Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 109
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِ : قوم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : علم والا (ماہر
فرعون کی قوم سرداروں نے کہا یقینا یہ بہت بڑا صاحب علم جادوگر ہے
رکوع نمبر 14 ۔ آیات 109 تا 126 ۔ اسرار و معارف : جادو اور معجزہ میں فرق : جب امراء دربار نے دیکھا جن میں مذہبی پیشوا اور دنیاوی سردار سب شامل تھے تو کہہ اٹھے کہ انہیں فن جادوگری میں کمال حاصل ہے کم از کم اتنا ضرور مان گئے کہ یہ کمال آج تک کسی جادوگر سے دیکھا نہ سنا چونکہ ان کے قلوب اس قدر سیاہ اور تباہ ہوچکے تھے کہ قبول حق کی استعداد ہی نہ تھی ورنہ جادوگروں پر موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی برتری تو سامنے تھی نیز جادو اور معجزہ میں کئی طرح سے فرق ہوتا ہے سب سے پہلے تو افراد ہی مختلف طرح کے ہوتے ہیں جادوگر کا شیطان سے رابطہ ہوتا ہے لہذا وہ غلیظ اور بدکار ہوتا ہے جبکہ نبی کا رابطہ ذات باری سے ہوتا ہے لہذا عقائد اور اعمال میں پاکیزگی ہوتی ہے دوسرا یہ کہ جاو کا اظہار ذاتی بڑائی یا اپنی بات منوانے کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ معجزہ کا اظہار عظمت باری کو منوانے کے لیے ہوتا ہے تیسرا فرق یہ ہوتا ہے کہ جادو سے چیز کی اصل تبدیل نہیں ہوتی صرف انسانی آنکھیں دھوکا کھاتی ہیں مگر معجزہ شے کی حقیقت کو بدل دیتا ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے وہ واقعی ہوتا بھی ہے یہی پہچان کرامت ولی اور شعبدہ میں بھی ہے کہ کرامت در اصل نبی کا معجزہ ہی ہے جو کامل اتباع کے طفیل ولی کے ہاتھ پہ ظاہر ہوا۔ تو کہنے لگے کہ اس کا سبب ہماری سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ یہ قوم فرعون سے اس کی سلطنت اور وطن چھیننا چاہتا ہے ہے اور محض اقتدار کی خاطر یہ اپنے کمال کا اظہار کر رہا ہے اب سب ایوان مل کر رائے دیں کہ اس کے بارے کیا کریں۔ جادو سے ڈرنا نہ چاہئے : بالآخر سب نے یہ طے کیا کہ۔ فرعون کو چاہئے اسے مہلت دے اور اس کے جادو کا مقابلہ اپنے قوم کے جادوگروں سے کرایا جائے تاکہ یہ شکست کھا کر اپنے انجام کو پہنچے بھلا یہ کی امشکل ہے آخرت ہمارے پاس بھی تو ایک سے ایک ماہر جادوگر ہے چناچہ جادوگروں کو جمع کرنے کے لیے تمام شہروں میں قاصد روانہ کردئیے جائیں۔ چناچہ ہر طرف سے جادور جمع ہونا شروع ہوگئے جن کی تعداد بعض روایات کے مطابق سینکڑوں میں تھی اور سینکڑوں اونٹوں پر لاٹھیوں اور رسوں کے انبار لاد کر لائے گئے اور مقابلے کی تیار شروع ہوگئی انہوں نے آتے ہی فرعون سے درخواست کی کہ ہم مقابلہ جیت گئے تو ہمیں انعام بھی ملنا چاہئے۔ صاحب تفسیر کبیر نے یہاں استدلال فرمایا ہے کہ اگر جادو کے زور سے کچھ ہوسکتا تو انہیں فرعون سے مانگنے کی ضرورت نہ تھی مٹی کو سنا بنا لیتے یا دنیا کے بادشاہ بن جاتے مگر جادو صرف نظر کا دھوکا ہوتا ہے شئے کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا اس لیے جادوگر سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں وہ دیکھ رہے تھے کہ فرعون خود عاجز اور ذلیل ہے تب ان سے مدد کا طلب گار ہے پھر بھی اس سے مانگ رہے تھے لہذا اس نے وعدہ کرلیا کہ نہ صرف انعام دوں گا بلکہ تمہیں میرا قرب عطا کیا جائے گا۔ میرے درباری اور مقرب بن ادئیے جاؤگے۔ طے شدہ وقت اور مقام پر مقابلے کے لیے پہنچے ایک طرف فرعونی تکبر اور نمود و نمائش لاؤ لشکر اور تماشائی تھے جادوگروں کی فوج تھی دوسری طرف اللہ کا اولوالعزم رسول اپنے بھائی کے ساتھ بالوں کے کمبل کا لباس اور کچے چمڑے کی جوتی ، ہاتھ میں عصا ، بظاہر اکیلا و تنہا مگر تائید مالک الملک کے ساتھ جلوہ افروز ہوا۔ ادب کا ثمرہ : جادوگر الوہیت اور نبوت کے تصور سے آشنا نہ تھے مگر موسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت کے قائل ضرور ہوگئے کہ ضرور کوئی صاحب کمال ہے جس نے فرعون کو پریشان کردیا ہے لہذا ادب کا اظہار کیا اور کہا آپ پہلے لاٹھی ڈالنا پسند فرمائیں گے یا ہمیں اجازت ہے کہ ہم ڈالیں علامہ ابن کثیر نے بھی یہی استدلال فرمایا کہ جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ادب کا معاملہ کیا تو اللہ کریم نے انہیں ہدایت نصیب فرما دی اور فرعون نے تکبر کیا لہذا محروم رہا۔ اور بھی بہت سی مثالوں کے علاوہ خود آقائے نامدار ﷺ کے ساتھ جن لوگوں نے اگرچہ اطاعت نہیں کی بلکہ کفر و شرک کی طرف سے اسلام کے خلاف جنگوں میں بھی شریک ہوئے مگر اخلاقی اعتبار سے آپ سے گستاخی کے مرتکب نہیں ہوئے انہیں توبہ کی توفیق نصیب ہوگئی اور جو لوگ اخلاقاً گستاخ اور بےادب تھے محرومی و حسرت کی موت کا شکار ہوئے اور کبھی ہدایت نہ پا سکے یہی حال اہل اللہ کا ہوتا ہے با ادب مستفید ہوتا ہے اور بےادب محروم رہتا ہے۔ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اجازت پا کر جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں پھینک دیں مگر لوگوں کی نگاہوں پہ جادو کردیا اور لوگوں کو ڈرایا بھی۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ جگہ جگہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر آدمی اپنی حفاظت کا خود خیال رکھے اس طرح انہوں نے جادو کا بہت بڑا یعنی دو کام کیے قوت متخیلہ پر مسمریزم کی طرح گرفت کرکے اور ساتھ لوگوں کو پریشان کرکے پنا کام نکالا کہ جب آدمی خوفزدہ اور پریشان ہوتا ہے تو اس کی قوت متخیلہ کو متاثر کرنا آسان ہوجاتا ہے اور وہ پریشانی کی وجہ سے دفاع نہیں کرسکتا۔ اللہ کریم نے اسے سحر عظیم فرمایا جس سے ثابت ہے کہ اصل شئے تبدیل نہیں ہوتی ہاں دیکھنے والوں کو ویسی نظر آتی ہے جیسے جادوگر دکھانا چاہتا ہے مثلاً جاودوگر کسی انسان کو گدھا بنا دے تو وہ واقعی گدھا نہیں بنے گا مگر لوگوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی ایسا ہی پائے گا اور ایسی ہی حرکات شروع کردے گا لیکن اگر مرگیا تو حساب انسانوں ہی کے ساتھ دے گا جانوروں میں شمار نہ ہوگا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو ارشاد ہوا ذرا آپ بھی لاٹھی ڈال دیں ہزاروں بڑے بڑے شہتیر اور رسے میدان میں اژدہوں کی صورت میں پھنکارتے پھرتے تھے جنہیں گرداگرد سے جادوگر بمشکل روک رہے تھے اور لوگوں کو بچنے اور ہوشیار رہنے کی تلقین ہو رہی تھی کہ اللہ کریم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل پر القا فرمایا اب اس ہماہمی اور جادو کے اظہار کے عین شباب کے وقت لاٹھی ڈال دیں۔ لاٹھی کا ڈالنا تھا کہ ایک عظیم اژدہا بن گیا اتنا بڑا کہ ان سب کو نگلنے لگا اور سانپوں اژدہوں کی عادت ہے اپنے سے چھوٹے کو کھاجاتے ہیں میدان بھرا ہوا تھا لاکھوں کی تعداد تھی اور بڑے بڑے اژد ہے تھے مگر لاٹھی سب سے بڑا اژدھا بن گئی اور ان سب کو نگل گیا اور ان سے میدان خالی کردیا مگر بھوک سے منہ پھیلائے پھنکار رہا تھا۔ یہ حق کی فتح تھی موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگروں پہ عظیم فتح حاصل ہوئی اور جتنا رعب انہوں نے بنایا تھا ختم ہوگیا اور لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی اور ان کے جادو کی کوئی حیثیت نہیں۔ نہ صرف مغلوب ہوئے بلکہ بہت رسوائی ہوئی اور حق کو عزت ملی۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ سجدے میں گر گئے اور اعلان کردیا کہ ہم پروردگار عالم پہ ایمان لائے وہ پروردگار جسے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اپنا رب مانتے ہیں یہ شاندار معجزہ فرعون نے بھی اور اس کی تمام قوم نے بھی دیکھا تھا مگر ایمان لانے کی توفیق صرف جادوگروں کو نصیب ہوئی یہ نبی کے ادب کرنے کا صلہ تھا جو اللہ کریم نے عطا فرما دیا۔ اور جب جادوگر ایمان لائے تو لوگوں کی اکثریت بھی اس طرف مائل ہوگئی اور لاکھوں لوگوں نے اعلان کردیا کہ حق موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہے۔ مگر فرعون نے بھی فوراً پانسہ پھینکا اور کہنے لگا اچھا تو یہ ملک کے خلاف سازش تھی میں اب سمجھاتم سب نے مل کر موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سازش تیار کی ہے کہ اس طرح سے لوگوں کو خوفزدہ کرکے اقتدار پر قابض ہوجاؤ پھر تو موسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کو شہروں سے نکال باہر کریں گے اور اپنی غریب قوم کو وہاں آباد کردیں گے یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے آج ہر سیاست دان جب کام اس کی مرضی کے خلاف ہو تو ملک کے لیے سخت خطرے کا اعلان کردیتا ہے اس بات کا موجد فرعون تھا جادوگروں کا کمال اور لوگوں کا متاثر ہونا پھر موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اس کے نتیجے میں جادوگروں کا ایمان لانا جو پہلے سے بھی بڑا معجزہ تھا اس تمام کام کو ایک سیاسی سازش کہہ کر لوگوں سے اس کا حقیقی اثر زائل کرنا چاہا اور کہنے لگا ابھی تمہاری اس حرکت کی سزا دے کر تمہارا بھرم کھول دیتا ہوں میں تمہیں ایسی سخت سزا دوں گا کہ ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کٹوا دوں گا پھر تمہارے اس آدھے بدن کو سولی پر لٹکایا جائے گا۔ حصول علم کا سب سے اعلی ذریعہ : دین اور آخرت کا علم یا ذات باری اور صفات باری کی بات عقل نہیں دل سیکھتا ہے اور اس کے سیکھنے کا صرف ایک ذریعہ ہے کہ قلب نبوت سے رابطہ استوار کرلے تو بغیر لبوں کی جنبش کے اور بغیر تقریر و تحریر کے خالص اور کھرے علوم اس تک پہنچ جاتے ہیں۔ ابھی توھری دیر پہلے جو جادوگر کافر تھے اور ساری امیدوں کا مرکز فرعون کو بنا رکھا تھا اب مومن ہیں اور ذرا ذوق شہادت دیکھئے اور علم کا اندازہ کریں کہ کہنے لگے اگر تم ہمیں سولی دوگے تو بہت مزہ آئے گا کہ ہم اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ جائیں گے گویا وہ نہ صرف عظمت باری کو پا گئے بلکہ حیات موت ما بعد الموت اور ان تمام باتوں کو جان گئے۔ شیخ کے ساتھ تعلق کا کمال بھی یہی ہے کہ دل زندہ ہو کر ان علوم کو حاصل کرلے۔ فرمانے لگے کہ اللہ کی آیات پہ ایمان لانے کی اگر یہ سزا ہے تو کوئی بات نہیں یہ جان تو اسی مقصد پہ نثار ہونی چاہئے ہاں ہم از خود کچھ بھی تو نہیں لہذا اے ہمارے رب ہم پر صبر انڈیل دے ایسا صبر عطا کر کہ کافر ایذا دے کر شرمندہ ہو اس کے کان ہماری آہ نہ سن سکیں اور ہمیں اسلام پر موت نصیب فرما۔ سبحان اللہ زندگی اور اس کی تمام لذتوں سے بڑھ کر اسلام عزیز ہے اور صبح کے سورج نے جنہیں فرعون کا جادوگر دیکھا تھا شام کے ڈھلتے سورج نے انہیں موسیٰ کے شہداء کے روپ میں دیکھا۔
Top