Tafseer-e-Majidi - Hud : 108
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو سُعِدُوْا : خوش بخت ہوئے فَفِي الْجَنَّةِ : سو جنت میں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب عَطَآءً : عطا۔ بخشش غَيْرَ مَجْذُوْذٍ : ختم نہ ہونے والی
اور جو لوگ سعید ہیں وہ جنت میں ہوں گے اس میں رہیں گے (ہمیشہ ہمیش) جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں بجز اس کے کہ آپ کا پروردگار چاہے (یہ) عطیہ غیر منقطع ہے،151۔
151۔ یہ بخشش غیر منقطع ہوگی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی جنتی کچھ روز بعد جنت سے باہر کردیا جائے۔ (آیت) ” الا ما شآء ربک “۔ استثناء (آیت) ” الذین سعدوا “۔ سے ہے یعنی ہر مطیع و سعید بھی مشیت الہی وفضل خداوندی کے بعد ہی جنت میں داخل ہوسکے گا۔ معنی الاستثناء ھھنا ان دوامھم فی ماھم فیہ من النعیم لیس امرا واجبا بذاتہ بل ھو موکول الی مشیۃ اللہ تعالیٰ (ابن کثیر) مذہب اہل سنت کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ عاصی مسلم بہرحال خلود نار کا مستوجب نہیں، اگر بالکل معافی نہ ہوئی جب بھی کچھ سزاجھیلنے کے بعد جنت میں لے آیا جائے گا۔ احادیث میں یہ مضمون بہت صراحت کے ساتھ آیا ہے مفسر نسفی نے لکھا ہے کہ معتزلہ کو جب ان احادیث کی گرفت سے مفر نہ ملا تو خود ان احادیث ہی سے انکار کربیٹھے۔ والمعتزلۃ لما لم یروا خروج العصاۃ من النار ردوا الاحادیث المرویۃ فی ھذا الباب وکفی بہ اثما مبینا (مدارک) اور یہی دستور ہمارے زمانہ کے گمراہ فرقوں کا بھی ہے۔
Top