Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے ایمان والو ! اللہ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام مت کرو اور حد سے مت نکلو بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں فرماتے
رکوع نمبر 12 ۔ آیات 87 تا 93 ۔ اسرار و معارف : چونکہ نصاری میں رہبانیت کا ذکر چل رہا تھا اور یہ خیال بھی نہ کیا جائے کہ عیسائی مسلمانوں کے دوست ہیں ہاں یہ فرمایا گیا کہ یہودیوں میں بہت ہی کم لوگ اصلاح پذیر ہوئے اتنے کم کہ قوم کے مقابلے میں قابل ذکر تعداد نہیں ، لیکن عیسائیوں میں پھر ان کی نسبت زیادہ لوگ مشرف باسلام ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں تارک الدنیا قسم کے لوگ تھے جنہیں کوئی لالچ نہ تھا حق کو دیکھا اور قبول کرلیا تو وہ ان کا اپنا دین تھا بہرحال اچھا وہی جو اسلام قبول کرلے ورنہ کوئی خوبی ہے نہ اسلام دوستی۔ اس بات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ رہبانیت یا لذیذ چیزوں کو چھوڑ دینا یا گھر بار ترک کردینا یا شادی نہ کرنا وغیرہ بھی قرب الہی کے لیے بڑے مددگار عوامل ہیں تو فرمایا ہرگز نہیں ! اسلام میں ایسی باتوں کی گنجائش ہے نہ ضرورت بلکہ جو چیز جس طرح سے اللہ نے حلال کردی ہے اس طرح سے حاصل کرکے اسے کھانا یا استعمال کرنا ہی اطاعت ہے اور اگر کوئی اپنی مرضی سے اس کے خلاف کرے گا تو وہ اللہ کی قائم کردہ حدود کو توڑنے کا مجرم گردانا جائے گا مثلا اچھاکھانا ترک کردے یا باوجود حیثیت کے اچھا لباس ترک کردے یا باوجود قدرت کے شادی نہ کرے کہ اس طرح زیادہ نیکی ملے گی نیکی تو کیا خاک ملتی ایسے گستاخ کو اللہ کریم کبھی پسند ہی نہیں فرماتے یعنی اپنی طرف سے نیکی اور بدی کی حدود مقرر کرنا گستاخی ہے نیز جو شے اللہ نے حلال کی ہے کھانے کی اجازت دی ہے اسے انسان کیسے حرام کرسکتا ہے۔ ہاں ! نیکی یہ ہے کہ خوب کھاؤ پیو مگر اللہ کے ک دئیے ہوئے رزق میں سے اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے مراد رزق حلال ہے کسی سے چھین کر نہیں کسی سے رشوت لے کر نہیں کسی کو دھوکہ دے کر نہیں بلکہ معروف طریقے سے ملازمت کرکے تجارت کرکے کاشتکاری یا مزدوری کرکے جو رزق اللہ نے دیا ہے وہ حلال بھی ہے اور اسے طیب یعنی پاک بھی رکھو ناپاک کی ملاوٹ نہ ہونے دو کہ حلال میں حرام ملا دو یا گھروں میں دین کی واقفیت کی شدید کمی کی وجہ سے خواتین ہی پاک پلید کے فرق کو نہ جانتی ہوں مثلاً کسی خاتون پر غسل واجب ہے مگر اسے طریقہ ہی معلوم نہیں تو ادا نہیں کرپائی اب ظاہر ہے وجود پاک نہ ہو تو ناپاک ہاتھ جس کھانے میں داخل ہوگا وہ بھی ناپاک ہوجائے گا یا مثلاً ایک چھوٹی سی شے ہے ناخن پہ لگانے والی پالش یہ ناخن کو اوپر سے ڈھانپ لیتی ہے اب وضو ہو یا غسل اسے صاف نہ کرو تو نیچے ناخن خشک رہے گا۔ اور دونوں ادا نہ ہوں گے نہ جسم پاک نہ ہاتھ ، رزق حلال بھی ہو جب یہ ہاتھ داخل ہوگا طیب نہ رہے گا۔ ایسے ہی کوئی ناجائز آمدن اس میں ملا دو پھر حلال نہ رہے گا لہذا رزق کو حلال رکھو اور پاکیزہ ، اور کھاؤ پیو۔ کہ تقوی اللہ کی اطاعت کا نام ہے بھوکا مرنے کا نہیں اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مقام تقوی حاصل کیا جائے ایسا تعلق پیدا کیا جائے اللہ کریم سے کہ پھر اس کی نافرمانی کو جی نہ چاہے اور یہ اطاعت سے حاصل ہوسکتا ہے لہذا جس کام کی اللہ نے اجازت دی ہے حدود شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے ضرور کرو ، چھوڑنے کی حالتیں تین ہیں کسی حلال شرعی کو حرام جاننا یہ کفر ہے حلال شرعی پہ قسم کھا لینا کہ آئندہ نہیں کھاؤں گا یا استعمال نہیں کروں گا۔ ناجائز ہے قسم توڑ دے اور کفارہ دے تیسری قسم یہ ہے کہ بعض چیزیں حلال ہوتی ہیں مگر حکماء بعض لوگوں کو ان کی پرہیز بتاتے ہیں۔ یا بعض چیزیں روحانی طور پر بعض لوگوں کو نقصان دہ سمجھ کر مشائخ کچھ عرصہ کے لیے روک دیتے ہیں یہ شرعاً جائز اور درست ہے۔ رما معاملہ تمہاری قسموں کا۔ ان کے قائم رہنے اور نہ رہنے کا۔ تو ایک قسم تو ان کی بےہودہ اور فضول ہے جس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ مثلاً کسی کے منہ سے قسم کا لفظ نکل گیا یا گذشتہ واقعہ پر اپنے علم کے مطابق قسم کھالی مگر بعد میں ثابت ہوا کہ واقعہ درست نہ تھا دھوکہ ہوا۔ ایسی قسموں پہ نہ گناہ ہے نہ کفارہ۔ ایک قسم ہے گذشتہ واقعہ سے باخبر تھا مگر عمداً جھوٹ پر قسم کھائی اس پر بھی کھفارہ نہیں مگر یہ جھوٹ اور گناہ کبیرہ ہے۔ ایک قسم ہے جو تم آئندہ کے لیے کھالیتے ہو مگر پھر پوری نہیں کرسکتے اور توڑ دیتے ہو قسم کا توڑنا اس کی خلاف ورزی ہے وہ کسی طبعی سبب سے ہو یا خارجی سبب سے مگر جو کچھ وعدہ کیا تھا اس پہ پورا نہ اترا تو ایسی صورت میں کفارہ ادا کرنا ہوگا جس کی ایک صورت یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائیں دو وقت اوسطاً جیسا آپ کے گھر میں پکتا ہے۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو دس مساکین کو کپڑا پہنا دیں جس سے ان کا ستر ہوجائے ایک لمبا چوغا ہوجائے یا ایسا پاجامہ جو ناف تک ڈھانپ لے تو بھی کفارہ ادا ہوگیا اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو آپ کے پاس غلام یا لونڈی ہو تو اسے آزاد کردیں اگر یہ بھی میسر نہیں تو پھر تین دن روزے رکھیں اور حنفیوں کے نزدیک یہ روزے مسلسل ہونے چاہئیں تو یہ اس قسم کا کفارہ ہوجائے گا جو تم پوری نہ کرسکے یا جسے تم نے توڑ دیا اور اصل بات یہ ہے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو جس کی ایک صورت یہ ہے کہ بات بات پر قسم نہ کھاؤ اور خوب سوچ سمجھ کر قسم کھاؤ پھر جب کھا ہی چکے تو اسے پورا کرنے کی کوشش کرو یہ سب طریقے جو تمہیں تعلیم فرمائے جاتے ہیں ادائے شکر کے مختلف انداز ہیں اور اللہ کریم چاہتے ہیں کہ تم ان کے شکر گذار بندے بن جاؤ۔ اور اب بات کا دوسرا پہلو بھی زیر بحث آجائے کہ جس طرح جھوٹی قسم گناہ کبیرہ ہے یا قسم کو توڑنا گناہ ہے اور کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے ایسے ہی معاشرے میں کچھ خرابیاں بھی روز مرہ کا معمول بنی ہوئی ہیں حالانکہ وہ اپنے نقصان کے اعتبار سے بہت خطرناک اور تباہ کن ہیں جیسے شراب کہ معمولی بات سمجھی جاتی ہے ایسا مشروب جو حواس مختل کردے اور ہوش جاتا رہے یا جواء یا پانسے کے تیر ، یہ لاٹری تھی اس دور کی جس کے انداز یہ تھے کہ کچھ لوگ مل کر اونٹ خریدتے ذبح کرتے پھر جتنے آدمی ہوتے اتنے تیر لیکر جو اس مقصد کے لیے رکھے ہوتے تھے ان میں سے کسی پر دو حصے کسی پر زیادہ اور بعض خالی چھوڑ دیتے پھر ایک تیر نکالتے اور ایک ایک آدمی کے نام پر نکالتے جس کا خالی نکلتا وہ خالی رہتا اور کسی کو زیادہ مل جاتا یہی موجودہ لاٹری کی صورت تھی اس میں ایک صورت قرعہ اندازی کی ہے وہ درست ہے ایک چیز کے دو حصہ دار ہیں برابر حصہ کردیا اب کونسا ٹکڑا کس کو ملے قرعہ ڈال لو یا حج کی سیٹیں کم ہیں حق کسی کا بھی دوسرے سے زیادہ نہیں سب ایک جیسے شہری حقوق رکھتے ہیں طلب کرنے والے زیادہ ہیں۔ تو قرعہ ڈال لو اس میں کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا یعنی شراب ، جواء بت پرستی اور تیروں وغیرہ یہ ایسے قبیح افعال اور گندے کام ہیں کہ کچھ انسانیت باقی ہو تو خود انسان برداشت نہیں کرتا اور اسے گھن آتی ہے۔ انسان کہ اشرف المخلوات ہے اللہ نے کائنات اس کے لیے مسخر کردی ہے اور سورج چاند ستارے تک اس کی خدمت پہ لگے ہیں موسم ہوا زمین نباتات جمادات حیوانات سب اس کی خدمت پہ مقرر کردئیے اب یہ کسی جانور کو یا سورج کو یا آگ کو یا پتھر کو پوجنا شروع کردے تو کتنی الٹی بات ہے کہ مقصد تخلیق ہی کے خلاف اور عظمت تخلیق بھی تباہ تو جس طرح بت پرستی قابل نفرت ہے نشہ اس سے زیادہ قابل نفرت ہے کہ شعور سے بیگانہ ہو کر آدمی جانور بھی نہیں رہ جاتا اس کی سطح سے بھی گرجاتا ہے اور یہی حال جوئے اور لاٹری سے یعنی ناجائز اور حرام ذریعوں سے دوسروں کا مال کھانے سے ہوتا ہے اور یہ سب افعال نہ صرف گندے کام ہیں بلکہ یہ شیطان کے کام ہیں اور اے مسلمانو ! تمہیں خصوصاً ان سے دور رہنا چاہئے۔ تاکہ تم دائمی کامیابی حاصل کرسکو کیونکہ شیاطین کی کوشش تو یہی ہے کہ وہ تمہارے درمیان دشمنی اور دلوں میں بغض پیدا کردے جو شراب اور جوئے کے ذریعے وہ باآسانی کرسکتا ہے کہ ہوش شراب نے کھو دی اور مال جوئے میں چلا گیا اول تو اسی جگہ لڑائی ہوگی ورنہ دلی بغض لے کر اٹھے گا۔ اور کبھی نہ کبھی بات لرائی تک پہنچے گی اور یہ لڑائیاں اور دشمنیاں تھیں اللہ کے ذکر سے روکیں گی۔ شراب پی کر ہوش نہ ہوگی تو ذکر کیا خاک کرے گا جوا کھیلے گا مال ہارے گا لاٹری ڈالے گا مال ہارے گا دل میں بغض کی آگ بھڑک رہی ہوگی ذکر الہی کیا خاک کرسکے گا اور ذکر چھوٹا تو نماز گئی جب نماز بھی گئی تو اب عقائد کی باری ہے غرض اس طرح انسان قدم بقدم تباہی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔ تو کیا یہ سب کچھ جان لینے کے بعد اب تم رک جاؤگے۔ اور واقعی صحابہ کرام نے جو کتاب الہی کے مخاطب اول بھی تھے اور جن کی گھٹی میں یہ چیزیں رچی بسی ہوئی تھیں انہیں چھوڑ کر اور ترک کرکے دکھا دیا کہ محبوب پہ نچھاور ہونا کسے کہتے ہیں۔ دین کیا ہے ؟ اور دین یہ ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت کرے وہ اس طرح کہ جس طرح اللہ کا رسول تعلیم فرمائے اور پھر اس کی بےنیازی سے ڈرتا رہے کہ اس کا دربار عالی ہے اور ہمارا طاعات بھی اس قابل نہیں کہ کسی شمار قطار میں ہوں لیکن اگر کسی نے یہ راہ چھوڑ دی تو وہ یہ بھی خوب سمجھ لے کہ اس کے ایسا کرنے سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑے گا نہ اس کی عظمت میں کوئی فرق آئے گا اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کا نقصان ہوگا کہ آپ ﷺ کا فریضہ اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے بغیر کسی لگی لپٹی کے بغیر کسی غلط فہمی کے اور بس۔ منوانا آپ کا کام اور فریضہ نہیں ہے یہ سننے والے کا کام ہے کہ وہ قبول کرتا ہے کہ نہیں۔ اور اللہ کریم کا کام ہے کہ مخلوق سے خود حساب لے گا اور ایمان لانے سے قبل یا ایمان لانے سے پہلے حرام کا حکم نازلہونے سے قبل اگر کوئی مسلمان وہ چیز جو اب منع کردی گئی ہے کھاتا تھا یا شراب پیتا تھا۔ مگر اب حرام ہوگئی تو نہیں پیتا تو حکم آنے سے پہلے کے کام پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے آدمی ایمان لاتا ہے اور نیکی اختیار کرتا ہے۔ تو اسے تقوی یعنی اللہ کریم کے ساتھ ایک قسم کا تعلق نصیب ہوتا ہے پھر اس کیفیت میں مزید ترقی کرتا چلا جاتا ہے تو درجہ احسان پا لیتا ہے ، تقوی یہ تھا کہ ایک کیفیت تھی جس کی وجہ سے اللہ کریم کی نافرمانی کرنا محال تھا اور ہمہ وقت اطاعت پہ کمر بستہ رہنے کو جی چاہتا تھا پھر اسی اطاعت میں مسلس ترقی میں درجہ احسان پر پہنچا دیا یعنی اب کیفیت یہ ہے جیسے اللہ کو روبرو دیکھ کر کام کر رہے ہوں یا عبادت کر رہے ہوں بلکہ یہی درجہ احسان ہر کام کو عبادت بنا دیتا ہے جیسا صحابہ کے بارے میں ارشاد ہے۔ تراھم رکعا سجدا۔ کہ اے مخابط ! تو انہیں مسلسل رکوع سجود میں پائے گا حالانکہ انہوں نے سیاست و سپاہ گری سے لے کر تجارت و کاشتکاری تک دنیا کا ہر کام کیا تو پھر یہ ہر آن رکوع سجود سے کیا مراد ہوگی یہی کیفیت احسان کہ ہر کام کے کرنے میں وہ خلوص تھا کہ اللہ کو روبرو پاتے تھے۔ چناچہ ان کا ہر کام عبادت کا درجہ حاصل کرگیا اور یہ نعمت صحبت نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کا صدقہ تھا۔ اس لیے یہ فیض صحبت کہ لایا اور یہ کیفیات سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئیں۔ یہ شیخ کا کام ہے کہ طالب کو حضور تک پہنچائے اور پھر یہ اللہ کا کام ہے کہ ایسے لوگوں کو وہ اپنا محبوب بنا لیتا ہے پھر اللہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے۔
Top