Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے ایمان والو ! مت حرام ٹھہرائو وہ پاکیزہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال قرار دی ہیں اور نہ حد سے آگے بڑھو بیشک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا حد سے آگے بڑھنے والوں کو
ربط آیات پہلے اہل کتاب کی مذمت بیان ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص گروہ کی تعریف بھی بیان فرمائی جنہوں نے ایمان قبول کیا اور وہ باصلاحیت لوگ تھے۔ اللہ نے یہ بھی سمجھا دیا کہ اہل ایمان کے ساتھ شدید ترین عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں البتہ نصاریٰ اس ضمن میں کہ عداوت رکھتے ہیں پھر اللہ نے اس کی دو وجوہات بھی بیان فرمائیں کہ ان میں اہل علم ، تارک دنیا اور متواضع لوگ بھی ہیں جس قوم میں یہ صفات پائی جائیں وہ ایک اچھی سوسائٹی سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر رہبانیت کی مدح سے یہ شبہ گزرتا تھا کہ شاید یہ کوئی اچھی چیز ہے مگر اگلی آیات میں اس شبہ کا ازالہ کردیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کردیا ہے کہ رہبانیت کوئی اچھی چیز نہیں ، بلکہ دین حق کے خلاف ہے گزشتہ آیات سے رہبانیت کا جو تعریفی پہلو نکلنا ہے وہ ایک ذیلی بات ہے اور اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لوگ رہبانیت … کو بطور قانون تسلیم کر کے ترک دنیا کا شیوہ اختیار کرلیں۔ آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے طیبات یعنی پاکیزہ چیزوں کا تذکرہ کر کے ان کے اسعتمال کا حکم دیا ہے ، اگر ان حلال اور پاکیزہ چیزوں کو چھوڑ دیا جائے تو یہی رہبانیت اور ترک دنیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ امر نہیں ہے۔ آ ج کی آیات کا ربط اسی سورة کی ابتداء میں متذکرہ قانون حلت و حرمت کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ گزشتہ سورة نساء میں محرکات نکاح کا قانون تھا اور سورة مائدہ میں حلال و حرام چیزوں کا قانون بیان کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل نے اسی قانون حلت و حرمت کو توڑا تو اللہ نے ان کی مذمت بیان فرمائی۔ یہودیوں میں یہ بری خصلت خاص طور پر پائی جاتی تھی کہ وہ حیلے بہانے سے حرام چیزوں کو کھانے کی کوشش کرتے تھے اور نصاریٰ نے رہبانیت کا راستہ اختیار کرلیا تھا ، یہ دونوں طریقے غلط تھے ، دونوں گروہ افراط وتفریط کا شکار ہوچکے ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں پر درست سمت کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ قانون حلت و حرمت ارشاد ہوتا ہے۔ یا یھا الذین امنوا اے ایمان والو ! لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم مت حرام ٹھہرائو ، پاک چیزیں جو اللہ نے تم پر حلال قرار دی ہیں ولا تعتدوا اور تعدی اختیار نہ کرو کیونکہ ان اللہ لا یحب المعتدین اللہ تعالیٰ تعدی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا افراط وتفریط سے بچ جائو اور غلو نہ کرو ، بلکہ اللہ کی حلال کردہ اشیاء سے استفادہ حاصل کرو۔ طیبات کا اطلاق حلال یعنی جائز اشیاء پر بھی ہوتا ہے اور لذیذ یعنی مرغوب اشیاء پر بھی جو چیزیں عام طور پر طبائع انسانیہ کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں۔ وہ پاکیزہ اور حلال ہیں اور جن کے طبائع انسانیہ متنفر ہیں وہ حرام اور ناجائز کی فہرست میں آتی ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ نے پاک اور حلال چیزوں کو حرام قرار دینے سے منع فرمایا ہے۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ کسی حلال چیز کو حرام قرار دینے کی تین مختلف صورتیں ہیں اور ان کے احکام بھی مختلف ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے کوئی شخص اگر اعتقاداً اس کو حرام سمجھنے لگے تو وہ کافر ہوگیا۔ کسی قطعی حلال چیز کو حرام سمجھنے والا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال سمجھتا ہے تو وہ بھی کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔ حلت و حرمت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص عقیدے کے طور پر تو حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں سمجھتا مگر اپنی زبان سے اس چیز کا اقرار کرلیتا ہے۔ جیسے قسم اٹھا لے کہ اگر میں نے فلاں چیز کھائی تو وہ میرے لئے خنزیر جیسی حرام ہے۔ یہ چیز قسم کے دائرہ میں آتی ہے اور اس کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے بہرحال اگر کسی شخص نے کسی حلال چیز کو استعمال نہ کرنے کی قسم اٹھائی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی قسم توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کرے اور اگر قسم نہیں اٹھائی ویسے ہی کوئی بیہودہ بات کہ دی ہے تو اسے توبہ کرنے کا حکم دیا جائے گا ، کفارہ نہیں ادا کرنا پڑے گا ، قسم کے الفاظ صریح ہوں یا ان سے قسم کا مطلب نکلتا ہو ، تب بھی کفارہ ادا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ سورة تحریم میں اس کی مثال موجود ہے ، حضور ﷺ نے شہد کے متعلق فرمایا دیا تھا کہ میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔ تو اللہ تعالیٰ کا حکم آ گیا ” یا یھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک “ آپ ایسی چیز کو اپنے اوپر کیوں حرام قرار دیتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دی ہے اور پھر ساتھ ہی فرمایا قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم ۔ اللہ نے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ لہٰذا طیب چیزوں کو استعمال کر اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔ رہبانیت یا بدعت حلت و حرمت کی تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی حلال چیز کو کار ثواب سمجھ کر ترک کر دے اور سمجھے کہ ایسا کرنے سے تقرب الٰہی حاصل ہوگا تو اس کو رہبانیت اور بدعت کہا جاتا ہے اور اس کا خلاف کرنا ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ لا رہبانیۃ فی الاسلام اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رہبانیت کی مثالی صورت یہ ہے کہ کوئی کار ثواب سمجھ کر یا اللہ کا قرب حاصل کرنے کی خاطر نکاح کرنے سے انکار کر دے یا کھانا پینا چھوڑ دے یا اچھا لباس پہننے سے انکار کر دے ، یہ سب رہبانیت کے دائرہ میں آتا ہے اور اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ بلکہ مکی مذمت آئی ہے۔ ہاں ترک حلال کی جائز صورت یہ ہے کہ انسان کسی چیز کے ترک کو ثواب سمجھے بغیر کسی جسمانی یا روحانی بیماری کے علاج کے لئے ایسا کرے۔ بعض آدمی بعض سبزیاں نہیں کھاتے کہ جسمانی طور پر ان کے لئے مضر ہوتی ہیں بعض لوگوں کو گائے کا گوشت موافق نہیں آتا۔ بعض بیماریوں میں گھی اور دودھ کا استعمال مضر صح ہوتا ہے ، لہٰذا ان چیزوں کو ترک کردیا جاتا ہے مگر ثواب یا تقرب الی اللہ کے لئے نہیں بلکہ طبی نقطہ نظر سے ایسا کیا جاتا ہے اسی طرح بعض روحانی بیماریوں کے لئے بھی بعض حلال چیزوں کو ترک کردیا جاتا ہے۔ بزرگان دین جو اس قسم کے علاج تجویز کرتے ہیں۔ وہ جائز ہے اور اس سے قسم لازم نہیں آتی۔ بعض اوقات بزرگ عبادت میں انہماک کے لئے قلت طعام تجویز کرتے ہیں مگر نہ تو وہ طعام کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ کم کھانے کو کار ثواب میں داخل کرتے ہیں۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ اس معاملہ میں بزرگان دین نے جو طریقہ اختیار کیا۔ اسے اس تیسری صورت پر محمول کرنا چاہئے ۔ یہ بدعت نہیں بلکہ روحانی علاج ہے کہ انسان کھانا کم کر دے یا سادہ لباس پہننے لگے۔ سادہ اور عمدہ لباس شیخ عبدالقادر جیلانی کا معمول تھا کہ وہ سادہ لباس پہنتے تھے۔ خواجہ معین الدین اجمیری بھی سادہ لباس کو پسند کرتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز شہزادگی کے زمانے میں پانچ پانچ سو درہم کا کرتہ یا چادر استعمال کرتے تھے مگر جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ کا لباس صرف دو درہم مالیت کا ہوتا تھا۔ لباس کے متعلق بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے البسوا ما شئتم تم جیسا چاہو لباس پہنو مالم یکن فحیلۃ ولا سرف ۔ مگر وہ تکبر اور اسراف والا نہیں ہونا چاہئے۔ بعض صحابہ کرام پشمینہ جیسا قیمتی لباس زیب تن کرتے تھے ، پشمینہ ریشم سے ملتا جلتا کپڑا ہے مگر ریشم نہیں ۔ ریشم مردوں کے لئے قطعی حرام ہے امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگرد امام محمد بہت قیمتی لباس پہنتے تھے۔ ہمارے بزرگوں میں مولانا اشرفعلی تھانوی عمدہ لباس پہنتے تھے ، البتہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا حسین احمد مدنی اسدہ اور معمولی لباس کو پسند فرماتے تھے۔ اچھا اور عمدہ لباس اگر حلال کمائی کا ہو اور اس میں تکبر اور اسراف نہ پایا جائے تو بالکل جائز ہے قرآن پاک میں موجود ہے۔ قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیبت من الرزق۔ “ (اعراف) اے پیغمبر آپ کہہ دیجیے کہ کس نے حرام کردیا ہے اللہ کی زینت کو جس کو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالا ہے۔ جائز زینت اختایر کرنا جائز ہے ، البتہ ناجائز زینت مکروہ اور حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جائز زینت اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا ہے۔ انہیں کھائو اور اس کا شکریہ ادا کرو۔ حد سے آگے نہ بڑھو۔ اسراف اور تبذیر سے پرہیز کرو۔ زہد کی تعریف کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام قرار دے لینا زہد کی تعریف میں نہیں آتا۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ لیست الزھادۃ فی الدین بتحریم الحلال ولا اضاعتی المال دنیا میں زہد اس چیز کا نام نہیں کہ کسی حلال چیز کو حرام قرار دیدیا جائے اور نہ مال کو ضائع کرنے کا نام ہے۔ ولکن الزھادۃیالدنیا ان لاتکون مما فی یدیک وثق ما فی ید اللہ زہد تو یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اس پر زیادہ اعتماد نہ ہو اس چیز کی نسبت جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اپنی چیز کو فانی سمجھو۔ کوئی چیز پائیدار نہیں۔ جو چیز اللہ کے پاس ہے وہی مستقل ہے۔ اسی نظریے کا نام زہد ہے۔ بہرحال فرمایا اے ایمان والو ! نہ حرام کرو وہ پاکیزہ چیزیں جو اللہ نے تمہارے لئے حلال قرار دی ہیں اور نہ حد سے بڑھو کیونکہ یہ چیز اللہ کو ہرگز پسند نہیں۔ حلال اور پاک روزی آگے فرمایا وکالوا مما رزقکم اللہ حلا طیب ۔ اور کھائو اللہ نے تمہیں جو روزی دی ہے بشرطیکہ وہ حلال بھی ہو اور پاک بھی ہو۔ حلال چیز وہ ہے جسے شریعت نے حرام قرار نہیں دیا اور طیب اس لحاظ سے کہ طبع انسانی اس کی طرف مائل ہوتی ہے ، کھانا عمدہ لذیذ اور مرغوب ہو تو انسانی طبیعت خود بخود اس کی طرف مائل ہوجاتی ہے ، یہی اس کی پاکیزگی کی علامت ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی چیز میں کسی کا حق متعلق نہ ہو بکری کا گوشت حلال اور طیب ہے اگر یہی گوشت کسی چوری یا غضب شدہ بکری کا ہے تو وہ پاک نہیں ہوگا۔ بکری کا گوشت صحیح ذبح کے ساتھ بالکل حلال ہے مگر جب تک حقدار کو اس کا حق یا اس کا بدلہ نہیں ادا ہوگا ایسا گوشت ناپاک رہے گا اور اس کا کھانا درست نہیں ہوگا۔ طیب چیز میں ظاہری پاکیزگی کا ہونا بھی لازم ہے۔ گندی اور خبیث چیز کا استعمال جائز نہیں۔ قرآن پاک میں سورة اعراف میں نبی کی ایک تعریف یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ ” تحدلھم م المیت ویحد م علیھم و الخبئث “ وہ طیب چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے۔ اسی لئے محدثین اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ پکا ہوا سالن حلال اور طیب ہے لیکن اگر وہ گل سڑ جائے اور اس میں بدبو پیدا ہوجائے تو وہی سالن مکروہ تحریمی بن جائے گا کیونکہ وہ جسمانی صحت کے لئے مضر اور بیماری کا باعث ہوگا۔ اسی طرح سنکھیا یا زہر کے بارے میں فرمایا لھی عن الدوار الخبیث خبیث دوا کے استعمال سے منع فرمایا گیا ہے زہر ناپاک نہیں ہے مگر اپنے اثر کے اعتبار سے مہلک ہونے کی وجہ سے خبیث ہے اس کا استعمال جائز نہیں ینکھیا زہر اسی صورت میں استعمال ہو سکتا ہے جب کہ اس کا کشتہ کردیا ہو اور اس کی نہایت قلیل مقدار استعمال کی جائے۔ تقویٰ اختیار کرو شریعت نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں ان میں کوئی نہ کوئی جسمانی خرابی ہے یا روحانی ، حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنا ملت ابراہیمی کا اہم اصول ہے۔ اگر حلال کو حرام قرار دے دیا جائے تو مصلحت عامہ خراب ہو جائیگی۔ سوسائٹی پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ لہٰذا حلال چیزوں سے استفادہ کرنا چاہئے اور حرام چیزوں سے پرہیز لازم ہے اسی چیز کا نام تقویٰ ہے اور اس کے متعلق اللہ نے فرمایا واتقوا اللہ الذی انتم بہ مومنون اللہ سے ڈرتے رہو۔ اس اللہ سے جس کے متعلق ایمان رکھتے ہو کہ وہ ہمارا خالق اور مالک ہے۔ حلت و حرمت کا قانون اسی کے دائرہ اختیار میں ہے اس کے قانون کی پابندی میں تمہار ترقی کا راز مضمر ہے اور قانون کی خلاف ورزی تمہاری تنزلی کا پیش خیمہ ہے اس سے تمہاری دنیا اور عاقبت دونوں ضائع ہوجائیں گی۔
Top