Anwar-ul-Bayan - Faatir : 12
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول بَلِّغْ : پہنچا دو مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف (تم پر مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب وَ : اور اِنْ : اگر لَّمْ تَفْعَلْ : یہ نہ کیا فَمَا : تو نہیں بَلَّغْتَ : آپ نے پہنچایا رِسَالَتَهٗ : آپ نے پہنچایا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْصِمُكَ : آپ کو بچالے گا مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
اے رسول ! آپ پہنچا دیجئے جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا، اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہ پہنچایا، اور لوگوں سے اللہ آپ کی حفاظت فرمائے گا، بیشک اللہ کافر لوگوں کو راہ نہیں دکھائے گا۔
رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا حکم کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب کچھ پہنچا دو ، اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائیگا اس آیت شریفہ میں اللہ جل شانہ نے حضرت رسول اکرم ﷺ کو تبلیغ کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا اس کو پہنچا دیں، حضرت حسن ؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپ کے دل میں کچھ گھبراہٹ سی ہوئی اور یہ خیال ہوا کہ لوگ تکذیب کرینگے اس پر آیت بالانازل ہوئی۔ معالم التنزیل ص 51 ج 1 اور لباب النقول ص 94 میں حضرت مجاہد تابعی (رح) سے نقل کیا ہے کہ جب (یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ) نازل ہوئی تو آپ نے عرض کیا کہ اے رب ! میں یہ کام کیسے کروں گا میں تنہا ہوں لوگ میرے خلاف جمع ہوجائیں گے۔ اس پر (فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ) نازل ہوئی مزید فرمایا (وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ) (اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا) ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جو حضرات صحابہ ؓ آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے ان سے آپ نے فرما دیا کہ آپ لوگ چلے جائیں اللہ نے میری حفاظت کا وعدہ فرما لیا ہے۔ حفاظت کرنے والوں میں رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ بھی تھے جب آیت نازل ہوئی تو انہوں نے پہرہ دینا چھوڑ دیا (لباب النقول ص 94) آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ) یعنی اللہ تعالیٰ کافروں کو اس کی راہ نہ دکھائے گا کہ وہ قتل کرنے کے لئے آپ تک پہنچیں۔ قال صاحب الروح وفیہ اقامۃ الظاھر مقام المضمر ای لانّ اللّٰہ تعالیٰ لا یھد یھم الی امنیتھم فیک (ج) رسول اللہ ﷺ نے ذرا سی بھی کوئی بات نہیں چھپائی اللہ تعالیٰ جل شانہ نے جو کچھ نازل فرمایا وہ سب امت تک پہنچایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ جو کوئی شخص تم میں سے یہ بیان کرے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے نازل فرمودہ امور سے کچھ بھی چھپایا تو وہ جھوٹا ہے۔ (معالم التنزیل ج 2 ص 51) منیٰ اور عرفات میں رسول اللہ ﷺ کا حاضرین سے سوال آنحضرت سرور عالم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر جو عرفات میں خطبہ دیا اس میں بہت سی باتیں بیان فرمائیں اور حاضرین سے فرمایا وانتم تسئلون عنی فما انتم قائلون (تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا سو تم کیا جواب دو گے) حاضرین نے عرض کیا۔ نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَ أَدَّیْتَ وَ نَصَحْتَ (کہ ہم گواہی دیں گے کہ بلاشبہ آپ نے پہنچایا اور اپنی ذمہ داری کو پورا فرمایا اور امت کی خیر خواہی کی) آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی پھر لوگوں کی طرف جھکائی اور تین بار اللہ پاک کے حضور میں عرض کیا اللّٰھُمَّ اشْھَدْ (کہ اللہ ! تو گواہ ہوجا ! ) (صحیح مسلم ج 1 ص 397) پھر دسویں تاریخ کو منی میں آپ نے خطبہ دیا اور حاضرین سے پھر وہی سوال فرمایا الاَھَلْ بَلَّغْتُخبردار ! ٹھیک بتاؤ کیا میں نے پہنچا دیا ! حاضرین نے کہا کہ نَعَمْ (ہاں آپ نے پہنچا یا) پھر آپ نے اللہ پاک کو حضور میں عرض کیا اللّٰھُمَّ اشْھَدْ (اے اللہ ! تو گواہ ہوجا) پھر ساتھ ہی فرمایا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ (جو حاضر ہو وہ غائب کو پہنچا دے ) ۔ (رواہ البخاری ج 1 ص 235) قرآن مجید کی تصریح سے معلوم ہوا کہ اللہ جل شانہ نے نبی اکرم ﷺ کو حکم فرمایا کہ اللہ نے جو بھی کچھ آپ کی طرف نازل فرمایا ہے وہ سب پہنچا دیجئے۔ سورة حجر میں ارشاد ہے (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ) کہ آپ خوب کھول کر واضح طور پر بیان فرما دیجئے آپ نے زندگی بھر اس پر عمل کیا اور حج کے موقعہ پر صحابہ ؓ سے دریافت فرمایا کہ میں نے پہنچا دیا سب نے ایک زبان ہو کر جواب دیا کہ ہاں آپ نے پہنچا یا اور سب نے وعدہ کیا کہ اللہ کے حضور میں ہم گواہی دینگے اور عرض کردیں گے کہ آپ نے سب کچھ پہنچا دیا۔ روافض کا رسول اللہ ﷺ پر تہمت لگانا یہ تو قرآن و حدیث کی تصریحا ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا یہ جاہلانہ اور کافرانہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا تھا کہ اپنے بعد حضرت علی ؓ کی خلافت کا اعلان فرما دیں لیکن آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ڈر سے اعلان نہیں فرمایا، ان لوگوں کا جھوٹا دعویٰ ہے کہ انہیں حضرات اہل بیت سے محبت ہے۔ جھوٹا اس لئے ہے کہ اہل بیت سے تو محبت کا دعویٰ ہے اور صاحب اہل بیت ﷺ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کا حکم نہیں پہنچایا یہ لوگ با ستثناء تین چار پانچ حضرات کے تمام اصحابہ ؓ کو کافر کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی تحریف کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو بھی علم چھپانے کا مجرم بتاتے ہیں، یہ محبت عجیب قسم کی ہے کہ اہل بیت سے محبت ہو اور جس ذات والا صفات کی وجہ سے اہل بیت سے محبت ہوئی۔ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ منصب رسالت کی ذمہ داری پوری نہیں کی (العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات و الہفوات ) جب اللہ کا نبی ہی مخلوق سے ڈر جائے اور احکام الہٰیہ کو چھپائے اور (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ) کی خلاف ورزی کرے تو پھر کون حق قائم کرے گا ؟ حیرت ہے ان لوگوں پر کہ جس رسول ﷺ کی حفاظت کا اللہ نے وعدہ فرمایا اور (وَ اللّٰہُ یعْصِمُکَ ) فرما کر حفاظت کی ضمانت دے دی اس رسول کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے ڈر سے اللہ کا حکم چھپالیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اس وعدہ پر آپ کو بھروسہ نہیں تھا (والعیاذباللہ) ایک ادنی مومن بھی اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کے رسول کو اللہ پر بھروسہ نہ ہو اور اللہ کے وعدہ کو سچ نہ سمجھا ہو ؟ پھر یہ عجیب بات ہے کہ جس کی خلافت بلافصل کے یہ لوگ مدعی ہیں جب چھبیس سال کے بعد انہیں خلافت ملی تو انہوں نے تو یہ نہ کہا کہ میں خلیفہ بلا فضل تھا مجھ سے خلافت چھین لی گئی تھی یہ انکے خواہ مخواہ کے حمایتی ان کو بھی مطعون کرتے ہیں کہ باوجود شجاع اور بہادر ہونے کے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان ؓ سے ڈرتے رہے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے اور ان کے مشوروں میں شریک ہوتے رہے۔ اللہ جل شانہ ان جھوٹے حمایتیوں کے عقائد اور مکائد اور خیالات اور خرافات سے محفوظ رکھے۔ ولقدصَدَق اللّٰہ تعالیٰ حیث قالَ (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْن)
Top