Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 109
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِ : قوم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : علم والا (ماہر
کہا سربرآوردہ لوگوں نے فرعون کی قوم سے ، بیشک یہ (موسیٰ علیہ السلام) البتہ بڑا جاننے والا جادوگر ہے
ربط آیات تبلیغ رسالت کے سلسلے میں پہلے پانچ انبیا (علیہم السلام) اور ان کی اقوام کا ذکر ہوا۔ پھر سنت اللہ اور اقوام کی ذہنیت کا بیان ہوا یہ صرف ان پانچ انبیاء کی بات نہیں بلکہ دیگر انبیاء کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے ایسا ہی سلوک کیا پھر اللہ کا دستور یہ رہا کہ پہلے ان لوگوں پر تنگی ڈال کر انہیں آزمایا اور پھر آسودگی دے کر بھی آزمائش کی۔ اکثر و بیشتر نتیجہ یہی نکلا کہ لوگوں نے انبیاء کو تسلیم نہ کیا اور تباہ ہوئے۔ ان کی ہلاکت کا تذکرہ ان الفاظ میں ہوچکا ہے ” فانظرکیف کان عاقبۃ المفسدین “ دیکھو ! فساد کرنے والوں کا کیسا برا انجام ہوا۔ ان انبیاء کے بعد پھر دوسرے دور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو قوموں کی طرف بھیجا ۔ ایک آپ کی اپنی قوم بنی اسرائیل تھی اور دوسری قبطی قوم تھی جس کا سربراہ فرعون تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے پہلا حکم خدا وندی یہی تھا کہ فرعون اور اس کے حواریوں کو ہمارا پیغام پہنچائو اللہ نے فرعون کے مقابلے کے لیے دو نشانیاں یا معجزات بھی آپ کو عطا فرمائے ان میں سے ایک عصا تھا اور دوسرا یدبیضا جب موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا پیغام لے کر فرعون کے پاس پہنچے تو اس نے نشانیوں کا مطالبہ کیا آپ نے دونوں معجزات ظاہر کردیے تو فرعونی مرعوب ہوگئے مگر ایمان نہ لائے اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون کے جادوگروں کے مقابلے کا ذکر کیا ہے یہ سلسلہ بیان آگے دور تک چلا جارہا ہے جس میں موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ معجرات کا انکار جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا اور یدہیضا کے معجزات پیش کیے تو فرعون اور اس کی قوم کہنے لگی قال الملامن قوم فرعون تو فرعون کی رقوم کے سرداروں نے کہا ان ھذا لسحر علیم موسیٰ (علیہ السلام) تو بڑا ماہر جادوگر معلوم ہوتا ہے اور نہ انصاف سے کام لیا اور اللہ کے نبی کو جادوگر کہہ دیا اس کے بعد لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) پر یہ الزام لگایا یرید ان یحرجکم من ارضکم یہ چاہتا ہے کہ تمہیں زمین سے نکال دے۔ لوگوں کو اللہ کے نبیوں سے بدظن کرنے کے لیے جابر قسم کے لوگوں کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ انبیاء کے خلاف ملک گیری کا جھوٹا پراپیگنڈا کرتے ہیں دیکھو ! اگر اس شخص کی بات مان لی تو یہ تمہیں ملک بدر کردے گا اور خود تمہارے علاقے پر قبضہ کرے گا اس ملک کے اصل مالک تم ہو ، تمہاری حکومت ہے ، تمہیں یہاں اقتدار حاصل ہے مگر یہ شخص اپنا تسلط چاہتا ہے لہٰذا اس سے خبردار رہنا اور اس کی باتوں میں نہ آنا ، ہر مصلح اور نبی کے بارے میں یہی پراپیگنڈا کیا گیا مشرکین مکہ بھی حضور ﷺ کو ساحر کہتے تھے شق القمر کا معجزہ دیکھا تو کہنے لگے اس شخص نے جادو کردیا ہے فرعون اور اس کے حواریوں نے بھی یہی ہتھیار استعمال کیا موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو سحر اور آپ کو ماحر کا خطاب دیا۔ بعثت انبیاء کا مقصد امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت دیں گویا بندوں کو اللہ تعالیٰ سے روشناس کرائیں انبیاء کے فرائض منصبی میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ رسومات باطلہ کو مٹائیں اور لوگوں کے درمیان ظلم و زیادتی کو ختم کریں معرفت الٰہی کے بعد دوسرے امور کے لیے جماعت کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرتی نظام بھی درست کرتی ہے اور جہاد کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے مگر نبی کا بنیادی مقصد ملک گیری نہیں بلکہ ملکی اصلاح ہوتا ہے اسی لیے تاریخ انبیاء میں ہم دیکھتے ہیں کہ پورے سلسلہ انبیاء میں صرف چند ایک ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے ساتھ ساتھ خلافت ارضی بھی عطا فرمائی وگرنہ اکثر و بیشتر انبیاء کا مشن اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور لوگوں کی اصلاح تک محدود رہا اور اگر کوئی بادشاہ دین حق کو قبول کرے اس پر عمل پیرا ہوجائے تو پھر نبی کو تخت حکومت پر بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جب اغیار کے نظام کی جگہ اللہ کا مقرر کردہ نظام آگیا تو نبی کا مشن پورا ہوگیا خود حضور ﷺ کے زمانہ میں کئی حکمرانوں نے اسلام قبول کیا تو آپ نے حکم دیا کہ حکومت انہی کے پاس رہنے دو ، ہمارا مقصد پورا ہوگیا ہے غرضیکہ نبی کا کام سلطنت پر متمکن ہونا نہیں ہوتا اور اگر باطل رسومات کو مٹانے اور ظلم کو ختم کرنے کے لیے جماعت کی ضرورت ہو تو پھر ایسی جماعت تیار کرنی پڑتی ہے جو تبلیغ کے ذریعہ اور ضرورت ہو تو جہاد کرکے اللہ کے دین کو دوسروں تک پہنچائے اور عدل و انصاف قائم کرے۔ جادوگروں کا اجتماع بہرحال سربرآوردہ لوگوں نے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہیں ملک بدر کرنا چاہتا ہے فماذا تامرون اب بتلائو ، تم اس سلسلے میں کیا مشورہ دیتے ہو یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی تحریک کا کیا جواب دینا چاہیے قالوا تو ان لوگوں نے کہا ارجہ واخاہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو کچھ مدت مہلت دو وہ خوفزدہ تو ہوچکے تھے کہنے لگے اس معاملہ میں جلدی نہ کرو اور اس دوران میں وارسل فی المدائن حشرین اور مختلف شہروں میں آدمی بھیجو یا توک بکل سحر علیم جو ہر علم والے جادوگر کو تیرے پاس لے آئیں گے۔ جس طرح آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی کو بڑا عروج حاصل ہے قدیم زمانے میں نجومیوں اور سحروں کی بڑی قدر و منزلت تھی جس طرح موجودہ زمانے میں مختلف امور میں فنی ماہرین کے مشورے کے بغیر حکومت کوئی کام شروع نہیں کرتی اس زمانے میں زمام حکومت میں ساحروں کا بڑا عمل دخل ہوتا تھا حکمران ہر کام میں ان سے مشورہ لیتے تھے چناچہ فرعون کے دربار میں جب موسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ زیر بحث آیا تو سربرآوردہ لوگوں نے یہی مشورہ دیا کہ ہمارے ملک میں بڑے بڑے قابل ساحر موجود ہیں انہیں اکٹھا کرکے ان کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جادو کا کھیل دکھایا ہے تو اس کا مقابلہ ماہر جادوگر ہی کرسکتے ہیں چناچہ حکومت کے کارندے مختلف شہروں میں بھیجے گئے اور جادوگروں کو بلایا گیا بڑے بڑے جادوگر دور دراز علاقوں سے بمعہ اپنے سازو سامان کے اکٹھے ہوگئے ان کی تعداد کے متعلق مفسرین کی مختلف رائیں ہیں بعض نے بیس ہزار ، بعض نے نوے ہزار حتیٰ کہ تین لاکھ کی تعداد بھی روایات میں آتی ہے تاہم جادوگروں کی کم از کم تعداد امام بغوی (رح) نے بیان کی ہے وہ پندرہ ہزار ہے ان جادوگروں کے کرتب کا سامان کم و بیش تین سو اونٹوں پر لاد کر لایا گیا۔ وجاء السحرۃ فرعون چناچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے اور یوں کہنے لگے قالو ان لنا لاجراً بیشک ہمارے لیے کوئی معاوضہ یا اجر ہوگا ؟ ان کنا نحن الغلبین اگر ہم موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے بس یہی وہ موڑ ہے جہاں آکر نبی اور ساحر میں امتیاز ہوتا ہے ساحر خود غرض اور مفاد پرست ہوتے ہیں وہ جو کام کرتے ہیں پیسے کی خاطر کرتے ہیں ان جادو گروں نے بھی کہا کہ ہم دور دراز سے سفر کرکے آئے ہیں تکالیف برداشت کی ہیں ، وقت دیا ہے ، زاد راہ خرچ کیا ہے ہمیں محنت کا کچھ معاوضہ بھی ملے گا یا نہیں ؟ ادھر اللہ کا نبی ہے جو کہتا ہے لا اسئلکم علیہ اجراً میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ” ان اجری الا علی اللہ “ (سورۃ ہود) میرا اجر تو اللہ کے پاس ہے وانصح لکم (اعراف) میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں۔ میں تمہاری بہتری چاہتا ہوں یہ دو اذہان کا فرق ہے جادو گروں کو شک تھا کہ کہیں فرعون محض بیگار میں ہی ہم سے کام نہ لے لے لہٰذا انہوں نے اجرت کا مطالبہ پہلے کردیا ادھر اللہ کا سچا نبی ہے جو بلامعاوضہ لوگوں کی خیر خواہی کا حق ادا کررہا ہے۔ جادوگروں کی عزت افزائی جب جادوگروں نے اپنی اجرت کا مطالبہ کیا قال نعم تو فرعون نے کہا ، ہاں تمہیں نہ صرف معاوضہ ملے گا بلکہ انکم لمن المقربین تم میرے مصاحب بن جائو گے مقربین میں شامل ہوجائو گے ، اگر تم کامیاب ہوگئے تو تمہیں بڑے بڑے اعزاز دوں گا اپنا وزیر اور مشیر بنالوں گا بس تم ذرا کام کرکے دکھائو۔ اس زمانے میں فرعون جیسے ڈکٹیٹر کا مشیر بن جانا بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ لہٰذا وہ اس بات سے خوش ہوگئے اب ہمارا بھی کچھ نہ کچھ کام بن جائے گا اس زمانے میں بھی نجومی ، ساحر ، پامسٹ ، دست شناس ، میجک ماسٹر ، مداری وغیرہ سب وہی ذہن رکھتے ہیں کہ جس طرح بھی ہوسکے پیسہ کمائو۔ کوئی بھی ماہر بلا معاوضہ خدمت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ فرعون کے ساحروں کی طرح آج بھی سب پیسے کے پجاری ہیں تو بہرحال فرعون نے جادوگروں کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو تمہیں بہت کچھ دیا جائے گا۔ جادوگروں کا کرتب جب فرعون اور جادوگروں کے درمیان معاملہ طے ہوگیا قاو یموسیٰ جادوگر کہنے لگے اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اما ان تلقی کیا پہلے تم اپنا فن دکھانا چاہتے ہو واما ان نکون نحن الملقین یا ہم اپنا کرتب ظاہر کریں سورة طہٰ میں آتا ہے اس مقابلے کے لیے دوپہر کا وقت مقرر کیا گیا لاکھوں آدمی میدان میں اکٹھے ہوگئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کو پہلے وار کرنے کی دعوت دی قال القوا فرمایا ڈالو جو جادو تمہارے پاس ہے اسے ظاہر کرو۔ فلما القوا جب انہوں نے ڈالا اور اپنا جادو پیش کیا سحروا اعین الناس لوگوں کی آنکھوں میں سحر کردیا یعنی تماشائیوں کی نظر بندی کردی جادو کی حقیقت بس اتنی ہی ہے۔ اسے نظر کا دھوکہ کہہ لو یا ہاتھ کی صفائی جو کچھ نظر آتا ہے وہ اصلیت نہیں ہوتی مولانا رشید احمد گنگرہی (رح) فرماتے ہیں کہ قرب قیامت میں دجال کا معاملہ بھی ایسا ہی فریب نظر ہوگا حقیقت میں وہ دن معمول کے مطابق ہی ہوگا مگر لوگوں کو بہت لمبا محسوس ہوگا یہ میجک ماسٹر کیا کرتے ہیں ہاتھ میں ایک انڈا پکڑتے ہیں پھر ایک سے دو اور دو سے چار بنا دیتے ہیں یہ محض ہاتھ کی صفائی ہوتی ہے جو دو دو یا چار چار نظر آتے ہیں حقیقت میں ایک ہی انڈا ہوتا ہے اس کے برخلاف معجزہ انقلاب حقیقت پر مبنی ہوتا ہے اس کے ذریعے کسی چیز کی ماہیت ہی کو تبدیل کردیا جاتا ہے مگر یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی کیمسٹری کے ماہرین پتھر کو کسی فارمولے کے تحت سونے میں تبدیل نہیں کرسکتے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اگر چاہے تو پتھر کو سونا بنادے تمام کائنات ، ذرات اور عناصر کا خالق اللہ تعالیٰ ہے وہ جو تبدیلی چاہے کردے ۔ بہرحال جادو گروں نے لوگوں کی آنکھوں میں سحر کردیا کہ واسترھبو ھم اور ان کو ڈرایا وجاء و بسحر عظیم اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔ عصائے موسیٰ جب جادوگر اپنا کرتب دکھا رہے تھے تو موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم کے منتظر تھے کہ انہی کیا کرنا چاہیے چناچہ ارشاد ہوتا ہے واوحینا الیٰ موسیٰ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی ان الق عصاک کہ اپنی لاٹھی ڈالدیں یہ معجزے کی لاٹھی تھی اللہ کے حکم سے آپ نے وہ نیچے پھینک دی فاذا ہی تقف مایا فکون پس وہ جادوگروں کی بنائی ہوئی چیزوں کو تیزی سے نگل گئی انہوں نے رسیاں پھینکیں تھیں جو سانپ نظر آنے لگے تھے مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر جادوگروں کے جعلی سانپوں کو نگل گئی لقف کا معنی کسی چیز کو تیزی کے ساتھ نگل جانا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) فتوح الغیب میں فرماتے ہیں المومن وقاف والمنافق لقاف یعنی مومن رک جاتا ہے اور منافق تیزی سے نگل جاتا ہے جب کسی شخص پر کھانے کے لیے کوئی چیز پیش کی جاتی ہے تو مومن آدمی اس کو کھانے سے پہلے خوب تحقیق کرلیتا ہے اور حلال و حرام میں امتیاز کرتا ہے وہ جانچتا ہے کہ کوئی حرام یا مشکوک چیز نہیں۔ نذر لغیر اللہ گیارہویں شریف یا صدقہ خیرات تو نہیں برخلاف اس کے منافق آدمی بلاتحقیق تیزی سے نگل جاتا ہے یہ گویا مومن اور منافق کی پہچان ہے۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی بہت بڑا اژدھا بن کر جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نگل گئی دیکھتے ہی دیکھتے سارا میدان صاف ہوگیا پھر اژدھا اچھل اچھل کر تماشائیوں کی طرف لپکنے لگا جس سے خوف و ہراس پیدا ہوگیا فرمایا فوقع الحق پس حق ثابت ہوگیا۔ وبطل مالکانوا یعملون اور جادوگروں کا بنایا ہوا کھیل باطل ہوگیا۔ حقیقت کے سامنے جادو ناکام ہوگیا فغلبوا ھنالک فرعونی اور جادوگر مغلوب ہوگئے وانقلبوا صغرین اور وہ ذلیل ہو کر واپس لوٹ آئے۔
Top