Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے اَنْ : کہ يَّعْمُرُوْا : وہ آباد کریں مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں شٰهِدِيْنَ : تسلیم کرتے ہوں عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے اوپر) بِالْكُفْرِ : کفر کو اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال وَ : اور فِي النَّارِ : جہنم میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
مشرکوں کو زیبا نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں۔ ان لوگوں کے سب اعمال ضائع گئے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے
آیات 17 تا 24 اسرار و معارف فتح مکہ کے بعد اگر چہ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کردیا گیا تھا مگر مشرکین اپنی رسومات تو اپنے ہی طور پر ادا کرتے تھے اور یہ ضروری تھا کہ بیت اللہ کو ان خرافات سے بھی پاک کیا جاتا مگر اس میں رکاوٹ یہ تھی کہ بعض قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے معادہ صلح کی مدت باقی تھی اور انھوں نے عہد شکنی بھی نہ کی تھی لہٰذا ایک سال تک مہلت دی گئی اس میں وہ مدت بھی گزرگئی اور کوئی نیا معاہدہ نہ کیا گیا بلکہ 9 ھجری؁ کے حج میں آپ ﷺ نے اعلان کرادیا کہ آئندہ کوئی مشرک بیت اللہ کی حدود میں داخل نہ ہوگا اور نہ کافر انہ رسوم ادا کرسکے گا۔ مشرکین اپنے زعم باطل میں بتوں کی پوجا اور عمارت کی تعمیر یاد دیکھ بھال کو بیت اللہ کی آبادی اور رونق سے تعبیر کرکے اس پر فخر کرتے تھے حتی کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ہی کی روایت ہے کہ جب حضرت عباس ؓ بدر میں اسیر ہوئے تو انھیں شرک پر قائم رہنے پر عاردلائی گئی تو انھوں نے جواب دیا کہ تم لوگ ہماری برائیاں شمار کرتے ہو مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہم بیت اللہ کو آباد رکھنے کے لئے کتنا اہتمام کیا اور وہاں آنے والوں کی کس قدر خدمت اور دیکھ بھال کرتے ہیں ۔ تو ارشاد ہوا کہ مساجد کی آبادی کا کفار ومشرکین کو کوئی حق نہیں اور جو افعال محض رسومات کے طور پر کئے جاتے ہیں وہ آبادی میں شمار بھی نہیں ہوسکتے کہ اللہ نے ان کے کرنے کا حکم نہیں دیا نہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہیں رہی درد دیوار کی تعمیر اور حفاظت وغیرہ تو یہ کام اگر چہ بجائے خود نیک ہے لیکن کافر ومشرک کو تو اس کا بھی کوئی اجرنہ ملے گا کہ نیکی کی بنیاد بھی ایمان ہے اور اللہ کا حکم جان کر کسی کام کو کرنا آخرت میں اجر کا سبب بنتا ہے جو ان کے ہاں مقصود ہے لہٰذا ان کے یہ اعمال بھی ضائع گئے ” یعمروا “ سے مراد ہر طرح کی آبادی اور عبادت کے لئے حاضری ہے اسی لئے ایسی حاضری کو عمرہ کہا جاتا ہے لہٰذا جس شخص کے عقائدواعمال کافرانہ ہوں وہ تو ہمیشہ کے لئے آگ میں جھونکاجائے گا ۔ مساجد عبادت کے لئے ہیں رسومات کے لئے نہیں یہاں یہ بات بھی ثابت ہے کہ ایسے اعمال جن کا ثبوت سنت میں نہیں اور محض رسومات کا درجہ رکھتے ہیں مساجد میں ان کا کرنا سخت منع ہے بلکہ کافروں کی مشابہت ہے آجکل ہر مسجد میں کوئی نہ کوئی نئی رسم دیکھنے میں آتی ہے اس سے احتیاط ضروری ہے ۔ پھر مساجد کی آبادی کا مثبت پہلوارشاد فرمایا کہ مساجد کو آباد کرنا ایماندار لوگوں کا کام ہے جن کا اللہ پر یوم آخرت پر ایمان ہو اور ان کے اعمال ان کے مومن ہونے کی گواہی دیں مثلا وہ نماز قائم کرنے والے ہوں اور زکٰوۃ ادا کرنے والے یعنی اپنا وقت اپنی طاقت اور اپنا مال اللہ کے حکم کے مطابق صرف کرنے والے ہون نیز صرف اللہ سے ڈرنے والے ہوں محض دنیا کے نقصان کے اندیشوں میں مبتلا ہو کر اللہ کی عبادت چھوڑ دینے والے نہ ہو تو ایسے لوگوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔ کافر کو متولی مسجد بنانایا اس کا چندہ یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کافر کو مسجد کا متولی بنانا جائز نہیں نہ ہی کفار ومشرکین کا چندہ تعمیر مسجد میں لگانا جائز ہے ۔ ہاں ! اگر کسی کافر ومشرک نے مسجد بنادی یا چندہ دیا تو اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ اس کے باعث کوئی نقصان نہ ہو اور وہ مسلمانوں پر احسان نہ حبتلائے یا امور مسجد میں دخل اندازی نہ کرے اور اس کے باو جو دبھی کافر کو ثواب نہ ہوگا ۔ واللہ اعلم ۔ عمارت مسجد عمارت مسجد میں تعمیر ، صفائی حفاظت اور ضروریات کے اہتمام کے ساتھ دینی پڑھنے ، یا تلاوت کرنے عبادت کرنے یا ذکر اللہ کے لئے مساجد میں حاضری جملہ امور شامل ہیں اور تفسیر مظہری کے مطابق ایسے امور جو مسجد میں جائز نہیں ان کاروکنا بھی عمارت مسجد میں شامل ہے مثلا مال دنیا کے لئے لوگوں سے سوال کرنا یا گمشدہ چیزوں کی تلاش کے اعلانات یا خریدو فروخت یا جھگڑا اور شوروشغب اور اسی طرح فضول قسم کے اشعار گانا وغیرہ ذالک من الخرافات ارشاد ہوا کیا تم نے حاجیوں کی خدمت اور مسجد حرام کو آبادرکھنے کی کوششوں کو ایمان باللہ اور آخرت پہ یقین نیز اللہ کی راہ میں جہاد کے ہم پلہ سمجھ لیا ہے ؟ ہرگز نہیں ! جو لوگ مسجدیں آباد کریں بیشک مسجد حرام کی آبادی کا اہتمام کریں اور حاجیوں کو پانی پلانے کا اہتمام کریں وہ ہر گزان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو عملا جہاد میں شریک ہوتے ہیں۔ عبادات اور جہاد مفسرین کرام کے مطابق مشرکین کی بات کا جواب تو پہلے بھی ارشاد ہوچکا ہے اور اس اگر ایمان نصیب نہ ہو تو اس کی کوئی قدروقیمت نہیں کہ ایمان ہی اعمال کی روح ہے جسے اللہ کریم اور آخرت پر ایمان نصیب ہی نہیں وہ بھلا اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے اجر کی امید پر کام کیسے کرسکتا ہے اور جب کسی کام میں یہ دونوں باتیں نہ پائی جائیں تو وہ نیکی نہیں کہلائے گا یعنی ایساعمل جو ابدی اور اخروی زندگی میں نفع پہنچائے ۔ اس کے باوجود بھی قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ کافر نیکی بھی بالکل بےاثر نہیں رہتی اسے اس کا بدلہ دنیا کی زندگی میں مل جاتا ہے اور ان مسلمانوں کو تنبیہ فرمادی گئی ہے جو محض عبادات ہی پہ سارا زور صرف کردیتے ہیں اور غلبہ اسلامی کے لئے کوشش نہیں کرتے اگرچہ عبادات بہت فضیلت رکھتی ہیں مگر عبادات ہی کے قیام کے لئے مساجدہی کی آبادی کے لئے جہاد کی ضرورت ہے تا کہ اسلام غالب اور حاکم ہو کر رہے اگر ان کوششوں میں کوئی شریک نہیں تو بیشک وہ عمر عزیز کو مسجد الحرام میں عبادت کرنے اور حاجیوں کی خدمت کرنے میں بسر کردے ہرگز ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتا جو میدان جہاد میں دادشجاعت دیتے ہیں یا میدان عمل میں غلبہ اسلام کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ ذکر اللہ اور جہاد حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں بحث فرمائی ہے کہ عمارت مسجد سے مسجد کے ظاہری انتظامات مراد ہوں تو جہاد کی فضیلت مسلم ہے لیکن عمارت مسجد یا مسجد کی آبادی سے مراد اگر ذکر اللہ ہو تو آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق ذکر اللہ جہاد سے افضل ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھیں ایسا عمل بتلادوں جو تمام اعمال سے بہتر سب سے افضل اور درجات کو بلند کرنے والا اور اللہ کی راہ میں سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو کہ تم جہاد میں دشمن سے مقابلہ کرو ، اور مارو اور مارے جاؤ ۔ تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ضرور فرمائیے تو ارشاد ہوا وہ عمل ذکر اللہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذکر اللہ جہاد سے افضل ہے ۔ یہ جس حدیث کا مفہوم بیان ہوا ہے ۔ یہ مسنداحمد ترمذی اور ابن ماجہ میں مذکور ہے لہٰذا فرماتے ہیں کہ مشرکین کا فخر مسجد میں ذکر اللہ کرنے پر نہ تھا ، ظاہری آبادی مراد تھی لہٰذ جہاد کو افضل قرار دیا گیا ۔ مگر حق یہ ہے کہ ذکر اللہ جس طرح مسجد میں ضروری ہے ویسے ہی جہاد میں کسی کافر طاقت سے مقابلہ ہو تو جم کر لڑو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ قلب سلیم دراصل ذکر کثیر ذکر قلبی ہی ہے اور جب یہ نصیب ہوتا ہے تو دل ہر دھڑکن میں کئی بار اللہ اس کی فضیلت میں کلام نہیں ۔ ذکر لسانی یا عملی عبادات تو فوت بھی ہوسکتی ہیں جیسے غزوہ خندق میں حضور نبی کریم ﷺ کی چار نمازیں فوت ہوئیں مگر قلب اطہر اور وجود عالی کا ذکر تو کسی حال میں منقطع نہ ہوا نیز حالات اور ضرورت کے اعتبار سے اعمال کی فضیلت تبدیل ہوسکتی ہے جیسے اشدضرورت میں سب کچھ چھوڑ کر حتی کہ نماز قضا ہوسکتی ہے مگر جہاد میں سستی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ لیکن ذکر خفی یاقلبی عمل ہی عظیم الشان ہے کہ کوئی بھی مصرو فیت اسے روک نہیں سکتی لہٰذ ایہ سب سے افضل ہے کہ خلوص فی العبادات بھی اسی کا پھل ہے اور خلوص فی الجہاد بھی اسی کا ثمر ۔ اور یہ سب باتیں روز روشن کی طرح واضح ہیں مگر بدکاریا نور ایمان سے محروم لوگوں کو اللہ کریم سمجھنے کی استعداد سے بھی محروم فرمادیتے ہیں اور گناہ سے عقل بھی زنگ آلو د ہوجاتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن کے مثالی انسان اور ان کے درجات کا تذکرہ بلاشبہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ایمان سے محروم رہنے والوں سے تو ان کا درجہ بہت بلند ہو ہی گیا مگر جن لوگوں نے ایمان قبول کرکے عمارت مسجد اور حاجیوں کی خدمت کافریضہ پورے خلوص سے نبھایا یہ گھروں کو قربان کرکے ہجرت کرنے والے اور اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ان سے بھی بڑھ گئے اور ان مہاجرین ومجاہد ین کا درجہ اللہ کریم کے حضور بہت بڑا ہے اور پورے طور پر کامیابی انہی کو نصیب ہوئی ۔ اللہ کریم انھیں اپنی رحمت کی نوید سناتے ہیں کہ انھوں نے ایمان و عبادات کے ساتھ میدان عمل میں اپنی جان لڑادی اگر تبقا ضائے بشریت کوئی لغزش بھی ہوجائے یا کسی طرح کی کمی رہ جائے تو اللہ کی رحمت اس کا مداواکردے گی نیز انھیں اپنی رضا کی بشارت دیتا ہے اور اپنی جنت ان پر نچھ اور کرتا ہے جس میں بیحد و حساب نعمتیں ہوں گی اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ نعمتوں میں کمی آئے گی اور نہ ان کی مدت قیام کبھی ختم ہوگی ۔ یاد رہے ! قرآن حکیم کے مثالی مسلمان جن کے درجات کا ذکر فرمایا جارہا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور وہی لوگ ہمیشہ کے لئے معیار قرار دیئے گئے ہیں ۔ تعلقات کی نوعیت اے ایمان والو ! تمہیں ایسے لوگوں سے کوئی واسطہ نہ رکھنا ہوگا جو اسلام کے مقابلہ میں کفر سے محبت رکھتے ہوں خواہ وہ تمہارے والدین ہوں یا بھائی کہ جسم کا رشتہ محض بقائے نسل اور دنیا کی ضرورت پوری کرنے کا باعث ہے اور ایمان کا رشتہ ہی حقیقی رشتہ ہے جس پر دائمی اور اخروی زندگی کی کامیابی کا مدار ہے ۔ بیشک والدین کے ساتھ محبت حسن سلوک اور ان کی خدمت بہت بڑا کام ہے اسی طرح بھائیوں کے حقوق ہیں لیکن اگر اسلام کی محبت اور ان کی محبت میں ٹکراؤ آجائے یا وہ کفر پر مصر ہوں تو پھر دین کا رشتہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت قائم رہے گی اور ان کا تعلق ختم ہوگا اگر کوئی ا اس کے باوجود بھی ان سے تعلق رکھے گا توبہت بڑا نافرمان شمار ہوگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا وہ انھیں محبوب ہوگئے اور جو کبھی محبوب تھے عزیز رشتہ دار بھائی اور بیٹے تھے مگر جب اسلام کے مقابل بدرو احد میں آئے تو ان کی تلواروں کو اپنی تلواروں پہ روکا اور رہتی دنیا تک تعلقات کی نوعیت کی مثال قائم کردی ۔ اللہ کریم ہمیں ان کے مبارک نقوش پاپہ چلنے کی سعادت بخشے ! آمین۔ ایک فیصلہ کن انداز میں ارشاد ہوا کہ سب لوگوں کو بتادیجئے کہ اگر والدین بیٹے بھائی یا بیبیاں یا تمہارے اقارب اور مال و دولت یا وہ کاروبار جس کے بند ہونے کا ڈر ہو یا پسندیدہ مکان تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے زیادہ محبوب ہوں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں رکاوٹ بنتے ہوں تو عذاب الٰہی کا انتظار کرو کہ ایسے بدکار لوگ کبھی منزل کو نہیں پاسکتے اپنے نزول کے اعتبار سے آیہ کریمہ کا خطاب ان لوگوں سے ہے ۔ محبت الٰہیہ تمام محبتوں پہ غالب ہونی چاہیے جو باو جود قدرت رکھنے کے محض تعلقات یا مالی نقصان سے ڈرکر ہجرت نہ کریں مگر اس کے عموم میں ہمیشہ کے لئے سب لوگ شامل ہیں اور اس دور میں باوجود طاقت کے اگر کوئی ہجرت نہ کرتا تو مسلمان شمارہی نہ ہوتا تھا آج بھی ایسی سرزمین جہاں فسق وفجور کا غلبہ ہو چھوڑ دینے کا حکم ہے سوائے اس کے کہ آدمی میں ترک وطن کی یا اس سرزمین سے نکلنے کی طاقت ہی نہ ہو۔ طلب زر میں مغرب کا سفر جو لوگ محض دولت کمانے کے لئے مسلمان معاشرہ چھوڑ کرمغرب کے کافر انہ اور انتہائی فحش معاشرے میں جانا پسند کرتے ہیں وہ بہت بڑا گناہ کرتے ہیں اور اکثر عذاب الٰہی کو دنیا میں بھی دیکھ کر ہی مرتے ہیں اور آخرت بھی تباہ کربیٹھتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ بدکاروں سے تعلق ختم کرکے اور ایسے معاشرے کو ترک کرکے نیک لوگوں میں جابسنا آج بھی فرض ہے اور ہمیشہ رہے گا سوائے ان لوگوں کے جو وہاں دینی کام کی غرض سے یاسر کاری فرائض کی ادائیگی کے لئے جائیں وہ بھی ایسے لوگ ہونے چاہیں جو وہاں جاکر اپنا رنگ قائم رکھیں ان کے رنگ میں نہ رنگ جائیں ۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسے معاشرے میں پیدا ہونے والا اگر نور ایمان پالے تو ہر طرح کی فطری محبت کو قرآن کرکے عقلی اور شعوری محبت جو وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے قائم کرتا ہے کا دم بھرے اور ایسے لوگوں میں جاب سے جو دین دار ہوں نیز عملی زندگی میں نفاذ اسلام اور ردکفر کے لئے جہاد کرے ورنہ ایمان بچانا مشکل ہوجائیگا ۔ اثرمحبت جس طرح بدکاروں کے ساتھ رہنے سے ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے اسی طرح نیکوکاروں اور مشائخ کی صحبت میں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے امام بیضاوی (رح) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بہت کم لوگ اس وعید سے مستثنی ہوں گے ورنہ بڑے بڑے عابد وزاہد مال و دولت یا عزیز و اقارب کی محبت میں اسیر جہاد سے بیگانہ ہوچکے ہیں ۔ اگر چہ یہاں محبت عقلی مراد ہے اور فطری جذبات اگرچہ اپنا اثررکھتے ہوں ، مگر ان محبتوں کو اللہ کے راستے میں حائل نہ ہونے دے تو بھی نہ صرف اس وعید سے بچ جائے گا بلکہ لائق ستائش ہے مگر اس محبت کا حقیقی مقام یہ ہے کہ یہی الفت طبیعت اور مزاج پر بھی غالب آجائے اور باقی سب محبتیں ضرور ہوں مگر اس کے تابع ہو کر ۔ شیخ اور صحبت شیخ کی ضرورت صاحب تفسیر مظہری کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ محبت کا یہ درجہ ایک نعمت کبری ہے مگر اس کا حصول انعکاسی طور پر صحبت مشائخ سے ہی ممکن ہے جیسے صحبت رسالت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ نعمت بخشی ان کی صحبت نے تابعین کو عطاکی اور آج تک یہ ثابت ہے جو جذبہ دل صحبت شیخ میں انعکا سی طور پر نصیب ہوتا ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہیں ۔ اگر بدکار کی صحبت سے منع فرمایا کہ ایمان اور ہدایت کے لئے خطرہ ہے تو یہی مشائخ کی صحبت اختیار کرنے کی دلیل بھی ہے کہ اس میں ایمان کی لذت وحلاوت نصیب ہوتی ہے اور عقلی وشعوری محبت ترقی کرکے مرتبہ عشق پہ فائزہوتی ہے ۔ اکثرمفسرین نے یہاں یہی مسلک اپنایا ہے اور فرمایا کہ مقام خلہ تک رسائی کے لئے خلیل آسا سب کچھ لٹانا پڑے ۔ نیز فرمایا کہ شریعت وسنت کی حفاظت اس میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے مقابلہ اور جہاد ہی اس محبت وسرفروشی کانشان ہیں ۔
Top