گا گویا آپ نے حق رسالت ادا نہ فرمای ارہی لوگوں کی دشمنی جو یقینی ہے مشرکین بھی یہود و نصاری بھی اور دنیا کے دوسرے کفار بھی تڑپ اٹھیں گے مگر انسانوں سے آپ کی حفاظت کرنا یہ اللہ کی ذمہ داری ہے وہ جس کا پیغام آپ پہنچا رہے ہیں وہی آپ کی حفاظت فرمائے گا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سارا کفر مل کر آپ ﷺ کا کچھ نہ بگاڑ سکا بلکہ روز بروز اسلام پھیلتا چلا گیا حتی کہ آپ ﷺ حج پر تشریف لے گئے۔ یہی حجۃ الوداع کہلاتا ہے اور یہی حج اکبر بھی کہ اس روز جمعہ تھا اور آپ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جسے منشور انسانیت کہا جاتا ہے اور واقعی انسانی حقوق اور انسان کے اپنے رب سے تعلقات دنیا و آخرت ، عقائد اور اعمال مختصر ترین الفاظ میں جواہرات اور ہیروں کا ہار ہے جو لسان نبوت نے پرودیا اور اس کے آخر میں ارشاد فرمایا۔ الا ھل بلغت۔ لوگو ! کیا میں نے بات پہنچانے کا حق ادا کردیا ؟ سب نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ ! تو آسمان کی طرف انگلی مبارک اٹھا کر تین بار فرمایا۔ اللھم اشہد۔ اے اللہ ! گواہ رہنا اور فرمایا اب جو حاضر ہیں وہ ان تک پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں جس سے مراد وہ لوگ بھی تھے جو اس دور میں تھے مگر اس وقت میدان عرفات میں نہ تھے وہاں بھی تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ موجود تھے اور وہ لوگ بھی جو اکناف و اطراف عالم میں تھے جہاں ابھی اسلام نہیں پہنچا تھا اور وہ بھی جو ابھی دنیا میں نہیں آئے تھے سو پہلا کام صحابہ کرام نے یوں کر دکھایا کہ انہی کا حصہ ہے۔ آپ حج سے واپسی پر تقریبا اسی روز اس دنیا میں رہے پھر وصال فرمایا۔ آپ ﷺ کے وصال سے ربع صدی کے اندر اندر دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جہاں اللہ کے بندوں نے اللہ کا پیغام پہنچا نہ دیا ہو ذرا تفصیل سے اس لیے لکھ دیا کہ شیعہ اس آیت کا نزول حج سے واپسی پہ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے راستے میں واپسی پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی کی خلافت کا اعلان کیا اور جو صحابہ ساتھ تھے سب سے بیعت لی۔ علی الحائر مشہور شیعہ عالم نے اس موضوع پہ رسالہ لکھا کہ اڑھائی لاکھ صحابہ سے ایک ایک کرکے بیعت لی گئی۔ اگر خیمہ میں آنے جانے بیعت کرنے پہ ایک ایک منٹ لگا کر تین منٹ فی آدمی اڑھائی لاکھ آدمیوں کو وقت دیا جائے تو وہ غالبا ڈیڑھ سال کے قریب عرصہ بنتا ہے جبکہ آپ صرف اسی یوم دار فانی میں رہے اور وصال فرمایا نیز تبلیغ کی تصدیق بندوں سے کرائی شہادت اللہ سے لی وہاں اللہ بھی گواہ بن گیا پھر خیال آیا کہ نہیں یار ! ایک بات خلافت والی رہ گئی اور پھر بتانے سے کیا حاصل جب بعد میں تو ان میں سے کسی نے بات تک نہ کی اور ابوبکر صدیق کی بیعت کرلی خود حضرت علی نے کرلی تو کوئی کیا کرتا مگر اس تحریک فاسدہ کا مقصد تو آپ ﷺ کی رسالت کو ناکام بنانا ہے ان کے منہ میں خاک آپ کی رسالت کی کامیابی یہ تو ارض و سماء رات دن اور بہار و خزاں تک گواہ موجود ہیں لہذا آپ اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے ظاہر ہے جو آپ نے یوم عرفہ سے پہلے پہنچا دیا تھا کہ پھر وہاں تکمیل دین کی آیہ کریمہ نازل ہوئی اور جب تک کفر یعنی انکار یا اکڑ باقی ہے ان کو اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب نہیں فرماتا۔ اور ان یہود و نصاری کو واضح کردیجئے کہ ان کے تو صرف نام ہیں اصل میں یہ کچھ بھی تو نہیں نہ یہودی نہ نصرانی کہ نہ عقائد اس مذہب کے مطابق ہیں اور نہ اعمال تو کم از کم اگر یہودی رہنا ہے تو تورات پر عمل کرو نصرانی رہنا ہے تو انجیل کو تو اپناؤ ۔ اب دونوں کتابوں میں آپ ﷺ کا ذکر بھی ہے ایمان لانے کا حکم بھی ہے اور نزول قرآن کی خبر بھی۔ اب ان کتابوں کو اپنانے کا مطلب بھی یہ ہوگا کہ قرآن پہ ایمان لے آئیں مگر یہ انکار کیے جا رہے ہیں اور ان میں اکثر کافر تو پہلے بھی تھے کہ نام فرقوں کے تھے عقیدہ و عمل کچھ بھی نہ تھا پھر قرآن کا انکار انہیں اس دلدل میں مزید گہرا دھکیل گیا اور مزید سخت ہوگئے عملاً سرکشی میں بھی اور عقیدۃ انکار میں بھی سو ایسے کفار پر آپ دکھ محسوس نہ کیا کریں۔ کہ یہ راستہ ان کی اپنی پسند ہے کسی نے ان پر ٹھونسا نہیں ہے نہ مسلط کیا ہے اگر وہ باختیار خود اس طرف جانا چاہتے ہیں تو آپ رنج نہ کریں۔ ہاں جو لوگ آپ ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں اور اسلام اور ضروریات دین کا اقرار کرلیا ہے وہ ہوں یا یہود ، وہ قوم جس پر کبھی تورات نازل کی گئی تھی یا صابی علماء کے نزدیک (یہ ایک ستارہ پرست قوم تھی) لیکن اپنے آپ کو حضرت داود (علیہ السلام) اور زبور کا پیروکار بتاتے تھے یا نصرانی جن پر انجیل نازل کی گئی اب سب کے لیے ایک ہی راتہ ہے کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لے آئیں یعنی وہ ایمان جس کی دعوت حضرت محمد ﷺ دے رہے ہیں ماجاء بہ محمد ﷺ ورنہ مسلمان کہلانے والا بھی اگر نام سے مسلمان کہلاتا رہے اور عقائد میں نئی راہ تلاش کرلے تو اس کے گمراہ ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں اور یہ دوسرے سب لوگ اپنی کتابوں سے تو پہلے منحرف ہوچکے بلکہ خود کتابوں میں تحریف کرچکے اب اگر یہ ایمان اور عقیدہ درست کرلیں اور خلوص کے ساتھ آپ ﷺ کی پیروی اختیار کریں عملی زندگی میں اطاعت کا ثبوت فراہم کریں۔ تو اللہ کی رحمت آج بھی ان کا ہاتھ تھام لینے کو تیار کھڑی ہے اور آخرت میں بھی انہیں نہ ڈر ہوگا آئندہ سے اور نہ گذشتہ پہ رنج کہ سب کچھ کا حاصل ، اللہ کی رضا انہیں نصیب ہوجائے گی۔ بعض منکرین حدیث نے اس آیہ کریمہ سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ یہودی نصرانی صابی ہندو وغیرہ اپنے مذہب پر رہ کر نیکی کریں تو نجات ہوسکتی ہے ان ظالموں کو یہ خبر نہیں کہ خود مسلمان کہلا کر نجات سے محروم ہو رہے ہیں اس نئی بات کی ایجاد انہیں اسلام سے خارج کردے گی کہ ایمان اور عمل صالح دونوں اپنی جگہ رسالت مآب ﷺ ہی سند ہیں اور ان کے بغیر صحت کا کوئی ثبوت ہی نہیں نہ ایمان کی درستی کا اور نہ عمل کی درستی کا کوئی ثبوت ہے سوائے اس کے کہ کہا جائے کہ آپ ﷺ نے اس کا حکم دیا ہے پھر آپ کے بغیر گذارہ کیسے ؟ بنی اسرائیل سے تو عہد لیے جاتے رہے یہ وعدے کرتے رہے اور توڑتے بھی رہے ہم نے ان سے عہد لیا کہ انبیاء و رسل کی اطاعت کروگے پھر ان کی طرف رسول بھیجے جب تعلیم رسالت ان کی خواہشات نفس کے خلاف پڑی تو یہ لوگ بدل گئے بعض انبیاء و رسل کا انکار کیا اور بعض کو تو ظلماً قتل کردیا اور لطف کی بات یہ کہ اتنا بڑا ظلم کرنے کے بعد انہیں کوئی فکر بھی لاحق نہ ہوئی اور ایک طرح سے خوش ہوگئے کہ شاید ہم نے بہت بڑا کام کیا ہے اب ہمیں کوئی روکنے والا ہی نہیں لیکن خدا کی گرفت سے نہ بچ سکے بخت نصر ہی ان پر عذاب بن کر ٹوٹا اور انہیں تباہ کردیا جو زندہ بچے قید کرکے لے گیا پھر انہیں خدا یاد آیا اور اللہ کا کرم دیکھو انہوں نے معافی چاہی پھر عطا کردی مگر یہ ایسی بدبخت اور بدنصیب قوم تھی کہ پھر اللہ کے احکام سے اندھے اور بہرے بن گئے۔ اور انبیاء کے قتل سے ہاتھ رنگے حتی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل پر بھی تیار ہوگئے بلکہ اپنی طرف سے تو کرچکے ہیں اور انہی میں کا ایک گروہ اس بات پہ مبتلائے کفر ہوا کہ اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا تسلیم کرلیا اور معبود مان لیا اور انہیں عبادت کا حقدار ثابت کرنے لگے حالانکہ خود عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم یہ تھی کہ اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی اور عبادت کرو اور اس لیے کرو کہ وہ میرا بھی اور تمہارا بھی پروردگار یعنی پالنے والا ہے جو شخص پیدا ہوتا ہے اور موت سے ہمکنار ہوسکتا ہے جو کھانے کی احتیاج رکھتا ہے اسے پینے کی ضرورت ہے ہوا کی ضرورت ہے غذا کی ضرورت ہے اور سلسلہ ضروریات اور اس کے نتائج اتنے لمبے ہیں کہ پھر نیند کی ضرورت پیدا ہوتی ہے جو زندہ انسان کو مردہ بنا دیتی ہے کیا ایسا ہی معبود ہوا کرتا ہے حالانکہ حق یہ ہے کہ نہ کھانے والے بھی محتاج ہیں مثلاً فرشتے وہ بھی معبود نہیں بندے ہیں مگر غذا کی محتاجی تو ایسی ہے کہ ہر کس و ناکس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے اور خود عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات میں ہے اللہ میرا رب ہے اور تم سب کا بھی اور یہ بھی انہوں نے واضح کردیا تھا کہ جو بھی اللہ سے شرک کرے گا اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور جنت ہی اللہ کی رضامندی اور خوشنودی کی دلیل ہے لیکن شرک کرنے والے کا ٹھکانا تو دوزخ ہوگا جو اللہ کے غضب اور غصے ناراضگی کے اظہار پہ دلالت کرتی ہے اور ایسے ظالموں کا جو شرک جیسے قبیح فعل میں مبتلاء ہوئے کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا اگر توبہ کے بغیر موت ہوگئی تو آخرت میں کوئی ان کی دوستی کو نہیں بڑھے گا۔ اور یہ تو کھلا کفر ہے کبھی کہتے ہیں ایک میں تین ہیں کبھی تین میں ایک ہے۔ کبھی بیٹا ہونا قرار دیا اور کبھی خود خدا ہونے کا اقرار کرلیا یہ سب دھوکہ ہے اور بغیر اللہ کے کوئی دوسرا عبادت کا استحقاق نہیں رکھتا اکیلا اللہ عبادت کا مستحق ہے اور بس اگر یہ ان کلمات کفر سے باز نہ آئے اور توبہ نہ کی تو اس کفر پہ ان کو بہت دردناک سزا ہوگی یہ کیوں اللہ سے رجوع نہیں کرتے اور ایسی الٹی سیدھی باتوں سے کیوں باز نہیں آتے اور اللہ سے کیوں بخششیں طلب نہیں کرتے اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ تو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے دیکھئے اس کی رحمت عامہ اگر کافر کی منتظر ہے کہ کفر سے توبہ کرے تو اسے ڈھانپ لوں بھلا مومن کو کب محروم کرے گی اگر گناہ سے باز آجائے اور اللہ سے ہدایت اور نیکی کا طالب ہو اور بخشش و رحمت کے لیے جھولی پھیلا دے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں اور ہر رسول کے پاس معجزات بطور ثبوت نبوت ہوتے ہیں اگر خود ان کی پیدائش عجیب ہے تو معجزہ ہے جو ان سے پہلے گذرنے والے رسولوں سے بھی صادر ہوتے رہے ہیں یعنی رسول اور نبی سے معجزے کا اظہار کیا اسے الہ یا معبود بنا دے گا ؟ یا اس کی نبوت کا گواہ ہوتا ہے اور وہ خود اللہ کی الوہیت کی طرف دعوت دیتا ہے ایسے ہی اس کی والدہ محترمہ و ڈیقہ تھیں سبحان اللہ ! یعنی نبی نہ تھیں ورنہ ان کی بھی نبوت کا تذکرہہوتا ہے مگر صدیقہ تھیں جو بعد نبوت ولایت کا بلند ترین منصب ہے اور اعلی ترین مقام بھی ہے آخری دائرہ راہ سلوک کا بھی دائرہ صدیقیت ہے اس کے بعد کچھ دوائر ہیں جو اس کے اندر ایک طرف ہیں اس سے نیچے ہر اوپر والا دائرہ نیچے والے دائرے کو محیط ہے لیکن صدیقیت ایک منصب بھی ہے اور بطور منصب کے بھی ولایت کے آخری مناصب کا بھی سردار اور انتہا ہے۔ سو حضرت مریم صدیقہ تھیں اور مقام صدیقیت دیکھو ! فرشتوں سے ہم کلامی کا شرف اظہار کرامات اور اللہ سے بات کرنے کا اعزاز دنیا میں نصیب ہوا لیکن ان سب عطمتوں کے ساتھ وہ انسان تھے کھانا کھاتے تھے اور صرف کھانے کا تجزیہ کیا جائے تو ایک کھانے سے سینکڑوں قسم کی احتیاج لازم آجاتی ہے دیکھو ! ہم نے کس قدر وضاحت سے ان کے حالا بیان کردئیے کہ انہیں غلط فہمی نہ رہے مگر ان کی غلط روش کو دیکھیں کہ گمراہی میں ہی بڑھے جا رہے ہیں۔ ان سے کہیے کہ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو وہ تمہیں نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان سے بچا سکتا ہے اس لیے کہ خود اپنے نفع نقصان پہ اس کا اختیار نہیں تمہیں کیا دے گا ؟ خود محتاج ہے اپنی ضرورتوں میں اپنے نفع نقصان میں اپنے وجود اپنی بقاء میں تو وہ تمہیں کیا دے گا ؟ ہاں ! اللہ کی عبادت کرو ، اسے سزاوار ہے اس سے مانگو کہ سب کی سن رہا ہے سن سکتا ہے اور ہر ایک کے حال سے واقف ہے۔ اے اہل کتاب ! اپنے مذہب میں حد سے آگے مت بڑھو کہ بندوں کو خدا ثابت کرنے لگو یعنی یا تو اس قدر مخالفت کی کہ انبیاء کو قتل تک کرنے سے گریز نہ کیا اور اتنا ظلم ڈھایا کہ زمین کانپ اٹھی یا یہ عقیدت کہ نبی کو خدا ثابت کرنے پہ تلے کھڑے ہیں یہ دونوں انتہائیں غلط ہیں اور دین اعتدال کا نام ہے ہر رسم اور ہر رواج دین نہیں ہوتا نہ انسان اپنی پسند سے اس میں گھٹا بڑھا سکتا ہے بلکہ دین انبیاء کی تعلیم کا نام ہے جس قدر بات نبی سے ثابت ہو وہ دین ہے۔ جو اپنی پسند سے لوگ اپنا لیں وہ دین نہیں بن سکتی وہ گمراہی بدعت اور زیادتی ہے اگر محض رسم سمجھ کر عمل کریں تو صرف گناہ ہے اگر ثواب سمجھ کر عمل کریں تو بدعت ہے جو گناہ کے ساتھ عقیدے اور ایمان کو بھی خراب کرتی ہے سو ایسے لوگوں کی خرافات پہ مت چلو جو ان کے اپنے نفس کی ایجاد تھیں جیسے ہمارے ہاں پیروں نے مختلف رسومات اپنا لی ہیں پھر بعض پر تو انٹرنیشنل پیر برادری کا اتفاق ہے مثلا عرس شریف ، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت بندہ کی نظر سے نہیں گذرا ایسے ہی گیارھویں شریف پھر بڑی گیارھویں شریف اور چھوٹی گیارھوی شریف اور ان سب رسومات کے ساتھ نہ صرف دنیا کی کامیابی وابستہ ہے بلکہ اللہ کی رضامندی اور اولیاء اللہ کی تائید کے جھوٹے وعدے بھی کئے جاتے ہیں سو ایسے گمراہ لوگوں کو پیچھے مت چلو جو نہ صرف خود گمراہ ہوئے بہت سوں کو گمراہ کرگئے اور سیدھے راستے سے نہ صرف خود بھٹکے بلکہ ایک کثیر مخلوق کو بھٹکانے کا باعث بن گئے۔
Top