Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے اَنْ : کہ يَّعْمُرُوْا : وہ آباد کریں مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں شٰهِدِيْنَ : تسلیم کرتے ہوں عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے اوپر) بِالْكُفْرِ : کفر کو اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال وَ : اور فِي النَّارِ : جہنم میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
مشرکین اس کے اہل نہیں ہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں اس حال میں کہ وہ اپنے بارے میں کافر ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال اکارت ہوگئے۔ اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،
مشرکین اس کے اہل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں معالم التنزیل (ص 273 ج 2) میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت عباس کو قید کرلیا گیا تو مسلمانوں نے عباس کو عار دلائی کہ تم کفر اختیار کیے ہوئے ہو اور اور تمہارے اندر قطع رحمی بھی ہے (کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو مشرکین نے مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا) اور اس بارے میں حضرت علی نے سخت باتیں کہہ دیں تو اس کے جواب میں عباس نے کہا کہ آپ لوگ ہماری برائیاں تو ذکر کرتے ہیں کیا بات ہے کہ ہماری خوبیاں ذکر نہیں کرتے حضرت علی نے فرمایا کیا تمہارے پاس خوبیاں بھی ہیں ؟ عباس نے کہا کہ ہاں ! ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور کعبہ کی دربانی کرتے ہیں اور حجاج کو پانی پلاتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ اور یہ بتادیا کہ مشرکوں کا یہ کام نہیں کہ مسجدوں کو آباد کریں۔ مشرک ہوتے ہوئے مسجد کی آبادی کا کوئی معنی نہیں۔ کعبہ شریف تو شرک کے دشمن حضرات ابراہیم (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ کعبہ اور کعبہ کی مسجد کی بنیاد توحید پر ہے جو لوگ اپنے اقرار و اعمال سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم کافر ہیں یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے دین کو نہیں مانتے ان کا مسجد کو آباد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہاں یہ لوگ شرک کرتے ہیں اگر ظاہری کوئی آبادی کردی یعنی اس کے متولی بن کر کچھ در و دیوار کی دیکھ بھال کرلی تو کفر اور شرک جیسی بغاوت کے سامنے یہ بےحقیقت ہے پھر مسجد حرام میں جاتے تھے تو سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے (جیسا کہ سورة انفال کے چوتھے رکوع میں گزر چکا ہے) ایسا آباد کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک آباد کرنے میں شمار نہیں ہے، صاحب معالم التنزیل (ص 273 ج 2) لکھتے ہیں : أی ما ینبغی للمشرکین أن یعمروا مساجد اللہ، اوجب علی المسلمین منعھم من ذلک لأن المساجد انما تعمر لعبادۃ اللہ وحدہ فمن کان کافرا باللہ فلیس من شانہ ان یعمرھا (یعنی اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا مشرکوں کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ مشرکوں کو اللہ کے گھر سے روکیں کیونکہ مسجدیں خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت سے آباد ہوتی ہیں جو اللہ کا منکر ہے مسجدوں کو آباد کرنا اس کا کام نہیں ہے) پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ) کہ ان کے سب اعمال اکارت چلے گئے (کیونکہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عمل اگرچہ بظاہر عبادت ہو آخرت میں کوئی نفع دینے والا نہیں) (وَ فِی النَّارِھُمْ خٰلِدُوْنَ ) (اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں) ۔
Top