Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 134
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو سُعِدُوْا : خوش بخت ہوئے فَفِي الْجَنَّةِ : سو جنت میں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب عَطَآءً : عطا۔ بخشش غَيْرَ مَجْذُوْذٍ : ختم نہ ہونے والی
اور جو نیک بخت ہوں گے ہے بہشت میں (داخل کئے جائیں گے اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ کہ خدا کی بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔
تفسیر : 108۔” واما الذین سعدوا “ حمزہ ، کسائی اور حفص رحمہم اللہ نے ” سعدوا “ سین کے پیش اور عین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے یعنی سعادت دیئے گئے۔ اور دیگر حضرات نے سین کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ” شقوا “ پر قیاس کرتے ہوئے۔” ففی الجنۃ خالدین فیھا ما دامت السموات والارض الا ما شاء ربک “ ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ مگر وہ مدت جو وہ آگ میں ٹھہریں گے حتی ٰکہ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے استثناء کو خوب جانتا ہے۔ ” عطاء غیر مجذوذ “ یعنی ختم نہ ہوگی ۔ ابن زید (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اہل جنت کے لیے وہ کیا چاہتے ہیں تو فرمایا ” عطاء غیر مجذوذ “ اور ہمیں یہ خبر نہیں دی کہ اہل جہنم کے لیے کیا چاہتے ہیں ۔ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جہنم پر ضرور ایک زمانہ آئے گا کہ ایسا کوئی نہ ہوگا اور یہ اس کے بعد ہوگا جب وہ اس جہنم میں کئی حقب رہ چکے ہوں گے اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی اسی کی مثل روایت ہے اور اہل سنت کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ اگر یہ روایت ثابت ہے تو ایمان والوں میں سے کوئی جہنم میں نہ ہوگا ورنہ کفار کی جگہیں تو بھری ہوئی ہوں گی۔
Top