Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 109
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِ : قوم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : علم والا (ماہر
تو قوم فرعون میں جو سردار تھے وہ کہنے لگے یہ بڑا علامہ جادوگر ہے۔
آیت نمبر 109 تا 126 ترجمہ : قوم فرعون میں جو لوگ سردار تھے انہوں نے کہا واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے یعنی علم سحر میں ماہر ہے اور سورة الشعراء میں یہ قوم فرعون کی طرف منسوب ہے، تو ہوسکتا ہے کہ لوگوں نے فرعون کے ساتھ مشورہ کے طور پر کہا ہو، اس کا مقصد تو یہ ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے ناکل باہر کرے سو تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو ؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو مہلت دے دیجئے یعنی (فی الحال) ان کے معاملہ کو ملتوی رکھئے، اور شہروں میں جمع کرنے والے ہر کاروں کو بھیج دیجئے کہ وہ آپ کے پاس ہر ماہر جادوگر کو لاکر حاضر کریں اور ایک قراءت میں سحَّار ہے، کہ علم سحر میں جو فوقیت رکھتے ہوں، چناچہ وہ جمع ہوگئے، وہ جادو گر فرعون کے پاس آئے اور عرض کیا اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہم کو کوئی بڑا صلہ (انعام) ملے گا (فرعون نے) کہا، ہاں، اور تم مقربین میں شامل ہوجاؤ گے، (جادوگروں نے) موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے موسیٰ (عصاء) تم (پہلے) ڈالتے ہو یا جو ہمارے پاس ہے ہم ڈالیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا تم ہی ڈالو (اَلْقُوْا) امر ان کو پہلے ڈالنے کی اجازت کیلئے ہے تاکہ پہلے ڈالنا اظہار حق کا وسیلہ بنے، (یہ امر حکم کیلئے نہیں ہے) جب انہوں نے اپنی رسیوں اور لکڑیوں کو ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی یعنی آنکھوں کو حقیقت کے ادراک سے روک دیا، اور ان سے خوف طاری کردیا یعنی ان کو ایسا خوف زدہ کردیا کہ وہ (ان لکڑیوں اور رسیوں کو) دوڑتے ہوئے سانپ سمجھنے لگے، (اس طرح) انہوں نے ایک بڑا جادو پیش کیا، اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم بھی اپنا عصاء ڈالو، تو اچانک اس نے ان کے بنائے ہوئے گورک دھندے کو نگلنا شروع کردیا (تلقفُ ) اصل میں ایک تاء کے حذف کے ساتھ ہے معنی میں نگلنے کے ہے، (ما یأفکون) مراد جو وہ ہاتھ کی صفائی سے پیش کر رہے تھے، حق ثابت اور ظاہر ہوگیا اور جو جادو انہوں نے پیش کیا تھا وہ جاتا رہا چناچہ فرعون اور اس کی قوم موقع ہی پر ہار گئی، اور (خوب) ذلیل ہو کر واپس ہوئے یعنی خوب ذلیل و (خوار) ہوئے، اور جادو گر سجدہ میں گرگئے (جادوگر) کہنے لگے ہم رب العلمین پر ایمان لائے جو موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون کا بھی رب ہے ان کو اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے کہ یہ کچھ انہوں نے عصاء (موسیٰ ) سے مشاہدہ کیا وہ جادو کے ذریعہ ممکن نہ تھا، فرعون کہنے لگا کہ کیا تم میری اجازت کے بغیر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ہو، بیشک یہ ایک خفیہ سازش تھی جس کو تم نے اس شہر میں عملی جامعہ پہنایا تاکہ تم شہر کے باشندوں کو اس سے بےدخل کردو، اچھا تو اب تم کو عنقریب وہ نتیجہ معلوم ہوجائیگا، جو میری طرف سے ظاہر ہونے والا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف جانب سے کٹوا دوں گا یعنی ہر ایک کا دایاں ہاتھ اور بایاں پیر، پھر تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا انہوں نے جواب دیا بہرحال ہم کو مرنے کے بعد جس حالت میں بھی ہو اپنے رب کی طرف آخرت میں پلٹنا ہے اور تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آئیں (واضح ہوگئیں) تو ہم نے ان کو مان لیا، اے ہمارے رب تو ہمارے اوپر صبر کا فیضان کر جب (فرعون) اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائے تاکہ ہم حالت کفر کی طرف نہ پلٹ جائیں، اور ہم کو (دنیا سے) اس حال میں اٹھا کہ ہم فرمانبردار ہوں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : علیٰ سَبِیْلِ التَشَاوُرِ ، اس اضافہ کا مقصد سورة شعراء اور یہاں کے مضمون میں تطبیق دیکر تعارض کو دور کرنا ہے، اَخّر امرھا، ای لا تعجل فی قتلہٖ ۔ قولہ : مَا مَعَنَا، اس میں اشارہ ہے کہ الملقین کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : تَوَسُّلاً یہ اس سوال کا جواب ہے کہ سحر جو کہ ایک ممنوع اور ناپسندیدہ چیز ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا کیوں حکم دیا ؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ امر نہ بطور ادب ہے اور بطور حکم ہے بلکہ یہ امر برائے اجازت ہے اور اس اجازت کا مقصد بھی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ باطل کا ابطال اور حق کا اظہار ہو، یافکون، یہ افک (ض) سے جمع مذکر غائب ہے یعنی پلٹنا، الافک صرف الشئ عن وجھہ۔ قولہ : اَرْجِہْ یہ ارجاء سے واحد مذکر حاضر کا صیغہ ہے، اسکو ڈھیل دے اس میں ہٗ ضمیر مفعولی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی راجع ہے تفسیر و تشریح قال الملا۔۔۔۔ علیم، لفظ مَلأ، کسی قوم کے با اثر سرداروں کیلئے بولا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ قوم کے سردار معجزات دیکھ کر کہنے لگے یہ تو بڑا ماہر جادو گر معلوم ہوتا ہے۔ سحر اور معجزہ میں فرق : اہل بصیرت اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جادو سے جو چیزیں ظاہر ہوتی ہیں وہ اسباب طبعیہ کے تحت ہوتی ہیں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتے اسلئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام بغیر کسی سبب ظاہری کے ہوگیا، بخلاف معجزہ کے کہ اس میں اسباب طبیعیہ کا مطلق کوئی دخل نہیں ہوتا وہ براہ راست قدرت حق کا فعل ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں اس کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، ” وَلکن اللہ رمٰی “۔ اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ اور سحر کی حقیقتیں بالکل مختلف ہیں حقیقت شناس کیلئے تو کوئی التباس کی وجہ نہیں عوام الناس کو التباس ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس التباس کو دور کرنے کیلئے بھی ایسے امتیازات رکھ دئیے ہیں کہ جس کی وجہ سے لوگ دھوکہ سے بچ جائیں۔ (معارف)
Top